مساجد میں عورتوں کا داخلہ

ڈاکٹر ندیم سحر عنبرین (شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)

قرآن مجید میں نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔(أقیموا الصلوٰۃ)یہ حکم مردوں اور عورتوں دونوں کو دیا گیا ہے۔ دونوں کو صحیح طریقے سے نماز ادا کرنے پر اجر و ثواب کی بشارت دی گئی ہے اور اس سے بے توجہی برتنے اور لاپرواہی کرنے پردونوں کو یکساں طور پر وعید سنائی گئی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں اپنی نماز کہاں اور کب ادا کریں گے؟قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ مردوں اور عورتوں پر نماز متعین اوقات میں فرض ہے۔ مردوں کو جماعت سے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کے مسجدوں میں نماز پڑھنے کو گھر میں نماز پڑھنے سے افضل قرار دیا گیا ہے، جب کہ عورتوںکو اس معاملے میں رخصت دی گئی ہے اور ان کے گھروں میں نماز پڑھنے کو افضل کہا گیا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرق کیوں؟ کیا اسلام میں مرد و عورت کے درمیان فرق ہے؟ کیا عورت کو مرد کے مقابلے میں کم تر اہمیت دی گئی ہے؟حقیقت میں یہ مرد و عورت کے درمیان نا برابری یاعورت کی حق تلفی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قسم کی سہولت ہے، جو عورت کو فراہم کی گئی ہے۔مردکو عام حکم ہے کہ وہ جیسے ہی اذان کی آواز سنے، فوراً اپنے تمام کام چھوڑ دے اور مسجد جاکر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے، (عورت کو اس کی طبیعی مصلحت کو مدنظر رکھتے ہونے کی وجہ سے بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں : مثلاً کھانا پکانا، چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال، گھر کی ذمے داری، شوہر کی غیر موجودگی میں گھر کی حفاظت وغیر کہ اس کا گھر چھوڑ کر مسجد جانا آسان نہیں) اسے مسجد جاکر نماز ادا کرنے کا پابند نہیں کیا گیا ہے، بلکہ گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔گویا یہ عورت کو اللہ کا دیا ہوا عطیہ ہے، جس پر اس کے لیے شکر گزاری واجب ہے۔

ذہنی کش مکش اور الجھن اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ سمجھ لیا جائے کہ عورت کو مسجد میں جگہ دی ہی نہیں جا سکتی،عورت کسی صورت میں مسجد میں داخل ہی نہیں ہو سکتی، اس کا مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ تو کیا مسجدِ حرام اور مسجد ِنبوی مسجدیں نہیں ہیں، جہاں بلا تفریق مرد و عورت اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں، جہاں عورتیں بھی فرض نمازوں کی ادائیگی اور قیامِ لیل کا اہتمام کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بہترین رہ نمائی خود ہمارے آقاﷺ کے دور کے حالات،آپ کی زندگی اور احادیث سے ملتی ہے۔ دورِ رسالت اور خلفائے راشدین کے عہد میں اور اس کے بعد میں بھی خواتین مساجد جاتی رہی ہیں، نہ صرف نماز پڑھنے، بلکہ درس و تدریس کے لیے بھی۔ بہت سی خواتین ایک زمانہ تک مساجد میںقرآن و حدیث کا درس دیتی رہی ہیں اور دنیابھر کے مسلم معاشروں میں آج بھی جاتی ہیں۔

محض اس لیے کہ خواتین کا اپنے گھروں میں نماز پڑھنا افضل ہے، یا ان کا تعلق اندرونِ خانہ ہونے کی وجہ سے مساجد ان کے لیے نہیں ہیں،ان کو مساجد سے نہیں روکا جا سکتا۔ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے خواتین مسجد جاتی تھیں اور آپ کی امامت میں نماز ادا کرتی تھیں، لیکن آپؐ نے ان کو کبھی مسجد آنے سے منع نہیں کیا۔ متعدد روایات ایسی ملتی ہیں جب نبی کریم ﷺ نے بچوں کے رونے کی وجہ سے نماز مختصر پڑھائی کہ کہیں ان کی ماؤں کی توجہ نماز سے نہ ہٹے، یا وہ بے چین نہ ہو جائیں۔لیکن آپ نے کبھی یہ حکم صادر نہیں کیا کہ خواتین مسجد نہ آئیں یا اپنے بچوں کو مسجد نہ لائیں، جب کہ امت مسلمہ کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔

مختلف احادیث سے عہد نبوی میں عورتوں کے مسجد جاکرنماز با جماعت پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ فرض نمازوں کے علاوہ تذکیر و تدریس کے لیے بھی مسجد جایا کرتی تھیں۔ اس کی انھیں عام اجازت تھی۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب ؓ جیسی عظیم اور باوقار شخصیت ،جن کے مشورہ اور حکم کو لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے،انھیں اپنی بیوی عاتکہ ؓ کامسجد جانا پسند نہیں تھا، لیکن وہ تمام نمازیں مسجد جاکر ہی ادا کرتی تھیں۔ایک مرتبہ ان سے کسی نے کہاکہ آپ مسجد جانا کیوں نہیں چھوڑ دیتیں ، جب کہ آپ کے شوہر کو آپ کا مسجد جانا پسند نہیں ہے۔ انھوں نے جواب دیا: وہ مجھے روک کیوں نہیں دیتے؟ کہنے والے نے جواب دیا: انھیں نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ایسا کرنے سے روکتا ہے:لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ یعنی اللہ کی باندیوں کو مساجد جانے سے نہ روکو۔چنانچہ وہ برابر نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جاتی رہیں۔

ان تمام روایات اور آثارِ صحابہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خواتین کو مسجد جانے سے روکنا درست نہیں ہے۔اگر وہ مسجد جانا چاہیں تو جا سکتی ہیں۔

قرآن کریم میں ہے:’’ان گھروں میں جنہیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے، ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔‘‘ (النور:۳۶-۳۷)

اس آیت میں ’رجال‘(مرد)کا لفظ آیا ہے۔ اس سے بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ مساجد مردوں کے لیے ہیں۔ اسی بنا پر علامہ ابن کثیرؒ نے عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل قرار دیا ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔لفظ’رجال‘ مرد اور عورت دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عرب میں یہ دونوں کے لیے مستعمل تھا۔ قرآن مجیدنے بھی متعدد مقامات پرلفظ ’رجال‘ کے ذریعے مرد اورعورت دونوں کو مخاطب کیا ہے،مثلاً الاعراف:۴۶۔آیت من المؤمنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ(الاحزاب:۲۳) کا مخاطب مرد اور عورت دونوں ہیں۔قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ جہاں قرآن کا مخاطب دونوں ہوتے ہیں اور عورتوں کا تذکرہ خاص طور پر کرنا ہوتا ہے تو وہاں ’رجال‘ کے ساتھ‘ ’اناث‘ کا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً لو لا رجال مؤمنون و نساء مؤمنٰت لم تعلموھم ( الفتح:۲۵)اس سے واضح ہوتا ہے کہ لفظ’رجال‘ مردوں کے لیے مخصوص نہیں ہے ، بلکہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے اس کا استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا عورتوں کو مساجد سے روکنے کے لیے قرآن کریم سے دلیل لانا بے معنیٰ ہے۔

عہد نبوی میں مسجد میں عورتوں کا نظم اس طرح کیا گیا تھا کہ ان کی صفیں پیچھے سے شروع ہوتی تھیں اور مردوں کی صفیں آگے سے شروع ہوتی تھیں۔ درمیان میں بچوں کی صفیں ہوتی تھیں۔مزید برآںمسجد میں ان کے داخلے کے لیے ایک دروازہ خاص کردیا گیا تھا۔

اسلامی نصوص سے واضح ہوتا ہے کہ مسجد میںجمعہ یا جماعت سے نماز پڑھنا عورت کے لیے اتنا افضل نہیں ہے جتنا کہ مرد کے لیے ہے۔ حدیث میں ہے:

’’جمعہ واجب حق ہے ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ، سوائے چار افراد کے:غلام،عورت،بچہ اور مریض۔ جو شخص اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ جمعہ ادا کرے ، سوائے عورت، بچہ، غلام اور مریض کے۔ عورتوں پر جمعہ وغیرہ نہیں ہے۔‘‘ (مسند الشافعي:۱؍۶۱)

خلاصہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ:

٭عورتوں کو مساجد سے روکنا اسلام کی روح کے خلاف ہے،بلکہ ایسا کرنے سے اسلامی تعلیمات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

٭آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی بلا تفریق مرد و عورت دونوں کو مساجد میں جاکر نماز اور دیگر عبادات کرنے کا حق دیتی ہیں۔صحابیات عبادتی، علمی اور اجتماعی سرگرمیاں مساجد میں انجام دیتی تھیں۔

٭حضرت ام حمید ؓ سے مروی حدیث، جس میں ہے کہ عورت کا گھر میں نماز پڑھنا اس کے مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے،اس کا ایک خاص پس منظر ہے۔ یہ حکم صرف مذکورہ صحابیہ کے لیے خاص تھا۔ اسے عورتوں کے لیے عمومی حکم قرار دینا صحیح نہیں ہے۔٭ عورت اور مرد دونوں مسجد کے صدر دروازے سے داخل ہو سکتے ہیں،البتہ ان کے لیے علیٰحدہ دروازہ خاص کردیا جائے تو بہتر ہے۔٭ عورتوں کے لیے مسجد جانے کے لیے کوئی خاص لباس متعین نہیں کیا گیا ہے۔ وہ کسی بھی ساتر لباس میں مسجد جا سکتی ہیں۔ بس وہ اتنا تنگ، زرق برق یا معطّر نہ ہو کہ دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرے۔٭ مرد اورعورت دونوں درس و تدریس کے لیے مسجد جا سکتے ہیں۔٭ عورت مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہے اور مسجد میں اعتکاف کرنے والے مرد کے پاس کسی ضرورت سے جا سکتی ہے۔

٭ عورت کے لیے جمعہ اور جماعت سے نماز کی ادائیگی واجب نہیں ہے، لیکن اگر ادا کرلے تو ہو جائے گی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں