’’آؤ میاں کھانا کھالو۔‘‘
’’نہیں بس آپ لوگ کھائیے۔‘‘
’’ارے نہیں… آؤ کھانے کا وقت ہے پہلے کھانا کھالو۔‘‘
’’لو ہاتھ دھولو۔‘‘
اس نے ہاتھ دھوئے اور دسترخوان پر میرے قریب ہی بیٹھ گیا۔ جس ڈش سے میں اور دیگر مہمان چاول لے رہے تھے اسی میں سے وہ بھی لینے لگا۔ جس جگ اور گلاس کو ہم سب استعمال کررہے تھے اسی کا استعمال وہ بھی کررہا تھا۔
وہ ایک فقیر تھا، پیشہ ور تھا یا نہیں یہ تو میں نہیں کہہ سکتا اس کے ہاتھ میں کشکول تھا۔ کاندھے پر جھولیاں اور ایک ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ میں ایک دعوت میں کھانا کھارہا تھا۔ میرے علاوہ دو چار مہمان اور تھے۔ دستر خوان لگا تھا۔ بیٹھک کا دروازہ کھلا تھا۔ اگرچہ وہ عام راستہ نہ تھا لیکن فقیروں کے لیے کیا عام اور کیا خاص؟
پچھلے دروازے پر اس نے اللہ کے نام پر کچھ لیا تھا۔ آگے بڑھا تو مہمان دیکھ کر کچھ لحاظ کرگیا۔ اس نے سلام کیا اور آگے بڑھ گیا۔ میزبان نے بڑھ کر اسے پکارا۔ شاید ہر ہفتے آنے کی وجہ سے وہ اسے جانتے تھے۔ اورباصرار کھانا کھلایا۔
مجھے بہت اچھا لگا۔ اس کا لحاظ کرنا بھی اگرچہ اس کے اپنے پیشہ کے تئیں تو اچھی بات نہ تھی کہ گھوڑا گھاس سے یاری کرے گا تو کیا کھائے گا۔ لیکن مہمانوں کے لیے احترام تھا جو اس کے شریف النفس ہونے کی علامت تھا۔۔ اور میز بان کا اس کو کھانا کھلانا بھی بہت پسند آیا۔ یہ انسانیت کا احترام تھا۔ یہ مساوات کا عملی نمونہ تھا۔ میری زبان پر خدا کے لیے شکروسپاس کے الفاظ آگئے اور محسنِ انسانیت کے لیے میرا دل محبتوں سے لبریز ہوگیا کیونکہ یہ انھیں کی تعلیم کا صدقہ تھا ؎
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز