مسلمانوں کو دعوتِ اصلاح

مولانا ابوالحسن علی ندویؒ

[۷؍ اپریل ۱۹۸۵ کو مینارِ کلکتہ کے وسیع میدان میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے ایک عوامی جلسہ منعقد کیا گیا، جس میں کئی لاکھ کے مجمع کو اس وقت کے صدر مسلم پرسنل لا بورڈ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے خطاب فرمایا۔ کسی قدر اختصار کے ساتھ نذرِ قارئین کیا جاتا ہے۔ ایڈیٹر]

اس وقت ہندوستان میںرہ رہ کر مسلم پرسنل لا یعنی مسلمانوں کے عائلی قانون میں آئین سازی کے ذریعے مداخلت کا مسئلہ اٹھتا رہتا ہے، اور ملک کے مختلف حصوں سے آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں، غیر مسلموں کی طرف سے بھی (جن سے ہمیں کچھ زیادہ شکایت نہیں) مسلمانوں کے ترقی و تجدد پسند طبقہ کی طرف سے بھی۔

اس کے بہت سے اسباب بیان کیے جاچکے ہیں، اوروہ صحیح ہوں گے، لیکن میں ایک مذہبی انسان ہونے کے ناتے نیز مذہب کے طالب علم اور قرآن و سیرت کا مطالعہ کرنے والے انسان کی حیثیت سے اس کا کچھ اور سبب سمجھتا ہوں۔ کسی واقعہ کے کچھ اسباب ظاہری ہوتے ہیں، جن کو آنکھیں دیکھتی ہیں، کچھ اسباب غیبی ہوتے ہیں، جن کو قرآن مجید، سنت اللہ، اسوۂ رسولؐ و سیرت النبیؐ کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جرأت بار بار اس لیے ہو ہری ہے کہ ہم سے اللہ کے اس مقرر کیے ہوئے مقدس قانون کی پابندی میں اور اس پر عمل کرنے میں شدید کوتاہی ہو رہی ہے۔ ہم اس قانون کو اپنے گھروں میں توڑ رہے ہیں، اپنے خاندانوں میں توڑ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کہیں ہمیں اس کی یہ سزا نہ دے کہ وہ قانون پھر قانونی طور پر توڑا جائے۔ یہ خدا کے طریقے ہوتے ہیں، وہ کبھی براہ راست سزا دیتا ہے، کبھی اپنی مخلوقات اور اپنے بندوں کے ذریعے سزا دلواتا ہے۔ یہ عناصر اربعہ، یہ بحر و بر، یہ خشکی و تری، یہ موسم اور طاقتیں جو اس کائنات میں کام کر رہی ہیں۔ و للہ جنود السموات و الارض یہ سب خدائی لشکر ہیں۔ پہلے ہم اس قانون کی حرمت اور اس قانون کا احترام اپنے گھروں میں کریں، زوجین آپس کریں، میاں بیوی اپنے تعلقات اور ان حقوق و فرائض میں کریں جو ان پر عائد ہوتے ہیں، ترکہ و میراث کے قانون میں اس کا احترام کریں، اس کی پابندی کریں، نکاح و طلاق کے مسائل میں اس پر عمل کریں، پھر کسی کی مجال نہیں کہ دنیا میں وہ اس قانون کو چیلنج کرسکے۔ گردنیں جھک جائیں گی اور ساری دنیا سرافگندہ ہوجائے گی بلکہ اس کو شوق ہوگا کہ وہ آپ کے قانون پر چلے۔لیکن جب ہم اس قانون کو اپنے گھر میں توڑیں گے تو پھر دوسروں سے توقع نہیں کرسکتے کہ وہ ہمارے قانون کا احترام کریں۔ آج آپ اپنا جائزہ لیجیے، دیانت دارانہ جائزہ لیجئے، اپنے خود آپ محتسب بنئے اور اپنے لیے اپنے گھروں میں عدالتیں قائم کیجیے۔ اپنے مقدمے خود دائر کیجیے۔ آپ ہی مدعی بنئے، آپ ہی مدعا علیہ بنئے اور دیکھئے کہ کتنے خدائی قانون ہیں، کتنے قرآن مجید کے منصوصات اور قطعیات ہیں، جن میں دنیائے اسلام کے دو عالموں کے درمیان بھی اختلاف نہیں، ان کو آپ کس طریقہ سے نظر انداز کر رہے ہیں۔ آپ نے اپنی بہنوں کو ان کے والدین کی میراث (ترکہ) سے ان کا حصہ دیا؟ آپ نے نکاح و نکاح کے حق کو اس طرح استعمال کیا جس طرح اللہ اور اس کا رسول چاہتا ہے؟ کیا مسلمان شوہر نے اپنی بیوی کے اور مسلمان بیو ی نے اپنے شوہر کے حقوق ادا کیے؟ کیا آپ کو مسائل کا علم ہے؟ تفصیلی علم تو بڑی چیز ہے، لیکن کیا آپ کو موٹی موٹی باتیں بھی معلوم ہیں۔ یہ ہمارا طرز عمل اس قانون کے معاملہ میں ہے، اس کی ہماری نظر میں (معاذ اللہ) پرکاہ کے برابر بھی قیمت نہیں، ہم ایک ادنیٰ مفاد کے لیے، ادنیٰ درجہ کے فائدہ اور راحت کے لیے اس قانون کو پامال کرتے ہیں، اس قانون کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں تو ہمیں دوسروں سے کیا شکوہ؟

آج میں اس مجمع عظیم کو ایمانی زبان، قرآنی زبان میں خطاب کرتا ہوں، آپ کی عملی زندگی کا محاسبہ کر رہا ہوں، آپ خود یکھئے کہ آپ اس قانون کا کتنا احترام کرتے ہیں، اس پر خاندانی روایات کو اور رسم و رواج کو کتنی ترجیح دیتے ہیں؟ اس پر اس کا اضافہ کیجیے جو آپ نے اپنے ہم وطنوں سے سیکھا ہے۔ جہیز کا بڑھا چڑھا مطالبہ ہم میں کہاں سے آیا؟ اس کو کسی نام سے یاد کیا جاتا ہو، یہ چیز کہاں سے آیا؟ مکہ مدینہ، حرمین شریفین سے آیا ہے؟ قرآن مجید کے راستے سے آیا، یہ لعنت کہاں سے آئی؟ جب آپ اس کو قبول کرتے ہیں تو اللہ بطور سزا کے آپ کی غیرت ملی کو آپ کے وجود ملی کو بار بار نشانہ بناتا ہے۔

قرآن شریف میں صاف صاف ہے:

’’تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی لائی ہوئی ہوتی ہے، وہ تمہارے عمل کا نتیجہ ہوتا ہے (یہ بھی ایسی حالت میں ہے) کہ اللہ تعالیٰ بہت کچھ عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔‘‘ (الشوریٰ:۳۰)

ورنہ قرآن میں یہ بھی ہے:

’’اگر اللہ تعالیٰ پکڑنے لگا انسانوں کو ان کے اعمال پر تو سطح زمین پر کوئی چلنے والی اور رینگنے والی چیز باقی نہ رہے، لیکن وہ ان کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیے جاتا ہے سو جب ان کا وقت آجائے گا (تو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا) خدا تو اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ (فاطر:۴۵)

جب ہم اہل حکومت اور برادران وطن سے شکایت کرتے ہیں تو ہمیں آپ سے شکایت کرنے کا حق کیوں نہ ہو؟ ان سے شکایت کریں گے اور ان کا دامن پکڑیں گے، لیکن آپ کا گریبان پکڑ لیں، اور وہ ہاتھ ہمارا نہیں ہوگا وہ دینی احتساب کا ہاتھ ہوگا، وہ شریعت کا ہاتھ ہوگا، جو آپ کا گریبان پکڑے گا اور کہے گا کہ پہلے تم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو کہ تم اس قانون پر کتنا چلتے ہو، تمہاری نگاہوں میں اس قانون کی کتنی حرمت ہے؟ تم جہاں اس قانون کو چلا سکتے ہو، وہاں چلا رہے ہو کہ نہیں؟ تم تو اپنے گھروں میں اس قانون کو نہ چلاؤ اور حکومت سے مطالبہ کرو کہ وہ تمہارے قانون کو چلائے، اس کا احترام کرے۔میں آپ سے ایک بات کہتا ہوں، یہاں سے یہ عہد کر کے جائیے کہ اب قانون شریعت پر چلیں گے۔ یہ جہیز کی کیا مصیبت ہے؟ لڑکے والوں کی طرف سے مطالبات کی ایک لمبی چوڑی فہرست پیش ہوتی ہے، شرائط پیش کیے جاتے ہیں، ان کے پورا نہ ہونے پر یہ معصوم لڑکیاں جلا دی جاتی ہیں۔ ملک میں سیکڑوں واقعات پیش آتے ہیں، کیا اس کائنات کے خالق اور نوعِ انسانی کے مربی (جس کی مخلوق مرد و عورت دونوں ہیں) کو یہ چیز گوارا ہوسکتی ہے؟ کیا اس ظلم کے ساتھ کوئی ملک، کوئی معاشرہ پنپ سکتا ہے، خدا کی رحمت و نصرت کا مستحق ہوسکتا ہے؟ آپ رحمۃ للعالمین کی امت ہیں، آپ کے ہوتے ہوئے دوسروں کو بھی اس کی ہمت نہیں ہونی چاہیے تھی۔

آپ کے ہوتے ہوئے ہندوستانی سماج میں، ہندوستان کے معاشرہ اور سوسائٹی میں یہ ظلم ہو، اس کو عقل قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، آپ کے ہوتے ہوئے بھی یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، چہ جائے کہ آپ کے ہاتھوں ہو، عہد کیجیے کہ آپ اسلامی طریقہ پر شریفانہ انسانی طریقہ پر، شادی کا پیام دیں گے، آپ لڑکی مانگیں گے، اپنے لیے رفیقہ حیات کی تلاش کریں گے، بیٹے کے لیے پیام دیں گے، جہیز کے لیے آپ کے بڑھے چڑھے مطالبات نہیں ہوں گے کہ ہمیں یہ ملنا چاہیے، وہ ملنا چاہیے، لڑکوں کو اور ان کے وارثوں اور بزرگوں کو اس کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنے یہاں تو کیا، ہم اس ملک سے اس رسم کو ختم کریں گے۔

ایسا ہی ترکہ شرعی طریقہ پر تقسیم ہونا چاہیے۔ نکاح شرعی طریقہ پر ہونا چاہیے۔ طلاق کا مسنون طریقہ معلوم کرنا چاہیے، مسنون اور افضل طریقہ کیا ہے؟ پھر اس کے بعد فقہی طلاق جس سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، اس کو سمجھنا چاہیے کہ طلاق رجعی کیا ہوتی ہے؟ طلاق بائن و مغظلہ کیا ہوتی ہے؟ پھر اس میں طلاق کو آپ یہ سمجھیں کہ طلاق ابغض المباحات ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جائز ہے لیکن آخری درجہ کی چیز ہے، بڑی مجبوری کی چیز ہے، جو اپنے کو حرام چیزوں سے اور زندگی کو تلخ بننے سے بچانے کے لیے بہت مجبوری سے دل پر پتھر رکھ کر اختیار کی جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ طلاق ایک فیشن ہوگیا ہے۔ جو لوگ مسلمانوں کو یہ طعنہ دیتے ہیں اس میں تھوڑی سی ہماری کوتاہی کو بھی دخل ہے۔ جتنا طعنہ دیتے ہیں، اتنے کے مستحق تو ہم ہرگز نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یورپ میں کیا ہوتا ہے؟ وہاں کا معاشرہ کس طرح برباد ہورہا ہے، وہاں ساری عمر ناجائز طریقہ پر جنسی تعلق قائم رکھنا جائز ہے، کوئی اس کو نہیں ٹوکتا، لیکن طلاق دینا معیوب ہے، اور اس میں ہزار دقتیں ہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ہم اپنے قانون سے ہرگز شرمندہ نہیں۔ ہم اس کے ایک ایک نقطہ کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہیں۔ کوئی شخص ہم سے آنکھیں ملا کر کہہ دے کہ اسلام کا عائلی قانون ظالمانہ ہے؟ ہم اس سے پوچھیں گے کہ اس نے کیا پڑھا ہے؟ اس نے کتنی کتابیں پڑھی ہیں، کتنا وقت صرف کیا ہے، محمڈن لا کے مطالعہ میں؟ ہم اس کا امتحان لیں گے، ہم اس کو بغیر امتحان لیے نہ چھوڑیں گے، ہم پوچھیں گے کہ تم طلاق کو کیا جانتے ہو؟ تم ترکہ کے متعلق کتنا جانتے ہو؟ معترضین آئیں، ہم سے باتیں کریں، اپنا عائلی قانون سامنے رکھیں، اور یورپ و امریکہ کا ترقی یافتہ سے زیادہ ترقی یافتہ قانون سامنے رکھیں۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ آپ جس سے چاہیں کہہ دیں کہ آپ جانتے نہیں ہیں، اگر کوئی کہے گا، تو ہم اس کا امتحان لیں گے کہ آپ کو کہنے کا حق ہے کہ نہیں، آپ (Qualified) ہیں کہ نہیں، اس کے بعد پھر ہم آپ کی بات توجہ سے سنیں گے۔

تو بھائیو! ہم اپنے قانون سے ہرگز شرمندہ نہیں۔ یہاں نہیں بلکہ واشنگٹن میں، پیرس میں، لندن میں، نیو یارک میں، آپ کہیں سمینار منعقد کریں۔ ۱۹۵۱ میں پیرس میں وہاں کی جامعات اور فضلاء و ماہرین قانون کے زیر اہتمام فقہ اسلامی کا ہفتہ منایا گیا، اس میں مشرق وسطیٰ کے فاضل ترین علماء و ماہرین قانون اور پروفیسر صاحبان بھی مدعو کیے گئے، وہاں کے بڑے بڑے جیورسٹ، بڑے بڑے قانون دانوں نے اور اعلیٰ درجے کے پروفیسروں نے برملا کہا کہ اسلامی فقہ ہمارے قانون سے زندگی کے بہت سے شعبوں میں ابھی بہت آگے ہے۔ انھوں نے کہا کہ فلاں چیز میں حنفی قانون تک ابھی ہم نہیں پہنچے اور فلاں شعبہ میں حنبلی فقہ کو ہم نہیں پہنچے۔ معاملات میں، بیوع میں، ملکیت کے معاملے میں، شہادت کے مسائل میں فلاں فقہ تک ہم ابھی تک نہیں پہنچ سکے۔

مبارک ہوگا یہ جلسہ، تاریخ ساز ہوگا یہ جلسہ، اور ساری محنتیں وصول ہیں آنے والوں کی، بلانے والوں کی، اور خرچ کرنے والوں کی، اگر آپ یہ طے کرلیں کہ خلافِ شرع رسمیں اب ہمارے گھر میں نہیں رہیں گی، اور ہم شریعت کے قوانین پر چلیں گے، تو پھر دیکھئے گا کہ آسمان سے برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ دلوں میں انقلاب پیدا کردے گا۔ آپ کے قانون میں مداخلت کی کوئی آواز نہیں اٹھے گی۔ لیکن جب تک کمزوری خود ہمارے یہاں ہے، آواز اٹھتی رہے گی۔ اس آواز کے اٹھنے کا جواز نہیں، میں صاف کہتا ہوں، ہم اگر کچھ بھی کریں جب بھی کسی جمہوری ملک میں اس کا جواز نہیں کہ ہمارے بنیادی اور مذہبی حقوق پر دست درازی کی جائے، لیکن آپ کو خود اپنی اصلاح پہلے کرنی چاہیے، اصلاح گھر سے شروع ہوتی ہے، میں ان الفاظ پر اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں