عالمِ اسلام کی کئی مملکتیں اندرونی خلفشار اور سیاسی اتھل پتھل کے دور سے گزر رہی ہیں۔ کئی ممالک تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑے ہیں، خاص طور پر کئی عرب ممالک کا مستقبل اور ان کا امن معدوم ہوچکا ہے اور کئی ممالک میں سازشوں کے ایسے تانے بانے بنے جا رہے ہیں کہ وہاں بھی بدامنی اور سیاسی عدم استحکام کی کیفیت پیدا ہوجائے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطین میں یہودی حکومت مسلسل مسجد اقصیٰ کے انہدام کی کوششوں کو لے کر آگے بڑھتی جا رہی ہے۔
حالیہ دنوں میں فلسطین سے مسلسل ایسی خبریں آرہی ہیں جنہیں پڑھ کر مسجد اقصیٰ کے مستقبل پر سازشوں کے بادل گہراتے معلوم ہوتے ہیں اور لگتا ہے کہ اسرائیل عالم اسلام کی اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ایجنڈے یعنی ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ عرب فلسطینیوں کی گرفتاری اور ان پر فائرنگ تو اب معمولی بات معلوم ہونے لگی ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ تشویش، فکر مندی اور خطرے کی بات یہ ہے کہ یہودی حکومت پاک شہر القدس، کو یہودی اکثریتی شہر بنانے کی غرض سے مسلسل یہودی کالونیوں کی تعمیر کے منصوبہ کو پھیلائے جا رہی ہے تاکہ عرب مسلمان وہاں پر اقلیت میں آجائیں اور مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے امکانات کو ختم کر کے اپنے مزعوم ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جاسکے۔ واضح رہے کہ مسجد اقصیٰ کے آس پاس کے علاقوں سے پہلے ہی مسلمانوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا گیا ہے اور ان کے گھروں پر جبراً قبضہ کر کے یا تو خالی کرا لیا گیا ہے یا و ہاں یہودی خاندانوں کو آباد کر دیا گیا ہے۔ اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کے لیے بھی لوگ کافی دور دراز علاقوں سے بس کے ذریعے سفر کر کے آتے ہیں جنہیں یہودی حکومت جب چاہے روک دیتی ہے۔گزشتہ کئی دنوں سے اسرائیلی حکومت نے پچاس سال سے کم عمر کے مسلم افراد کے مسجد میں داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔
گزشتہ دنوں ذرائع ابلاغ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ مسجد اقصیٰ کی عین صحن کے نیچے یہودیوں نے ایک طویل سرنگ کھود دی ہے۔ سرنگوں کی تعمیر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کے نیچے پہلے ہی یہودیوں نے سرنگوں کا جال بچھا کر اس کے بنیادوں کو اس انداز مین کھوکھلا کر دیا ہے کہ وہ اگر کوئی ہلکا سا مصنوعی زلزلہ بھی پیدا کریں گے مسجد کے گر جانے کا اندیشہ ہے۔ یہ سب یہودیوں کی ان چالوں کا حصہ ہے جس کے ذریعہ وہ غیر انسانی طریقہ سے مسجد کو گرا کر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسجد خود بہ خود گر گئی ہے۔ اور پھر وہ اپنا منصوبہ پورا کرسکیں۔
گزشتہ ہفتہ یہ معلوم ہوا کہ یہودی حکومت نے اپنے تہوار کی تیاری کو وجہ بنا کر مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کے سرے سے داخلے پر ہی پابندی لگا دی اور اس کے چند دنوں کے بعد مسجد کے صحن میں اپنے ’ہیکل سلیمانی کا ماڈل‘ بھی لگا دیا۔ اس پوری صورتِ حال پر فلسطین اور القدس شہر کے مسلمان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ مگر عالم اسلام میں اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی حکومت بلا روک ٹوک اپنے منصوبوں کی تکمیل میں آگے بڑھتی جا رہی ہے۔
مسجد اقصیٰ یعنی قبلۂ اول جس کی طرف رخ کر کے حضوؐر نے ابتدائی دنوں میں نماز ادا کی اور جس کے آس پاس تک کے علاقے کو اللہ تعالیٰ نے سورہ اسراء میں بابرکت قرار دیا ہے۔ ہمارے ایمان اور اسلامی شعائر کا ایک اہم حصہ ہے اور شعائر اسلام میں سے ایک اس وقت یہودی سازشوں کے نرغے میں ہے اور عالم اسلام اس پر توجہ دینے سے بہ وجوہ قاصر ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ عالم اسلام اور عالم عرب کی بیشتر حکومتیں عملا یہودی عمل دخل کے زیر اثر اس حد تک آچکی ہیں کہ وہ آزادانہ طور پر اپنے فیصلے کرنے کی بجائے بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ گئی ہیں اور وہی کرنے پر مجبور ہیں جس سے یا تو یہودی مملکت کو فائدہ حاصل ہو یا کم از کم کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے اور جہاں ایسا ممکن نہیں ہوتا وہاں کے حکمرانوں کا تختہ پلٹ دیا جاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین اور بہترین مثال مصر میں مرسی حکومت کا ظالمانہ انداز میں خاتمہ اور عین مصر دشمن اور بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ جنرل سیسی کو اقتدا رپر بٹھایا ہے۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ عالم عرب کی دوسری مملکتوں نے نہ صرف جمہوریت کے اس قتل کی مخالفت نہیں کہ بلکہ پوری طرح یہودی چالوں کا شکار ہوتے ہوئے ان دشمن طاقتوں کی ہر طرح سے مدد کی جو مصر ہی نہیں عالم اسلام اور اسلام کی دشمن ہیں۔
ایسے میں جب کہ عالم اسلام پوری طرح یہودی چالوں کے جال میں پھنسا ہوا معلوم ہوتا ہے مسلم عوام اور علمائے دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح صورتِ حال عوام کے سامنے لائیں اور دنیا کو ان چیلنجوں سے آگاہ کریں جو عالم اسلام کے سامنے ہیں اور ان خطرات سے دنیا کو آگاہ کریں جو اسلام کے شعائر میں سے ایک یعنی مسجد اقصیٰ کو درپیش ہے۔lll