مسلم خاتون کی شخصیت دین و روایت کے درمیان

طارق احمد صدیقی

حجاب کے سوا راسخ العقیدہ مسلمان خواتین کا کوئی نشانِ امتیاز نہیں۔دورہی سے نظر آ جاتا ہے کہ ان کی کوئی نمایاں پہچان اور تشخص نہیں ہے۔ان کے اندر کوئی امتیازی خوبی نہیں پائی جاتی۔جس کے سبب وہ زندگی کے کسی شعبے میں کوئی نمایاں کام انجام نہیں دے رہی ہوں۔ وہ امور خانہ تک سمٹی ہوئی ہیں ۔اِس سے آگے نہ ان کی کوئی شخصیت ہے نہ عزت و وقعت ۔ اوران کے پاس نہ قابلِ لحاظ د نیوی مال و متاع ہے نہ قابلِ ذکردینی علم و شعور۔ گھرداری کے علاوہ انہیںقابلِ قدرکچھ نہیں آتا۔ اوران کی یہ گھر داری بہ ذات خود کتنی اہمیت کی حامل ہے ، یہ ان حضرات سے پوچھنا چاہیے جو شریعت کے حوالے سے خواتین کے دائرۂ کارکو گھریلو سرگرمیوں تک محدود کردیتے ہیں اور محض اِسی کو اسلامی شعور، اسلامی بیداری یااسلامی انقلاب کی راہ کہتے ہیں۔ در اصل وہ حضرات، خواتین میں خانگی بیداری لانا چاہتے ہیں۔ چونکہ ان کی نظر میں مغرب نے نسوانیت کی تذلیل کی ہے ، اس کوبازار کی شئے یعنی شمعِ محفل بنا دیا ہے اس لیے وہ مسلم خواتین کو چراغِ خانہ بننے کی تعلیم دینے میں خود کو حق بہ جانب سمجھتے ہیں۔

خواتین کے دائرۂ کار کو صرف گھر تک ، بلکہ صحیح معنوں میں باورچی خانے تک محدود کر دینے سے جو نقصانات ہو سکتے تھے وہ ہوئے ہیں۔ راسخ العقیدہ مسلمان خواتین کے ذہنوں پرصدہا سال سے چراغ خانہ جیسے ہی کسی تصور کا تسلط قائم رہاجس نے ان کے درمیان اب تک عالمی سطح کی کوئی دیدہ ور اور دانشور شخصیت پیدا ہی نہ ہونے دی۔اسلام پسند مسلمانوں میںایسی کسی عظیم المرتبت اور بااثر خاتون مفکر ، ادیب ، شاعر، فلسفی، سائنسداںیا کوئی عظیم اسلامی شخصیت کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتی، جس کا نام سنتے ہی عقیدت سے سرِ تسلیم خم ہو جائے۔ بلکہ مسلمانوں کے تنگ اور محدود فکر ی دھاروں میں خواتین کے لیے ’بڑی، جید، ممتاز،با اثر، عالمی شہرت یافتہ‘ جیسے الفاظ کا کوئی تصور اب تک پیدا نہیںہو سکا۔مغرب کے رد عمل میں وہ اپنی خواتین کو ہر لحاظ سے ’مخفی‘ رکھنا چاہتے ہیں۔’عورت کی آواز بھی عورت ہے، اور اس کی تحریر بھی اور اس کا نام بھی عورت ہی ہے۔پس عورتوں کی آواز، عورتوں کی تحریر اور عورتوں کے نام کو ہرگز منظر عام پر نہ آنے دینا چاہیے۔‘ چراغِ خانہ کے اسی تصور کے تحت جیتے اور جلتے ہوئے مسلم خواتین قربانیاں دیتی رہیں اور ان کی بے تکان خدمت واطاعت کی بدولت ان کے مرد عظیم مفکر ، فلسفی، شاعر اور ادیب بنتے رہے۔

مردوں کے زیر اثر اسلامی فکر وفلسفہ ، ادب اور شاعری کی جو مثالی روایت ابھر کر سامنے آئی اس میں عورت کو حاشیے پر ڈھکیل دینے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ اقبال کا ’مرد مومن‘ نہ عورتوں کو اپیل کر سکتا تھا اور نہ اس کے ’مرد ِ مومن‘ کی نگاہ عورت کی تقدیر ہی بدل سکتی تھی۔’مرد مومن‘ کی وہ نگاہ جس سے تقدیریں بدل جایا کرتی ہیں، صرف مرد کے لیے مخصوص تھی، عورت ذات کے لیے نہیں۔ محرومی ہی ہے کہ خواتین میںنہ کسی اقبال کا ظہور ہوا، نہ کسی مودودی یاابوالکلام کا ۔اُدھر مغربی خواتین میں بیسیوں عظیم شخصیتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ مثال کے طور پر سیمون دی بووار ہی کو لیں جس کی تحریریں بیسویں صدی کے نصف آخر سے اب تک لوگوں کو بے پناہ طور پر متاثر کرتی آ رہی ہیں۔معاصر مغربی خواتین میں بھی ایسی عالمی شخصیات کی کمی نہیںجن کے افکار اور تحریریں نہایت معیاری ، قابل قدر اور با اثر ہیں۔

مسلم خاتون اور دانشوری : کہاں ہے رکاوٹ؟

جن مسلمان خواتین نے اسلام کو کسی نہ کسی حد تک خیر باد کہا یا کم ازکم اس کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرانہ ہوئیں، بہ الفاظ دیگر’’ موڈریٹ‘‘ ہو گئیں، انہوں نے بلا شبہ نمایاں کام انجام دیے۔ لیکن ایسی موڈریٹ یا مذہب بیزارخواتین جنہوں نے ادب ، شاعری ، فلسفہ اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں انہیں حقیقی معنوں میں مسلمان عورتوں کی نمائندگی کا شرف نہیں بخشا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گذارنے پر نظریاتی طور پر آمادہ نہیں تھیں۔ اس لیے ایسی خواتین مسلمان عورتوں کی نمائندگی سے از خودقاصر ہیں۔ بعض نسلی مسلمان عورتوں نے اسلام پر بے جا الزام تراشیاں کیں اور بعض نے بغاوت کی روش اپنا ئی اور اس طرح اسلام کی حدود سے نکل گئیں۔مگر دنیوی اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شخصیت اونچی اور قد آور ہے ، اگر ہمارے نزدیک قد آورہونے کا یہی ایک معیار رہ گیا ہو۔ ویسے ہمارے نزدیک یہ معیار ہو یا نہ ہو لوگ بہر حال یہ پوچھتے ہیں کہ’ اگر آپ کے اسلام میں عورتوں کو بہت اونچا مقام دیا گیا ہے تو بتائیے کہاں ہیں آپ کی اسلام پسند خواتین میں ایسی عظیم شخصیتں جو اسلام سے بیزار ، متنفر یا مفرورعورتوں ہی میں پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ادب کے میدان میںجتنا کچھ اسلام سے باغی عورتوں نے لکھا ہے اس کا عشر عشیر بھی تو اسلام پسند اور باعمل مسلمان خواتین نہیں لکھ سکتیں۔ عملاً تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ مسلمان عورتیں اپنی راسخ العقیدگی ہی کی وجہ سے کوئی عظیم ادبی یا سماجی کارنامہ انجام نہیں دے سکیں۔اور جن عورتوں نے اسلام سے لاتعلقی اختیار کی ، انہوں نے ہی بڑے کارنامے انجام دیے اوردنیا میں انہی کا مقام و مرتبہ بلند ہوا۔

لوگوں کے ذہن میں ایسے سوالات ضرور پیدا ہوتے ہیںکہ کیا اسلام واقعی خواتین کے دنیوی طور پر اونچا اور قد آور ہونے میں رکاوٹ ہے؟ کیا اسلامی اصولوں میں اس کی گنجائش نہیں کہ ایک مسلمان خاتون ان پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عظمت کی بلندیوں کو چھو لے؟ ظاہر ہے کہ ہم کہیں گے ’اسلامی اصول خواتین کی شخصیت کے لیے سرے سے کوئی رکاوٹ ہی نہیں بلکہ وہ تو ان کی شخصیت کے پروان چڑھنے میں معاون ہیں۔‘تب ایک الجھن سامنے آ کھڑی ہوتی ہے کہ اگر اسلامی اصول خواتین کی شخصیت کے پروان چڑھنے میں معاون ہیں تو وہ اصول اب تک عمل میں کیوں نہیں لائے جا سکے؟کہا جائے گا کہ وہ اصول کوتاہی کی نذر ہوگئے۔ مسلمان بے عملی اور کاہلی کا شکار ہو کر رہ گئے، جس کے سبب عورتوں کی خاطر خواہ ترقی نہ ہو سکی۔ لیکن یہ عمل کی کوتاہی نہیں ۔ بلکہ یہ نظریے کی خرابی اور پسماندگی ہے جس نے سرے سے عمل کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ہے۔ جس مغرب کو ہم دن رات کوستے رہتے ہیںاسی مغرب میں گذشتہ صدی میں عورتوں کے درمیان بیسیوں بڑی اور جید علمی شخصیات گذری ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ مغربی خواتین مغربی مردوں کے مساوی کوئی علمی کارنامہ انجام نہ دے سکیں لیکن علم و ادب اور فہم و شعور میںوہ مسلمان مشرقی خواتین سے پچاسوںسال آگے ہیں۔ ہم یہ کہہ کر اپنی ذمے داری سے نہیں بچ سکتے کہ مغربی خواتین تو گم کردہ راہ ہیں ، بھلا ان سے مسلمان خواتین کا کیا مقابلہ۔ لیکن یہ کہتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ جو لوگ کفر میں اچھے ہوتے ہیں وہ اسلام میں بھی اچھے ہی ثابت ہوتے ہیں۔

خرابیاں

عورتوں کے ہمارے ’اسلامی‘ نظریے میں اولین خرابی یہ ہے کہ مرد علما نے زندگی کے ہر معاملے میں عورت کو مرد کی ماتحتی میں گرفتار کر لیا ہے جس کی کوئی واضح سند اللہ کی شریعت میں موجود نہیں۔مرد اس کی زندگی کے ہر گوشے میں دخل در معقولات کا مرتکب ہوتا ہے۔ وہی اس کے لیے مذہبی اصول طے کرتا ہے۔ اور اس کو قرآن کی تشریح و تعبیر کی عملی آزادی نہیں دیتا۔وہی یہ طے کرتا ہے کہ عورت حنفی مسلک پر چلے یا شافعی مسلک پر۔ کم ازکم ہند و پاک کی سطح پر کسی عورت کویہ اختیار نہیں کہ وہ حجاب ہی کے سلسلے میں اپنا مسلک اور موقف بدل لے۔ ممکن ہے بعض خوش گمان لوگ اس سے اتفاق نہ کریں۔ لیکن بر صغیر ہند و پاک میں یہ لطیفہ ہی ہے کہ کوئی عورت کہے کہ برقعہ میں اپنی مرضی سے لگاتی ہوں ۔یہ بات طبقہ اشرافیہ کی مسلمان عورتوں کے منہ سے سچ نہیں لگتی ۔ذرا کہہ کر تو دیکھے مولوی ہدہد کی بیوی کہ آج میں چہرہ کھول کر بازار جائوں گی یعنی شافعی مسلک پر عمل کروں گی ۔ اس کے بعد دیکھیے بے بھائو کی قوامیت کا مظاہرہ ۔ وہ مرمت ہوگی کہ سات پشتیں یاد رکھیں گی۔ بڑی آئی تھیںحق مانگنے۔

جس ڈسکورس میں ہم جی رہے ہیں اس میں یہ بات کم ہی لوگوں کو سمجھ میں آ سکتی ہے کہ زبردستی برقعہ پہنانے سے تسلیمہ نسرین پیدا ہوئی اور آزاد غور و فکر کے کے نتیجے میں کملا ثریا اور مریم جمیلہ۔ برقعہ لگانے پر کسی مرد کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔یہاں حق خود ارادیت کی بات کی جا رہی ہے۔عورت کو مرد کا ضمیمہ اور ماتحت بنا کر رکھنے کی وجہ سے پردہ نشین مسلمان عورتیں بے شعور ، کم علم، بودی ، اور بزدل ہو گئی ہیں۔ وہ گھر سے چوک تک صحیح سلا مت چل کر نہیں جا سکتیں۔ سو بار چکر آئیں گے اور چار بار ٹھوکر لگے گی۔شایدمبالغہ ہو رہا ہے لیکن ہندوستان میں بے شعورپردہ نشینوں کی تعداد ہی زیادہ ہے۔اور بعض خلیجی ممالک کے بارے میں تو یہاں تک سنا جاتا ہے کہ اُدھرشیوخ اپنے گھروں کو باہر سے تالا لگاکر آفس جاتے ہیں ۔ممکن ہے کہ یہ افواہ ہو لیکن ڈرائیونگ کی اجازت تو انہوں نے اپنی عورتوں کو کچھ عرصہ پہلے ہی دی ہے۔اور بعض ممالک میں اب بھی اس کی اجازت نہیں ہے۔ ایسی خاتون جو گھر میں گاڑی کے رہتے ہوئے ڈرائیونگ نہ جانتی ہو اس کے شعور کا اللہ ہی حافظ ہے۔

جس معاشرے میں عورتوں کے تعلق سے عدم اعتما دکی ایسی فضا قائم ہو ، ان کی مذہبی اور مسلکی آزادی کو قدم قدم پر پامال کیا جاتا ہو ، انہیں اپنے بارے میں خود فیصلے لینے کا کوئی اختیار نہ ہو، نوعمری ہی سے امر بالمعروف کے نام پر بے جا نصیحتوں سے اس کے ہاتھ پیر جکڑ دیے جائیں ، اور اس طرح انتہائی آزادی کے ساتھ غلو فی الدین کا ارتکاب ہوتا رہے ، اس معاشرے کی عورتوں کے ذہین طبقے میں مذہب سے بغاوت ہی جنم لے گی، کسی علمی و فکری شخصیت اور کسی قد آوردانشور ہستی کا پیدا ہوناناممکن کی حد تک مشکل ہوگا۔ دیدہ وری بڑی چیز ہے ، تنگ نظروں کو نصیب نہیں ہوتی، خواہ نرگس ہزاروں سال اپنی بے نوری پر روتی ہی رہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں