ایمان لانے کے بعد ضروری ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان عمل کے حوالے سے ان دو حیثیتوں کے تقاضے پورے کریں جو اس دنیا میں ہمیں حاصل ہیں۔ ہماری ایک حیثیت یہ ہے کہ ہم خدا کے بندے ہیں۔ ہماری دوسری حیثیت یہ ہے کہ ہم آخری رسول کے امتی ہیں۔ پہلی حیثیت کے اعتبار سے ہر مسلمان سے فرداً فرداً یہ مطلوب ہے کہ وہ ذاتی طور پر اللہ کا نیک بندہ بن جائے اور اپنے عمل سے خدا کی بندگی کا ثبوت دے اور دیگر انسانوں کو اسی معرفت سے بہرہ مند کرے جو اسے حاصل ہوچکی ہے۔ آخری رسول کا امتی ہونا ہمارے اوپر ایک اور فریضہ عائد کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم دنیا والوں کو پیغام رسالت پہنچانے کے لیے رسول خدا کی قائم مقامی کریں:
فرضت علیہم الفرائض التی افترضت علی الانبیاء والرسل۔ (وہب بن منبہ)
’’امتِ محمدی پر میں نے وہ فرائض عائد کیے ہیں جو میں نے نبیوں اور رسولوں پر عائد کیے تھے۔‘‘
حضرت محمد ﷺ سارے عالم کی طرف مبعوث ہیں اور آپ کے ماننے والے ان قوموں کی طرف مبعوث ہیں جن کے درمیان وہ پیدا کیے گئے۔ آپ کی بعثت عامہ تمام اہلِ دنیا کی طرف، آپ کی وفات کے بعد، آپ کی امت ہی کے واسطے سے ہے۔ حضرت مسعود بن محزمہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنے اصحاب کے پاس آئے اور فرمایا:
ان اللّٰہ بعثنی رحمۃ للناس کافۃ فادوا عنی۔ (تہذیب سیرت ابن ہشام۲/۱۴۱)
’’بیشک اللہ نے مجھ کو سارے لوگوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے، پس تم میری طرف سے لوگوں کی طرف پہنچادو۔‘‘
نبوت و رسالت ختم ہونے کے بعد دین کی دعوت اور لوگوں کی اصلاح و ہدایت کی تمام تر ذمہ داری ہمیشہ کے لیے اب حضورﷺ کی امت کے سپرد کردی گئی ہے اور دراصل اس امت کی یہ بہت بڑی فضیلت ہے بلکہ قرآن شریف میں اسی کام اور اسی خدمت و دعوت کو اس امت کے وجود کا مقصد بتلایا گیا ہے کہ یہ امت پیدا ہی اس کام کے لیے کی گئی ہے۔
ارشاد ہے کہ:
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنہون عن المنکر وتؤمنون باللّٰہ۔ (آل عمران: ۱۱۰)
’’(اے امتِ محمدؐ) تم ہو وہ بہترین جماعت جو اس دنیا میں لائی گئی ہے انسانوں کی اصلاح کے لیے، تم بھلائی و نیکی کا حکم دیتے ہو اور روکتے ہو برائی سے اور سچا ایمان رکھتے ہو اللہ پر۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ امتِ محمدﷺ دنیا کی دوسری امتوں اور جماعتوں میں اسی لحاظ سے ممتاز اور افضل ہے کہ خود ایمان اور نیکی کے راستے پر چلنے کے علاوہ دوسروں کو بھی نیکی کے راستے پر چلانے اور برائیوں سے بچانے کی کوشش کرنا اس کی خاص خدمت اور خاص ڈیوٹی تھی، اور اسی لیے اس کو خیر امۃ قرار دیا گیا تھا۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ امت اگر دین کی دعوت اور لوگوں کی اصلاح و ہدایت کا یہ فرض ادا نہ کرے تو وہ اس فضیلت کی مستحق نہیں، بلکہ سخت مجرم اور قصور وار ہے کہ اللہ تعالیٰـ نے اتنے بڑے کام کی ذمہ داری اس کے سپرد کی اور اس نے اس کو پورا نہیں کیا۔
جس طرح مسلمانوں کو دنیا کی تمام اقوام تک دین کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اسی طرح ان کا یہ بھی فرض ہے کہ دین کی دعوت اور اصلاح و ہدایت کا کام پہلے اس امت ہی کے ان طبقوں میں بھی کیا جائے جو دین و ایمان اور نیکی و پرہیزگاری کے راستے سے دور ہوگئے ہیں۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جو لوگ خود کو مسلمان کہتے اور کہلاتے ہیں، خواہ ان کی عملی حالت کیسی ہی ہو، وہ بہرحال ایمان و اسلام کا اقرار کرکے خدا اور رسول ﷺ اور ان کے دین کے ساتھ ایک قسم کا رشتہ اور ایک طرح کی خصوصیت پیدا کرچکے ہیں اور اسلامی سوسائٹی اور برادری کے ایک فرد بن چکے ہیں۔ اس واسطے ہمارے لیے ان کی اصلاح و تربیت کی فکر بہرحال مقدم ہے جس طرح کہ قدرتی طور سے ہر شخص پر اس کی اولاد اور اس کے قریبی رشتے داروں کی خبر گیری اور دیکھ بھال کی ذمے داری بہ نسبت دوسرے لوگوں کے زیادہ ہوتی ہے۔
اگر ہم اپنے گردو پیش بسنے والوں کو آنے والے دن سے آگاہ نہ کریں تو ہمارے لیے بحیثیت امت ٹھیک اسی گرفت کا اندیشہ ہے جو کسی نبی کے لیے اس وقت تھا جب کہ وہ اس قوم کو خدا کاپیغام نہ پہنچاتے جس کی طرف انہیں بھیجا گیا تھا۔ اپنی قوم کو شرک و کفر میں چھوڑ کر نبی کا ’’نماز و روزہ‘‘ بھی خدا کے یہاں قبول نہ تھا۔ پھر ہمارے لیے صرف ذاتی عمل کس طرح کافی ہوسکتا ہے جب کہ ہمارے گردوپیش ہمارے رشتے دار و احباب کے کئی افراد اس حال میں پڑے ہوں کہ انہیں یہ بتایا ہی نہ گیا ہو کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے اور انہیں اپنی حقیقی کامیابی کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاد صرف اس جنگ کانام ہے جو دینی اصول و احکام کے مطابق اللہ کے راستے میں لڑی جائے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ دین کی دعوت اور بندگانِ خدا کی اصلاح و ہدایت کے لیے جس وقت جو کوشش کی جاسکتی ہو، وہ بھی اس وقت کا خاص جہاد ہے۔
رسول اللہ ﷺ نبوت کے بعد قریباً تیرہ برس مکہ معظمہ میں رہے۔ اس پوری مدت میں آپﷺ کا اور آپﷺ کے ساتھیوں کا جہاد یہی تھا کہ مخالفتوں اور طرح طرح کی مصیبتوں کے باوجود دین پر مضبوطی سے جمے رہے اور دوسروں کی اصلاح و ہدایت کی کوششیں کرتے رہے اور بندگانِ خدا کو خفیہ و علانیہ دین کی دعوت دیتے رہے۔
الغرض اللہ سے غافل اور راستے سے بھٹکے ہوئے بندوں کو اللہ سے ملانے کی اور صحیح راستے پر چلانے کی کوشش کرنا اور اس راہ میں اپنا پیسہ خرچ کرنا اور وقت اور چین و آرام قربان کرنا، یہ سب اللہ کے نزدیک ’’جہاد‘‘ ہی میں شمار ہے۔
اس کام کے کرنے والوں کو آخرت میں جو اجر و ثواب ملنے والا ہے اور نہ کرنے والوں کے لیے اللہ کی ناراضگی اور غضب کے جو وعدے وعید ہیں ان کا کچھ اندازہ مندرجہ ذیل حدیثوں سے ہوسکتا ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص لوگوں کو صحیح راستے کی دعوت دے اور نیکی کی طرف بلائے، تو جولوگ اس کی بات مان کر جتنی نیکیاں اور بھلائیاں کریں گے اور ان نیکیوں کا جتنا ثواب ان کرنے والوں کو ملے گا اتنا ہی ثواب اس شخص کو بھی ملے گا جس نے ان کو نیکی کی دعوت دی اور اس کی وجہ سے خود نیکی کرنے والوں کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’اے علیؓ! قسم اللہ کی اگر تمہارے ذریعے ایک شخص کو بھی ہدایت ہوجائے، تو تمہارے حق میں یہ اس سے بہتر ہے کہ بہت سے سرخ اونٹ تمہیں مل جائیں (واضح رہے کہ اہلِ عرب سرخ اونٹوں کو بہت بڑی دولت سمجھتے تھے)۔‘‘
درحقیقت اللہ کے بندوں کی اصلاح و ہدایت اور ان کو نیکی کے راستے پر لگانے کی کوشش، جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا بہت اونچے درجے کی خدمت اور نیکی ہے اور انبیا علیہم السلام کی خاص وراثت اور نیابت ہے، پھر دنیا کی کسی بڑی سے بڑی دولت کی بھی اس کے مقابلے میں کیا حقیقت ہوسکتی ہے؟
رسول اللہ ﷺ نے ایک اور حدیث میں لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے کام کی اہمیت کو ایک عام فہم مثال کے ذریعے بھی سمجھایا ہے۔
آپ ﷺ کے ارشاد کا خلاصہ یہ ہے کہ:
’’فرض کرو ایک کشتی ہے جس میں نیچے اوپر دو طبقے ہیں، اور نیچے کے طبقے والے مسافروں کو پانی اوپر کے طبقے سے لانا پڑتا ہے جس سے اوپر والے مسافروں کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ ان پر ناراض ہوتے ہیں، تو اگر نیچے والے مسافر اپنی غلطی اور بیوقوفی سے نیچے ہی سے پانی حاصل کرنے کے لیے کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگیں اور اوپر کے درجے والے ان کو اس غلطی سے روکنے کی کوشش نہ کریں، تو نتیجہ یہ ہوگا کہ کشتی سب ہی کو لے کر ڈوب جائے گی اور اگر اوپر والے مسافروں نے سمجھا بجھا کر نیچے کے درجے والوں کو اس حرکت سے روک دیا، تو وہ ان کو بھی بچالیں گے اور خود بھی بچ جائیں گے۔‘‘
حضور ﷺ نے فرمایا: ’’بالکل اسی طرح گناہوں اور برائیوں کا بھی حال ہے۔ اگر کسی جگہ کے لوگ جہالت کی باتوں اور گناہوں میں مبتلا ہوں اور وہاں کے نیک اور سمجھ دار قسم کے لوگ ان کی اصلاح و ہدایت کی کوشش نہ کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ان گناہ گاروں اور مجرموں کی وجہ سے خدا کا عذاب نازل ہوگا، اور پھر سب ہی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے اور اگر ان کو گناہوں اور برائیوں سے روکنے کی کوشش کرلی گئی تو پھر سب ہی عذاب سے بچ جائیں گے۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے، حضورﷺ نے بڑی تاکید کے ساتھ اور قسم کھا کر فرمایا ہے کہ:
’’اس اللہ کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم اچھی باتوں اور نیکیوں کو لوگوں سے کہتے رہو اور برائیوں سے ان کو روکتے رہو۔ یاد رکھو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو بہت ممکن ہے کہ اللہ تم پر کوئی سخت قسم کاعذاب مسلط کردے اور پھر تم اس سے دعائیں کرو اور تمہاری دعائیں بھی اس وقت نہ سنی جائیں۔‘‘
اس زمانے کے بعض خدا رسیدہ اور روشن دل بزرگوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں پر ایک عرصے سے جو مصیبتیں اور ذلتیں آرہی ہیں اور جن پریشانیوں میں وہ مبتلا ہیں جو ہزاروں دعاؤں اور ختموں اور وظیفوں کے باوجود بھی نہیں ٹل رہی ہیں تو اس کا بڑا سبب یہی ہے کہ ہم دین کی خدمت و دعوت اور لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے کام کو چھوڑے ہوئے ہیں جس کے لیے ہم پیدا کیے گئے تھے اور ختمِ نبوت کے بعد جس کے ہم پوری ذمے دار بنائے گئے تھے۔ یاد رہے کہ دنیا کا بھی ایسا ہی قانون ہے کہ جو سپاہی اپنی خاص ڈیوٹی ادا نہ کرے اس کو معطل کردیا جاتا ہے اور بادشاہ جو سزا اس کے لیے مناسب سمجھتا ہے، دیتا ہے۔
——