اخبار کی ایک چھوٹی سی خبر نے ہمیں اپنے مشاہدات و خیالات کو تحریر کرنے پر مجبور کردیا۔
خبر کچھ یوں تھی: ’’یومِ مزدور پر خود سوزی کرنے والے عبدالرزاق انصاری نے ہسپتال میں زندگی کی بازی ہار دی اور اس کی فیملی نے لاش لے کر احتجاج نوٹ کروایا تو بالآخر خاتون مشیر وزیر اعلیٰ سندھ کی طرف سے امداد کا اعلان بھی کردیا گیا۔‘‘
سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت و نظام سے مایوس ہوکر خود سوزی کرنے والے کی بوڑھی ماں، مفلس بیوہ اور معذور بچے کیا دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ سکیں گے؟ کیا وہ اب ایک خوشحال و مطمئن زندگی گزار سکیں گے جس کے انھوں نے خواب دیکھے تھے؟
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا
لیکن جفا سے توبہ تو ابھی بھی نہیں ہوئی ہے۔ کیونکہ ہمارا نظام آج بھی کرپٹ وظالمانہ ہے۔ آج بھی کرپٹ چہرے اس نظامِ حکومت میں ہیں۔ نہ چہرے بدلے ہیں نہ نظام، تو کیا خوشحال ومطمئن فیملی لائف کا یہ خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکے گا؟
آئے دن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں یہ خبریں آتی رہتی ہیں کہ ایک شوہر نے اپنے بچوں کواپنے ہاتھوں سے قتل کرکے خودکشی کرلی۔ یا یہ خبر ملتی ہے کہ ایک ماں نے گھریلو جھگڑوں اور مالی مشکلات سے تنگ آکر اپنے بچوں کو زہریلی گولیاں کھلا کر موت کی نیند سلادیا اور خود بھی موت کو گلے لگالیا۔
کبھی شوہر سے لڑائی کے بعد بیوی نے زہر کھا کر خود کشی کرلی تو کہیں جہیز کم لانے پر سسرالیوں کے ہاتھوں بہو کے جلائے جانے کی خبر میڈیا میں اپنی جگہ بناتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں عدالتوں میں خلع و طلاق اور بچوں کی تحویل (کسٹڈی) کے مقدمات رجسٹرڈ ہونے کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ طلاق کے بعد شوہر کو دوسری بیوی اور بیوی کو دوسرا شوہر تو مل جاتا ہے لیکن ان کے معصوم بچوں کو دوسرے ماں باپ نہیں مل پاتے، جس کے نتیجے میں خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار یہ بچے معاشرے کے لیے ایک چیلنج بن جاتے ہیں اور مختلف ذہنی و جسمانی عوارض کا شکار یہ بچے جہاں ایک طرف سوتیلے ماں باپ کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، وہیں دوسری طرف تعلیم و تربیت میں کمی کی صورت میں معاشرے کی بے رحم لہروں کا بآسانی شکار بن جاتے ہیں، یا پھر اللہ تعالیٰ انھیں اپنے پاس واپس بلا کر برائیوں سے محفوظ کرلیتا ہے۔
دراصل ہمارا معاشرہ مغرب سے درآمد ان نعروں کے فریب میں آچکا ہے جیسے ’’چھوٹا خاندان زندگی آسان‘‘، ’’بچے دو ہی اچھے‘‘،’’کھالے، پی لے، جی لے‘‘، ’’محبت و جنگ میں سب جائز ہے‘‘، ’’مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہے‘‘، ’’جیسے چاہو جیو‘‘۔ نتیجتاً ہمارا خاندانی نظام آج انتشار کا شکار ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسلامی ممالک میں بھی طلاق کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی وجہ جہاں معاشی مسائل ہیں، وہیں بے راہ روی، عورتوں و مردوں کا آزادانہ اختلاط، منافقت، دین سے دوری یا مذہب کے عبادات تک محدود ہونے کا تصور اور معاملات میں اسلامی تعلیمات سے روگردانی کرنا بھی شامل ہیں۔
میڈیا منظم انداز میں عریانی و فحاشی کو فروغ دے رہا ہے۔ غیر محسوس انداز اور مختلف ڈراموں اور سیریلوں کے ذریعے ذہنوں میں یہ خیال راسخ کیا جارہا ہے کہ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی دوسرے مردوں اور عورتوں کے ساتھ غلط تعلقات استوار کرنا دراصل گھر سے باہر سکون حاصل کرنے کا ذریعہ یا مجبوری ہے اور کنواری ماؤں کے مسائل، ان کو اور اُن کے بچوں کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جانا بھی آج کے دور کی ضرورت قرار دلوائی جارہی ہے۔ اشتہارات کے ذریعے بھی ذہنوں کو پراگندہ کیا جارہا ہے۔ دوستی کے رنگوں کے فریب میں بے حیائی کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے۔ نیوز چینلز بھی ایسی رپورٹس اور خبریں دکھاتے ہیں، جنھیں خاندان کے افراد ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھنا پسند نہیں کرتے، لیکن وہ دیکھنے پر مجبور کیے جاتے ہیں۔
میڈیا کے ذریعے ایسی چیزیں نمایاں کی جاتی ہیں جو کہ خاندان میں انتشار پھیلانے کا باعث بنتی ہیں۔ لوگوں میں زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کا جنون پیدا کرنا، لاٹری و جوئے کو نت نئے طریقوں سے فروغ دینا، فحاشی و عریانیت پھیلانا دراصل ہمارے معاشرے کو تباہی سے دوچار کرنے کی ایک سازش ہے، اور میڈیا اس میں ہراول دستے کا کردار ادا کررہا ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ خاندان کے افراد میں برداشت، قناعت، کفایت شعاری، ہمدردی، ایثار، محبت اور قربانی جیسے جذبے ختم ہوتے جارہے ہیں اور ان کی جگہ خود غرضی، طاقت کا غلط استعمال، حرام ذرائع آمدنی، اغوا و تشدد کی وارداتوں میں اضافہ، طلاقوں و خود کشیوں کی شرح میں اضافہ، اولڈ ہاؤسز، لاوارثوں کے مراکز میں بزرگ افراد کے داخلے کی شرح میں اضافہ، والدین کا اولاد سے الگ تنہا بے سہارا زندگی گزارنا، نوزائیدہ لاوارث بچوں کی لاشوں کا ملنا… یہ سب ہمارے سماج کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
ان حالات میں ہمیں مایوس ہونے کے بجائے اصلاح کے روشن امکانات پر غور کرتے ہوئے اپنی سطح پر کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ ایک پاکیزہ معاشرے کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ ہم خاندانی نظام کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور کامیاب بنائیں۔ خاندانی نظام کا آغاز شوہر اور بیوی کے پاکیزہ ازدواجی تعلق سے ہوتا ہے، اور اس تعلق میں خوشگواری اور استواری اس وقت ممکن ہے جب شوہر اور بیوی دونوں ہی ازدواجی زندگی کے آداب و فرائض سے بخوبی واقف بھی ہوں اور ان آداب و فرائض کو بجالانے کے لیے پوری دل سوزی، خلوص اور یکسوئی کے ساتھ سرگرمِ کار رہیں۔
خاندان کے بزرگوں، اساتذہ کرام اور والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں، بیٹوں اور بیٹیوں کی قرآن وحدیث کی روشنی میں اچھی تربیت کریں۔ بچوں کو پیار سے نبیؐ کی طرزِ زندگی (سنت) سے اتنے اچھے انداز سے روشناس کرائیں کہ وہ پیارے نبی ﷺ کو اپنا آئیڈیل بنا کر ان کی طاعت و پیروی کریں۔
اس طرح یہ صالح اولاد ایک طرف جہاں ماں باپ اور اساتذہ کرام کے لیے صدقۂ جاریہ ثابت ہوگی اور انھیں دنیا و آخرت میں بھی سکون پہنچائے گی تو دوسری طرف ایک اچھی بیوی ایک اچھی ماں اور ایک اچھا شوہر ایک اچھا باپ بھی ثابت ہوں گے اور معاشرے میں ایک مثالی اسلامی خاندان کا وجود ممکن ہوسکے گا۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
پیارے نبی ﷺ نے جہاں ایک طرف عورتوں کو جنت کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا:’’عورت جب پانچوں وقت کی نماز پڑھے، اپنی آبرو کی حفاظت کرے، اپنے شوہر کی فرماں بردار رہے تو وہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔ ‘‘ (الترغیب و الترہیب)
تو دوسری طرف آپؐ نے مردوں کو بھی ہدایت فرمائی:
’’کامل ایمان والے مومن وہ ہیں جو اپنے اخلاق میں سب سے اچھے ہوں اور تم میں سب سے اچھے لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں سب سے اچھے ہوں۔‘‘ (ترمذی)
حدیثِ مبارکہ ہے:
’’خوفِ خدا کے بعد سب سے زیادہ مفید اور باعثِ خیر نعمت نیک بیوی ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ)
نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے ہدایت فرمائی:
’’لوگو، سنو! عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ، کیونکہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں، تمھیں ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنے کا کوئی حق نہیں، سوائے اس صورت میں کہ جب ان کی طرف سے کھلی ہوئی نافرمانی سامنے آئے، اگر وہ ایسا کریں تو پھر خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور انھیں مارو تو ایسا نہ مارنا کہ کوئی شدید چوٹ آئے، اور پھر جب وہ تمہارے کہنے پر چلنے لگیں تو ان کو خواہ مخواہ ستانے کے بہانے نہ ڈھونڈو، دیکھو سنو! تمہارے کچھ حقوق تمہاری بیویوں پر ہیں اور تمہاری بیویوں کے کچھ حقوق تمہارے اوپر ہیں۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو ان لوگوں سے نہ روندوائیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہارے گھروں میں ایسے لوگوں کو ہرگز نہ گھسنے دیں، جن کا آنا تمھیں ناگوار ہو، اور سنو اُن کا تم پر حق یہ ہے کہ تم انھیں اچھا کھلاؤ اور اچھا پہناؤ۔‘‘ (ریاض الصالحین)
اسی طرح ایک اور جگہ نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:
’’تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
خاندانی نظام کے حوالے سے ایک عظیم مفکر نے فرمایا:
’’ایسے ڈھیلے ڈھالے نظامِ خاندانی کو اسلام پسند نہیں کرتا جس میں کوئی انضباط نہ ہو اور گھر والوں کے اخلاق و معاملات درست رکھنے کا کوئی بھی ذمہ دار نہ ہو۔ نظم بہرحال ایک ذمہ دار ناظم ہی سے قائم ہوسکتا ہے اور اسلام کے نزدیک اس ذمہ داری کے لیے خاندان کا باپ ہی فطرتاً موزوں ہے، مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مرد کو گھر کا ایک جابر و قاہر فرمانروا بنادیا گیا ہے اور عورت ایک بے بس لونڈی کی حیثیت سے اس کے حوالے کردی گئی ہے۔ اسلام کے نزدیک ازواجی زندگی کی اصل روح محبت و رحمت ہے۔‘‘
——