انسان اور تعلیم کا رشتہ فطری اور قدیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم علیہ السلام کے بعد، انہیں جس شرف سے نوازا وہ علم تھا۔ ’’اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے نام سکھادیے۔‘‘ (البقرۃ: ۳۱)حضور سرورِ کائنات ﷺ پر نازل کیا جانے والا سب سے پہلا پیغام ’’اقرا‘‘ تھا۔ یعنی: ’’پڑھ اللہ کے نام سے جس نے پیدا کیا۔‘‘ (العلق:۱)اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی صفت رحمت کا اظہار معلم کے حوالے سے فرمایا: ’’وہ رحمن کہ جس نے قرآن سکھایا، انسان کو پیدا فرمایا اور قوت بیان بخشی۔‘‘ (الرحمن: ۱ تا ۴)
حضور نبی کریم ﷺ کو ربِّ ذو الجلال نے حصولِ علم کی خاطر ربِ زدنی علماً کی دعا سکھائی۔ طلبِ علم کو ہر مسلمان پر فرض کیا گیا۔ علم کی دولت سمیٹنے والے عالم اور بے بہرہ رہنے والے جاہل کہلائے۔ سورۃ زمر میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے کیا برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘ (الزمر: ۹)چنانچہ سورۃ فاطر میں ارشاد ہے:’’ہم نے اہلِ ایمان اور اہلِ علم کے درجات بلند فرمائے۔‘‘
اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ علیم وحکیم ہے اور اس نے کمالِ مہربانی سے علم کی جستجو فطرتِ انسانی میں ودیعت فرمائی۔ یوں تجربات و مشاہدات سے سیکھنے کا آغاز ماں کی گود سے ہی ہوجاتا ہے۔ عمر کے ساتھ عقل و شعور پروان چڑھتے ہیں تو انسان کے سامنے علم کے کئی تصورات ابھرتے ہیں۔ تہذیب و تمدن اور مادّی ترقی علم کا ایک تصور ہے تو دوسری طرف ہر انسان فطری طور پر یہ جاننا چاہتا ہے کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ کائنات کیوں بنائی گئی؟ اس کا انجام کیا ہوگا؟ نظامِ ہستی کیا ہے اور اسے چلانے والا، اگر کوئی ہے تو وہ کون اور کیسا ہے؟ اچھائی اور برائی کی حقیقت کیا ہے؟ روح کیا ہے؟ کہاں سے آتی ہے کہاں چلی جاتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ یوں حقائق کی جستجو اور تلاش کا ایک مضبوط داخلی احساس انسان کو عقائد، عبادات، اخلاقیات اور خیروشر کی پہچان کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔
تجربات و مشاہدات کا فقط جمع کرلینا علم نہیں بلکہ تجربات و مشاہدات سے حاصل ہونے والے نتائج پر غوروفکر کرکے ان کی غایت کو سمجھنا اور حقیقت کا ادراک و آگہی وہ علم ہے جس کی دعا ہمارے پیارے رسول مقبول ﷺ فرمایا کرتے تھے:’’یا اللہ ہمیں تمام اشیاء کی اصل حقیقت سے آگاہ فرما۔‘‘
تمام انبیاء کرام اور اولیاء عظام نے اللہ کی تائید و نصرت کے ساتھ معرفت و حکمت کے حصول کی کوشش کی اور اللہ رب العزت نے سبھی کو اپنی معرفت و حکمت اور قرب سے مشرف فرمایا۔ جس کی بدولت ان نفوس قدسی کو حق الیقین اور اطمینانِ قلب کی دولت میسر آئی۔ عقلِ سلیم اور قلبِ سلیم نصیب ہوجائے تو انسان اللہ کی طرف رجوع کی عملی مثال بن جاتا ہے ۔
مسلمان معلّم انبیاء کرام کا وارث، معمارِ قوم اور داعی الی الخیر ہوتا ہے۔ جو اپنے علم و عمل کی بدولت عوام الناس کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال بن کر زندگی گزارتا اور توحید کی بنیاد پر معاشرے کی تعمیر کرتا ہے۔ وہ خود بھی غروروتکبر سے پاک ہوتا ہے اور اپنی قوم کو بھی عالمگیر محبت اور اخلاص کا درس دیتا ہے۔ وہ اپنی قوم یا ملت میں خیروشر کی پہچان اور خودی کا احساس پیدا کرکے اسے انسانیت کی معراج تک لے جاتا ہے۔ تعلیم کے ساتھ تہذیب و تربیت اور کتاب و حکمت کے ساتھ تزکیۂ نفس کا اہتمام مسلمان معلم کی اصل پہچان ہوتی ہے اور وہ فاسق و فاجر انسانوں کو سینے سے لگاتا اور انہیں سنوارتا ہے۔ جیسے کہ سورۃ البقرۃ میں آپ ﷺ کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا:’’تمہارے لیے تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا گیا جو ہماری آیات کی تلاوت کرتا، تمہارا تزکیہ کرتا اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرۃ: ۱۵۱)
انسانیت کے بہترین معلّم انبیاء کرام ہیں، جنھوں نے پوری دنیا کو اللہ کی نشانیوں سے آگاہ فرمایا تاکہ تمام انسان اپنے منعمِ حقیقی، اس کی ذات و صفات اور قوتوں کو پہچان کر توحید و آخرت پر ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں۔ انبیاء کرام نے دنیا بھر کو کتاب و حکمت اور نیکی کی تعلیم دی تاکہ انسان کو ایک ایسا معاشرہ میسر آسکے جو امن و سلامتی، راحت و سکون اور دائمی خوشحالی کا ضامن ہو اور جس میں بسنے والے انسان اپنی خداد اد صلاحیتوں اور دل و دماغ میں پوشیدہ قوتوں کو بروئے کار لاکر ان تمام خزانوں کو مسخر کرسکیں جو زمین و آسمان میں ظاہر یا چھپے ہوئے ہیں۔
دین اسلام میں علم کا حصول فرض ہے تو ترسیلِ علم سب سے بڑی ذمہ داری۔ انبیاء کرام کے بعد یہ ذمہ داری صحابہ کرام، تابعین، صوفیائے کرام، مشائخ عظام اور علماء کرام نے نہایت احسن طریقے سے انجام دی اور دین متین کو تبلیغ اور عالمی شعور کو بیدار کرنے اور امن و سلامتی کا پیغام دینے میں بھرپور اورمؤثر کردار ادا کیا۔
حقوق العباد کے حوالے سے خدمتِ انسانیت سب سے بڑی نیکی ہے اور انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ بھولے بھٹکے انسانوں کو سیدھی راہ دکھائی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سچا مسلمان معلمِ انبیاء کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انسانیت آموزی اور انسان سازی کے مقدس مشن کو ایک ملّی فریضہ اور عبادت کے طور پر منتخب کرکے اصلاحِ معاشرہ کا بیڑا اٹھاتا اور اپنی قوم میں مثبت فکر اور قوتِ عمل پیدا کرتا ہے۔ وہ تائید ایزدی اور اپنی توجہ سے افرادِ ملت کا تزکیہ کرتا اور ان میں صبر و شکر، ایمان و تقویٰ، طہارت و توبہ، عدل و احسان، اخلاص و توکل اور ایثار و قربانی جیسے اوصافِ حمیدہ پیدا کرنے کے لیے مربی کا کردار ادا کرتا ہے۔ اور تعلیم و تربیت کے ذریعے معاشرے کے ہر فرد میں ایمان و اتحاد، یقین و عمل، اخوت و محبت، شجاعت و بہادری، خدمت خلق اور ملک و ملت پر مرمٹنے کا جذبہ بخشتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا قرب معلم کی اصل منزل اور نبی کریم ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تعمیرِ ملت اور مکارمِ اخلاق کی تکمیل اس کا مشن ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی ذات اور خداداد صلاحیتوں کو ایک ایسا فلاحی معاشرہ معرضِ وجود میں لانے کے لیے وقف کردیتا ہے جس کی بنیاد توحید اور پہچان حسنِ اخلاق ہو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے اساتذئہ کرام اور معلّمین میں ایسے مقام و مرتبہ کے ساتھ تعمیرِ ملت کے حوالے سے ذمہ داریوں کا احساس اجاگر ہو۔
——