’’عورت مرد کے برابر نہیں ۔‘‘ یہ فقرہ مغرب کی دین ہے۔ ’’عورت مرد کی برابری کرسکتی ہے۔‘‘ اس نعرے کے ساتھ نہایت خوبصورت اصطلاحات کے پس پردہ مغرب نے عورت کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنی حیثیت کو منوانے کے لیے جدوجہد کرے۔ مغربی ذہن نے نہ کبھی عورت کے پیدائشی حق کو قبول کیا اور نہ ہی اس کی انفرادیت یا نسوانیت کو من وعن قبول کیا بلکہ اس کے برعکس عورت کی نسوانیت کو اس کے لیے ایک گالی باور کرایا اور اس سے نجات حاصل کرنے کو عورت کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد قرار دیا۔ حقوقِ نسواں کے علمبرداروں نے فیمنسٹ تحریک برپا کرتے وقت ہی یہ طے کرلیا تھا کہ اس کے ذریعے عورت پن کا گلا گھونٹ کر عورت کے وجود کو اس طرح مرد کے وجود میں ضم کرنا ہے کہ مرد و زن کے درمیان کوئی فرق باقی نہ رہے، دونوں کے درمیان مکمل یکسانیت ہو۔ لیکن بعد میں رفتہ رفتہ یہ تحریک سمٹ کر ایک ہی محور پر ٹک گئی کہ عورتوں کے حقوق کی انتھک لڑائی لڑی جائے۔
اس جدید کلچر کی بنیادیں صنعتی انقلاب سے پھوٹتی ہیں۔ شہری زندگی کے معیار اپنانے اور زیادہ آمدنی حاصل کرنے کی غرض سے عورتیں بھی گھروں سے باہر نکل کر فیکٹریوں اور دیگر کام کے مقامات پر اپنا محاذ بنانے کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں آنے لگیں۔ آزادیِ نسواں کے نام پر گھر کی قید سے نجات دلانے کے بہانے عورت کو بازاروں، کارخانوں اور دفتروں میں لاکر کھڑا کردینا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ آزادی کے دلفریب نعروں سے عورت اتنی مسحور ہوئی کہ مرد نے بڑی آسانی سے اس کے نازک کندھوں پر گھر اور حصولِ معاش کی دوہری ذمہ داریاں ڈال دیں۔ اس سے زیادہ یہ کہ جدیدیت، فیشن اور ترقی کے نام پر وہ مرد کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن گئی۔ عورتوں کے جسمانی حسن کی نمائش ایک مستقل ذریعۂ تجارت بن گئی اور اس کے ساتھ ہی مقابلۂ حسن کے پردے میں ان کا استحصال بڑے پیمانے پر ہونے لگا یہاں تک کہ آج دن بہ دن اس استحصال میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔
فیمنسٹ تحریک یوں ہی وجود میں نہیں آگئی بلکہ اس کے پیچھے ایک لمبی داستان پوشیدہ ہے۔ جاہلی معاشرہ صدیوں عورت کو کمتر مرتبہ دیتا چلا آرہا تھا، اس کے نزدیک عورت کو دبا کر رکھنے میں ہی بھلائی تھی۔ اس کا یہ خیال تھا کہ عورت کی زندگی صرف اور صرف مرد کی محکومی اور تابع رہنے میں ہے۔ عیسائی مذہب میں بھی عورت کو گناہ کی جڑ اور بدی کا سرچشمہ خیال کیا جاتا رہا ہے۔ معاشرہ میں عورت ایک طویل عرصے تک ظلم سہتی رہی۔ الزامات کا نشانہ بنتی رہی اور ہر طرح سے ’’شکار‘‘ ہوتی رہی۔ اس غلامی کا بوجھ وہ کب تک برداشت کرتی؟ اس کے اندر شخصی آزادی کی خواہش نے سر ابھارنا شروع کیا اور اسے شدید ردعمل پر مجبور کیا۔ پھر اٹھارہویں صدی عیسوی میں جب یورپ کے اہلِ قلم فلسفیوں نے مسیحی نظام اخلاق اور جاگیرداروں کے پنجوں میں جکڑے ہوئے نظام تمدن کو آزاد کرانے کی جدوجہد شروع کی تو عورت کو بہتر سماجی حیثیت اور آزاد فضا میں رسائی کی امید ہونے لگی۔ بندشوں سے نکلنے کا راستہ اسے نظر آنے لگا۔ لہٰذا جو بغاوت عورت میں دیکھی گئی اس کے پیچھے اپنی حالت کی اصلاح سے بڑھ کر مرد سے انتقام کا جذبہ کارفرما تھا۔ اس طرح مغرب کی فیمنسٹ تحریک مرد کے ظلم و جبر اور استحصال کے خلاف نفرت اور غم و غصے کی تحریک تھی۔ ذہنی طور پر عورت اپنے عورت پن سے ہی نفرت کرنے لگی کیونکہ اسے یہ احساس ہونے لگا کہ وہی دراصل اس استحصال کے پیچھے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔وہ ہر طرح سے مرد بننے کی کوشش کرنے لگی۔ اس ردعمل کے نتیجے میں وہ فطرت سے ہی بغاوت کر بیٹھی اور اپنے فطری جذبات کو کچلنے کی کوشش میں وہ ٹوٹ ہی گئی۔
فیمنسٹ تحریک کی آمد پر عورت کے اندر خوشی کی ایک انجانی لہر دوڑ گئی اور اسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ مردوں کی بے جا بندشوں سے آزاد ہوگئی۔ باقی سارے مراحل بھی پورے ہوئے۔ عورت نے اپنے آپ کو خود کفیل کرلیا۔ تعلیمی میدان میں، ملازمت اور تجارت میں، یہاں تک کہ سیاست میں بھی اس نے اپنا لوہا منوایا۔ نتیجتاً وہ انفرادیت کی چوٹی پر پہنچ گئی۔وہ دفتروں، کالجوں، کارخانوں میں اور سب سے زیادہ تفریح گاہوں، پارکوں اور کلبوں میں تتلیوں کی طرح ادھر سے ادھر دوڑتی نظر آنے لگی۔ اب تک معاشرہ اسے دوسرے درجہ کی شہری کی حیثیت دیتا آیا تھا۔ ۷۲ سال کی جدوجہد کے بعد بالآخر ۱۹۲۰ء میں امریکہ نے دستوری طور پر اسے ووٹ دینے کا حق عطا کیا۔ لیکن اس کے باوجود اسے ہر قدم پر یہ محسوس ہوتا رہا کہ اس کو اب بھی سماج میں عملی طور پر مرد کے برابر درجہ نہیں ملا۔ اس کی کمتری جوں کی توں باقی رہی، خواتین کے ان مسائل اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کے لیے عالمی سطح پر مختلف تنظیمیں قائم کی گئیں تاکہ ان کی مانگیں پوری ہوسکیں۔ ان کے مطالبات میں چند اہم مطالبات یہ تھے:
٭ملازمت میں مساوی حقوق۔
٭ ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کا انتظام۔
٭ ان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنا۔
٭ اسقاطِ حمل کی اجازت۔
ان سبھی مطالبات کے لیے لگاتار کوششوں کے جلد ہی نتائج بھی مرتب ہوئے۔ مگر ان کاوشوں نے مغرب کی عورت سے بہت سی قربانیاں لیں۔ ان قربانیوں کا اثر نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر بھی دینا پڑا کہ وہ اندر سے بیمار ہوگئی۔ اس کو اطمینان کے بجائے بے چینی ہی ملی۔ اس کشمکش میں وہ اپنے اطمینان کی دوا ڈھونڈتی رہی۔ بالآخر مغرب کے فیمنسٹوں نے پھر اس درد کی دوا تجویز کی اور وہ تھی ’’Back to the Family‘‘ ( واپس اپنے گھر اور کنبے کی طرف)۔ اس کے اندر سوئی ہوئی مامتا سر ابھارنے لگی۔ حالانکہ اس نے بہت کوشش کی کہ اسے دبائے اور اس کوشش میں وہ دوسری طرح سے بیمار ہوگئی۔ اسے یہ تجویز بھی دی گئی کہ وہ شادی جیسے بندھن سے ہی اپنے آپ کو آزاد کرلے۔ ماں بننے کو کیرئیر میں سب سے بڑی رکاوٹ باور کرایا جانے لگا۔ اس لیے وہ اپنے آپ کو ان بکھیڑوں سے دور رکھنے کی کوشش میں لگ گئی۔
اس ضمن میں مشہور قلم کا ربیسٹی فرائڈن نے اپنی کتاب ’’دی فیمنیین مسٹیک‘‘ میں عورتوں کی تشنگی کا سبب اس لاشعوری سوچ کو بتایا جو کہ عورتوں پر شروع سے ہی مسلط کردی جاتی ہے کہ وہ گھر کی دیکھ بھال اور ماں کے فریضے کی ادائیگی میں ہی تسکین پاسکتی ہے۔ بہت سالوں کے متواتر جائزہ اور تجربات کے بعد یہی مصنفہ اپنی اس سوچ کو بدلتی نظر آتی ہیں۔ جب انھوں نے ’’دی سیکنڈ اسٹیج‘‘ میں یہ اعتراف کیا ہے کہ عورت اپنی منزل کی تلاش میں غلط رخ اپنا کر تسکین حاصل نہیں کرسکتی۔ گرچہ پہلے آزادیِ نسواں کی متلاشی عورت فیملی سے دور ہونے کو ہی اپنی آزادی حاصل کرنے کا ذریعہ مانتی تھی لیکن اب وہی ایک نئی سرحد کی جانب رواں دواں ہے یعنی ’’فیملی‘‘۔
فطرت کے خلاف جنگ چھڑی تو فطرت کے تقاضوں سے بغاوت کا تلخ انجام بھی عورت کو بھگتنا پڑا۔ مغربی ممالک میں خصوصاً عورتوں کی صحت برابر گرتی جارہی ہے حتی کہ زیادہ سے زیادہ ملازمت پیشہ خواتین دل کے دورہ کا شکار ہورہی ہیں۔ ذہنی دباؤ سے فرار اختیار کرنے کی کوشش میں خواتین سگریٹ اور شراب نوشی کا سہارا لے رہی ہیں، جس سے کینسر جیسے مرض کا شکار ہورہی ہیں۔ ڈیڑھ گنا زیادہ کام کے عوض انھیں ڈپریشن جیسا لاعلاج مرض اپنی گرفت میں لیے جارہا ہے۔ ملازمت کو اولین درجہ دینے کی وجہ سے زیادہ تر عورتیں غیر شادی شدہ رہنا پسند کررہی ہیں اور جنسی تقاضوں کو غیر فطری طریقوں سے پورا کرنے کے لیے ذرائع کا استعمال کرکے بھی طرح طرح کے خطرناک امراض سے دوچار ہورہی ہیں۔ جو عورتیں شادی کرتی بھی ہیں وہ اپنی ازدواجی زندگی سے خوش نہیں ہوتیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق کے مطالبات تیزی سے بڑھے ہیں۔ شادی شدہ جوڑے اکثر الگ ہوکر اپنے طرز کی زندگی گزارنے کو زیادہ فوقیت دینے لگے ہیں اور نسل کی نسل تباہ ہورہی ہے۔ منجملہ یہ کہ جدید مغربی معاشرہ تہذیب سے دور اور حیوانیت کے قریب آگیا ہے۔ اخلاق و کردار میں ایسی گراوٹ پیدا ہوئی ہے اور نسوانیت اس طرح رخصت ہوئی ہے کہ پوری دنیا کانقشہ ہی بدل کر رہ گیا ہے۔
فیمنزم کی ایک دین یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے مرد و عورت کی رفاقت رقابت میں تبدیل ہوگئی ہے اور ایک مسلسل جنگ ہے جو مرد و عورت کے درمیان برپا ہے۔ گرچہ سماج میں عورت خود کو مرد کے برابر تصور کرتی ہے پھر بھی ہے تو مرد ہی کی دنیا۔ اس دنیا میں عورت چاہے نہ چاہے مرد کی تابع کی حیثیت سے ہی دیکھی جاتی ہے اور اس کی ہر حرکت و عمل سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وہ مرد کو رجھانے کے حربے اختیار کرنے میں مشغول ہے۔ اس کے لیے فیشن سے لے کر مقابلۂ حسن کی تقریبات تک کا ایک سلسلہ ہے۔ اس رجحان کے خلاف پہلا ردعمل ۱۹۶۸ء میں مس امریکہ مقابلۂ حسن کے موقع پر سامنے آیا، جب مقابلہ کے ہال کے باہر سیکڑوں کی تعداد میں حقوقِ نسواں گروپ کی عورتوں نے مظاہرہ کیا اور عورتوں کو مقید کرنے والی تمام چیزیں ایک کچرے کے ڈبے میں پھینک دیں جو عورت کے استحصال کی وجہ بنتی ہیں۔
۱۹۷۰ء کی دہائی میں عورتوں نے اور منظم ہوکر مختلف دستے تشکیل دیے جیسے خود حفاظتی دستے، اسقاط اور موانع حمل کے لیے تنظیمیں وغیرہ۔ لیکن یہ سب کرنے کے بعد بھی پوری دنیا میں آج بھی عورت پر مرد کی بالادستی قائم ہے۔ اس ردعمل کے نتیجے میں ایک مسلسل جنگ برپا ہے جس میں ایک طرف تو اپنی حیثیت منوانے کی کوشش میں عورتیں ہلکان ہورہی ہیں مگر دوسری طرف یہی عورتیں مردوں کے اشارے پر اس کا دل جیتنے کے لیے فیشن اور جسمانی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے نت نئے طریقے بھی آزما رہی ہیں۔ یہ ایک تضاد ہے جو عورت کو دھیرے دھیرے ایک ایسے دلدل کی طرف لے جارہا ہے، جس سے باہر نکلنا ناممکن ہے۔
ایک محاذ جس پر زوردار بحث چھڑی ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ عورت کو ایک ہاؤس وائف کی حیثیت میں کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ مگر دوسری طرف یہی عورت آج بھی مرد کے مقابلے میں کم اجرت پر کام کررہی ہے۔ بہت سے کام ایسے ہیں جس کے لیے عورت کو معذور سمجھا جاتا ہے سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اب Genetic Engineeringکے انکشافات سے مرد بھی جنم دے سکتا ہے، بچے پیدا کرسکتا ہے۔ گویا یہ فیلڈ جو اب تک عورت اور صرف عورت کو حاصل تھا، اسے بھی چھینا جا رہا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے بعد ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ فیمنسٹ تحریک کے باوجود عورت آج کس مقام پر ہے؟ اور وہ اپنی لڑائی میں کہاں تک کامیاب ہوگی؟
(بہ شکریہ رفیق منزل)