مسجد اقصیٰ اور فلسطین کے مظلومین

شمشاد حسین فلاحی

غاصب ریاست اسرائیل کے روز قیام ۱۴؍مئی ۱۹۴۸ء سے آج تک فلسطینی عوام مختلف قسم کے مظالم برداشت کرتے آرہے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ مظالم کا سلسلہ شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ اگرچہ قیام اسرائیل کے وقت سے ہی سے فلسطینیوں پر زندگی تنگ ہوگئی تھی لیکن اب صورتِ حال انتہائی بدتر ہوگئی ہے۔ لاکھوں فلسطینی اپنے وطن سے دور غربت اور ہجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جو لوگ حالات سے لڑنے پر آمادہ ہوکر اپنے وطن میں رہنے کہ خواہش مند ہیں ان کی جان و مال اور عزت و وقار کسی بھی لمحہ یہودی افواج سے محفوظ نہیں۔ نوجوانوں، بوڑھوں اور بچوں و عورتوں کے مارے جانے اور گرفتاری کے واقعات روز کا معمول ہیں۔

کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کوئی شخص آئے او رآپ کے گھر میں گھس کر زبردستی اپنا سامان رکھ دے اور کہے کہ تم یہاں سے نکلو، اب میں یہاں رہوں گا۔ لیکن فلسطینیوں کے ساتھ یہی ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ ان کے گھروں، زمینوں اور باغوں پر یہودیوں نے اسی طرح قبضہ کرکے اپنی بستیاں بسائی ہیں اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرکے اپنی کاشت کاری شروع کردی ہے۔

کئی سال پہلے غاصب اسرائیل نے ایک لمبی اور اونچی دیوار کی تعمیر کرکے فلسطینی خاندانوں کو جن کی دیواریں اب تک ملی ہوئی تھیں سیکڑوں میل کے مسافت پر کردیا۔ ان کے کھیتوں کو کئی کئی گھنٹے کے سفر کی دوری پر کردیا۔ اور صورتِ حال یہ ہے کہ انہیں اپنی زمینوں پر کھیتی باڑی کرنے کے لیے جانا ہو تو وہ صبح فجر کے وقت نکلتے اور مختلف چیک پوسٹوں پر دفتری کارروائی مکمل کرتے ہوئے دوپہر تک اپنے کھیتوں پر پہنچتے ہیں۔ چند گھنٹے کام بھی نہیں کرپاتے کہ شام کو لوٹنے کی فکر ستانے لگتی ہے کہ اگر وہ مقررہ وقت کے اندر چیک پوسٹوں سے نہ گزرسکے تو پھر اپنے گھر نہیں پہنچ پائیں گے۔

فلسطینیوں کو اپنی زمینوں پر بورویل اور ٹیوب ویل لگانے کی اجازت نہیں۔ ایسے میں ان کی کھیتیاں یا تو یہودی سینچائی نظام پر منحصر ہیںیا بے کار ہوگئی ہیں۔ اسی طرح صاف پانی کے چشمے جو اگرچہ فلسطینیوں کے علاقوں سے ہوکر گزرتے ہیں لیکن ان کے پانی پر فلسطینیوں کا کوئی حق نہیںاور وہ تمام میٹھا پانی یہودی کالونیوں کو سپلائی ہوتا ہے اور غریب فلسطینی کھارا پانی پینے کے لیے مجبور ہیں۔

یہ اور اس طرح کی بے شمار دشواریاں ہیں جنھوں نے عرب فلسطینیوں کی عملی زندگی کو معطل، ان کے روزگار اور معاش کو تباہ و برباد اور ان کے مستقبل کو تاریک بنادیا ہے۔

سیاسی سطح پر بھی فلسطینیوں کو گذشتہ چھ دہوں سے مسلسل ایسی دیوار کی طرف دھکیلا جارہا ہے جس میں نہ صرف یہ کہ کوئی دروازہ نہیں بلکہ سوراخ تک نظر نہیں آتا۔ عیارانہ چالوں اور مکارانہ معاہدات کے ذریعے یکے بعد دیگرے فلسطین کے بہت بڑے حصے کو ہڑپ کرلیا گیا اور اب فلسطینی اتھارٹی جس کی حیثیت ایک بااختیار میونسپلٹی کے برابر بھی نہیں ہے مشکل سے 10فیصد حصے پر اپنا محدود کنٹرول رکھتی ہے۔ اس میں بھی غزہ کا وہ حصہ جو محمود عباس اور الفتح کی ریشہ دوانیوں کے سبب بقیہ حصے سے کٹ گیا ہے اور جہاں عملاً حماس کا کنٹرول ہے، شدید ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ غزہ کی عوام کو صرف اس وجہ سے کہ وہ حماس کی تائید کرتی ہے موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبورکردیا گیا ہے۔ اس وقت اسرائیلی حکومت نے غزہ پر مکمل کریک ڈاؤن اور اس کی پوری طرح ناکہ بندی کررکھی ہے۔ بجلی، پانی اور روز مرہ کے استعمال کی اشیا مثلاً پیٹرول، دوائیں اور غذائی اشیاء کی سپلائی مکمل طور سے بند ہے اور اہل غزہ کو موت کے منھ میں دھکیل دیا ہے کہ وہ خود ہی بھوکے پیاسے اور بیماریوں سے تڑپ تڑپ کر مر جائیںکہ یہودی افواج کی گولیوں کا خرچ تو کم از کم بچ جائے۔

دوسری طرف عالم اسلام کی بے حسی، ذلت اور پستی و محکومی کا یہ عالم ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں ایک لفظ بولنے اور بنیادی انسانی ذمہ داریاں تک نبھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔

مدینہ القدس جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کا روحانی اور جذباتی رشتہ ہے اور جہاں قبلۂ اول مسجد اقصیٰ واقع ہے مکمل طور پر یہودی کنٹرول میں ہے اور مسجد اقصیٰ میں نماز کے لیے ۴۵ سال سے کم عمر کے افراد کوجانے کی اجازت نہیں ہے۔ مسجد کے نیچے کھدائی کرکے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا گیا ہے اور دعویٰ کیا جارہا ہے مسجد کے نیچے کھدائی کرنے پر یہودی معبد ’’ہیکل سلیمانی‘‘ کے آثار ملے ہیں۔ اسی طرح پچھلے دنوں بیت المقدس کے مغربی دروازہ کی دیوار کو منہدم کردیا گیا۔ یہ سب اس لیے کیا جارہا ہے کہ یہودی حکومت ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی کوششوں میں مصروف ہے اور اپنے مقصد کو ہر قیمت پر پورا کرنا چاہتی ہے۔ اور اب آئندہ ماہ ’اناپولیس‘ نامی شہر میں ہونے والی نام نہاد’’امن کانفرنس‘‘ میںاس منصوبہ میں آرہی اہم رکاوٹ کو بھی دور کیے جانے کا امکان ہے۔ اس طرح کہ اسرائیل کی نائب وزیر اعظم ’ہائم ریمن‘ نے اعلان کیا ہے کہ ’’وہ مستقبل کے امن منصوبہ کے تحت یروشلم شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس طرح اگر شہر قانونی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تو اسرائیل کے لیے اس شہر کو اپنی راجدھانی بنانے کا راستہ بھی بالکل صاف ہوجائے گا اور مزعومہ ’’ہیکل‘‘ کی تعمیر بھی بلا رکاوٹ انجام دے سکیں گی۔

بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ سے دنیا بھر کے اہل اسلام کا روحانی اور جذباتی رشتہ ہے اور اس سر زمین کے رہنے والوں سے ایمان کی بنیاد پر محبت و ہمدردی۔کیونکہ یہی وہ سرزمین ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورئہ اسرا میں فرمایا ہے:

سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلٰی الْمَسْجِدِ الْاَقْصیٰ الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ۔

’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے راتوں رات مسجد حرام سے مسجدِ اقصی لے گئی وہ مسجدِ اقصیٰ جس کے آس پاس کے علاقے کو ہم نے بابرکت بنایا۔‘‘

شب معراج حضور اکرم مسجد حرام سے مسجدِ اقصیٰ پہنچے وہاں انبیا کرام کی امامت فرمائی اور پھر اپنے رب سے ملاقات کے لیے عرش پر تشریف لے گئے اور خانہ کعبہ کے قبلہ قرار دیے جانے کے حکم سے پہلے تک حضور اکرم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں نے اسی مسجد کی طرف رخ کرکے نمازیں ادا کیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے ہمارا قلبی، روحانی اور دینی تعلق ہے۔ اور اسی تعلق کی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ مسجدِ اقصیٰ کا مسئلہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا اولین مسئلہ ہے۔ اور اگر انصاف کے حصول میں دوسرے لوگ تعاون کرتے ہیں تو ان کا تعاون قبول ہے۔

مسجدِ اقصیٰ اور فلسطین کا مسئلہ امت مسلمہ کا ایسا مسئلہ ہے جو ملی اتحاد چاہتا ہے اور حقیقت میں یہی وہ مسئلہ ہے جو امت مسلمہ کے عالمی اتحاد کی بنیاد بن سکتا ہے اور اسے بننا چاہیے۔

چنانچہ رہبر انقلاب ایران امام خمینی نے ۱۹۸۰ء میں رمضان المبارک کے آخری جمعہ جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس قرار دیاتھا۔ اور اس کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ امت مسلمہ مسئلہ فلسطین کی حقیقت، حیثیت اور اس سے جڑے تازہ ترین واقعات کے سلسلے میں واقف رہے اور امت کو ایک متحدہ جدوجہد کی طرف آمادہ کیا جاسکے۔

اب ۲۸ سال بعد یہ مسئلہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ امت کے اندر اس سلسلہ میں بیداری لائی جائے اور مظلوم و مجبور فلسطینیوں کو یہودی مظالم سے نجات دلانے کی کوشش کی جائے اور قبلۂ اول کو صہیونی عزائم سے بچایا جائے۔

شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں