مسافر کی ڈائری

مسافر ابن مسافر

خوبصورت مسجد

مسافر ایک بستی میں پہنچا۔ مسلمانوں کی بستی تھی ۔ بستی میں کئی مسجدیں تھیں۔ ایک مسجد بڑی سجی ہوئی تھی۔ اس کے بڑے اونچے اونچے کلس تھے۔ دیواروں پر رنگ برنگی خوبصورت ڈیزائنیں بنی ہوئی تھیں۔ بڑے بڑے خوبصورت طغرے لٹک رہے تھے۔ مغرب کی نماز کا وقت ہورہا تھا۔ لیکن مسجد خالی تھی۔ نماز ادا کرنے کی نیت سے مسافر مسجد میں داخل ہوگیا۔ وضو کیا اور وقت دیکھ کر اذان دے دی۔ پھر بھی کوئی نہیں آیا۔ اس نے سوچا جماعت کے لیے کچھ دیر انتظار کرلے۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا۔ پاؤں دھوئے اور مسجد کے طاقوں میں موم بتی جلا کر چلتا بنا۔ مسافر نے اسے روکا اور پوچھا : ’’کیا آپ نماز نہیں پڑھیں گے؟ آئیے جماعت ہوجائے۔‘‘اس نے مسافر کو اوپر سے نیچے تک بڑے غور سے دیکھا بولا: ’’شاید آپ مسافر ہیں، میں کھانا بھیجتا ہوں۔‘‘

یہ برتاؤ

ریلوے مسافر خانے میں مسافر ایک ایسی عورت سے ملا جو عمر کے تقریباً پچاس پچپن سال گزار چکی تھی۔ وہ کسی کو زور زور سے کوس رہی تھی۔ گالیاں دے رہی تھی۔ ایک نوجوان عورت اس کے پاس بیٹھی تھی نہایت قیمتی کپڑے پہنے تھی۔ کلائی میں چوڑیوں کے بجائے بڑے ڈائل کی گھڑی تھی۔ سینڈل کی ایڑیاں بڑی اونچی تھیں آنکھوں میں کاجل بڑا لمبا کھنچا ہوا تھا۔ خشک سیاہ زلفیں لہرا رہی تھیں۔ نوجوان عورت اس عمر رسیدہ عورت کو مسکرا مسکرا کر سمجھا رہی تھی۔ مسافر نے عمر رسیدہ عورت سے پوچھا۔

’’ماں جی، آپ کس کو کوس رہی ہیں؟ گالیاں دے رہی ہیں؟‘‘

بھیا کیا بتاؤں، ایک ڈائن۔ ایسی میرے گھر میں آئی کہ میرے جگر کے ٹکڑے کو مجھ سے الگ کردیا۔ میرے بیٹے کو ایسا منتر پڑھا دیا کہ وہ میری شکل دیکھنے کا روادار نہیں۔ چوبیس گھنٹے بیوی کی دلجوئی میں لگا رہتا ہے۔ میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔‘‘

’’یہ کون ہیں؟‘‘ مسافر نے نوجوان عورت کی طرف اشارہ کیا۔’’یہ میری بیٹی ہے۔ یہی تو میرا سہارا ہے۔ یہ اپنے گھر میں آباد ہے۔ بڑا اچھا داماد ملا ہے۔ بھیا! میری بیٹی کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہتا۔ لیکن اس کی ساس بڑی ڈائن ہے۔ بیٹے بہو کو گھر سے نکال دیا ہے۔‘‘

مسافر سوچنے لگا کیا ’’دوسروں کی بیٹیاں ڈائن ہوا کرتی ہیں۔‘‘

یار جیب تو خالی ہے

مسافر اپنے شہر میں تھا۔ اس کے پڑوس کا بچہ بڑا سخت بیمار تھا۔ جیب میں پیسہ نہیں تھا۔اس کی بیوی کا بچے کے لیے تڑپنا مسافر سے دیکھا نہ گیا۔ اس نے سوچا اس کے کئی ملنے جلنے والے کروڑ پتی ہیں۔ کیوں نہ ان سے کچھ ادھار مانگ لیا جائے۔ چنانچہ اپنے دوستوں سے ادھار مانگنے نکلا۔ دوستوں نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کہیں پک نک کا پروگرام تھا۔ دوستوں نے مسافر کو بھی گھسیٹ لیا۔ پک نک میں لوگوں نے جو خرچ کیا۔ تقریباً پانچ سات سو کی رقم تھی۔ پک نک کے بعد شہر کے سب سے مہنگے ریستوران میں کافی پی گئی۔ پچاسوں روپے نکل گئے۔ شہر میں گلزار بائی کی بڑی دھوم تھی۔ کافی کے بعد دوستوں نے مسافر کو بھی زبردستی گھسیٹ لیا۔ گلزار بائی کے حسن کی جو آرتی اتاری گئی وہ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ان تمام تفریحات کے دوران مسافر نے کئی بار سوچا کہ وہ دوستوں کے آگے دستِ سوال دراز کرے مگر جھجک اور خودداری نے ہاتھ پکڑ لیا۔ آخر میں اس سے نہ رہا گیا۔ اس نے ایک کروڑ پتی دوست سے کہہ ہی دیا۔

’’میرے دوست ایک بات کہوں؟‘‘

’’بک بھی چلو۔ اتنی دیر کیوں؟‘‘

’’میرا بچہ بیمار ہے۔ مجھے پیسے کی ضرورت ہے۔‘‘

’’یار معاف کرنا۔ دیکھو جیب بالکل خالی ہے۔‘‘

مسافر نے سوچا۔ ایک بچے کی زندگی بچانے کے لیے شاید کروڑ پتیوں کے یہاں پیسے نہیں ہوتے۔ پک نک، ریستوران اور مجرا سننے کے لیے ہزاروں روپے خرچ ہوسکتے ہیں۔ مسافر نے یہ بھی سوچا کہ عجیب بات ہے دوستوں نے اس کے اوپر سینکڑوں روپے خرچ کردیے اور اس کے بچے کی زندگی بچانے کے لیے اپنی جیب سے ایک پیسہ بھی نہیں نکال سکے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146