اسلام میں خواتین کے حقوق کے سلسلے میں مفکرین کی آوازیں باشعور لوگوں کے کان تک پہنچ رہی ہیں لیکن ہم میں سے کم ہی لوگ اس سلسلے میں غوروفکر کرتے ہیں کہ مسلم خواتین ان حقوق سے کیسے اور کس حد مستفید ہوں، خواتین کے اسلامی حقوق اور ان کے عملی نفاذ میں کہاں کوتاہیاں ہیں اور یہ قوانین کہاں ترجمانی کے محتاج ہیں اور کس حد تک اصلاح اور نئے تقاضوں کے مطابق ممکنہ تبدیلی ضروری ہے۔
ان تھک جدوجہد اس بات پر صرف کی جارہی ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود اسلامی شریعت جو چودہ سو سال پہلے نازل کی گئی تھی کتنی مکمل اور دور اندیش ہے کہ اتنے عرصہ کے باوجود وہ قابل عمل ہی نہیں بلکہ مکمل ترین ہے۔ جبکہ اسلام دشمن طاقتیں اس سے زیادہ محنت کے ساتھ اس پر تنقید کرنے اور اس کی صورت کو مسخ کرنے میں لگی ہیںاور اس میں یہودی اور سامراجی طاقتیں پیش پیش ہیں۔مسلم عورت کے سلسلے میں یہ مان لیا گیاہے کہ سب کچھ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ مسلم خواتین کی ازدواجی زندگی پُرکیف اور اچھی ہے۔ انہیں اپنے شوہروں کی محبتیں حاصل ہیں، انہیں عزت و احترام ملا ہوا ہے اور ان کی گھریلو زندگی پرسکون اور اطمینان بخش ہے۔ اور — اور یہ کہ عمرانہ، امینہ یا کنیز جیسے واقعات اکا دکا اور کبھی کبھار ہی ہوتے ہیں جو متعصب میڈیا کے ذریعہ اچک لیے جاتے ہیں۔
یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ مسلم معاشرہ میں ایک سے زیادہ بیویاں شاذ و نادر ہوتی ہیں، طلاق بھی کم ہی ہوتی ہے اور جہیز کے سبب دلہن جلانے سے مسلم معاشرہ محفوظ ہے۔
ہم نے بنگلور اور اس کے اطراف کی مسلم خواتین میں قانونی رہنمائی کی ورکشاپ میں ہر ہفتہ دو سے تین گھنٹہ کا وقت صرف کیا اور کوئی بارہ ہفتہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہ ورکشاپ دہلی اور بنگلور کی دو غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی ایک ٹیم نے منعقد کی تھیں۔ ان تنظیموں نے راجستھان اور کرناٹک دونوں ریاستوں سے چھ چھ اضلاع کا انتخاب کیا تھا کہ شریعت اسلامی اور قرآن کریم کی روشنی میں خواتین کو دئے گئے حقوق کے سلسلے میں محکم معلومات فراہم کریں۔ ورکشاپ کے شرکاء زیادہ تر چالیس سے پینتالیس خواتین پر مشتمل ہوتے تھے حالانکہ منعقد کرنے والی تنظیموں کے نزدیک شریک ہونے والی خواتین کی مطلوبہ تعداد ۳۵ مانی گئی تھی( اسی طرح کے ورکشاپ مردوں کے لیے بھی منعقد کیے گئے)۔ ہم نے اسلامی شادی کے لیے لڑکی کی رضامندی، ہندوستان میں شادی کی قانونی عمر، مہر شادی کے دستاویزات کی تیاری، شادی کے لیے حرام اور ممنوع رشتوں، نان و نفقہ، طلاق اور شریک زندگی کے کسی متعدی مرض میں مبتلا ہوجانے، غائب یا پاگل ہوجانے یا لمبی مدت کے لیے جیل بھیج دئے جانے کی صورت میں مسلم عورت کے سامنے کیا قانونی راستے رہتے ہیں، طلاق کی صورت میں عورت کے حقوق ، سرپرستی اور طلاق کی صورت میں بچوں تک رسائی جیسے موضوعات پر گفتگو کی۔
انسانی حقوق، دستور ہند، ایک خاندان کے افراد کی ذمہ داریاں اور حقوق پر تقریروں، ماہر خاتون کے ذریعہ کاؤنسلنگ کے پروگراموں کے بعد عام تبادلہ خیال کے دوران بہت ساری اہم معلومات حاصل ہوئیں اور بیوہ، مطلقہ یا معلق خواتین کی گھریلو زندگی سے متعلق ایسے بہت سے حقائق سامنے آئے جنھیں ہمارا معاشرہ نظر انداز کرتا ہے یا ان کا علم ہی نہیں ہوپاتا۔
اسی دوران یہ بھی اندازہ ہوا کہ شہری عورتیں تو ازدواجی زندگی سے متعلق حقوق کی کچھ جانکاری رکھتی ہیں جبکہ دیہی یا نیم شہری علاقوں کی خواتین کو اس بات کا خیال تک نہیں کہ ان کے کچھ حقوق بھی ہیں۔
۹۰ فیصد شادیوں میں مسلم بیویوں کو مہر کبھی ادا ہی نہیں کیا جاتا اور جہاں ادا کیا جاتا ہے وہاں تو مہر کی رقم 125/-سے1500/-کے درمیان رکھی جاتی ہے۔ بمشکل یہ رقم پانچ ہزار سے بڑھتی ہے۔ زیادہ تر خواتین نے یہ بات کہی کہ مہر شادی کے لیے ایک ضروری (آلہ) چیز ہے ۔ ازدواجی زندگی کے لیے پیشگی عائد کی جانے والی شرط۔ اور تقریباً ہر ایک نے اس بات سے اتفاق کیا کہ شوہر کے مرض الموت میں ہونے کی صورت میں عورت کو مہر سے دستبردار ہونے اور مہر معاف کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔
مسلم معاشرے میں نچلے طبقے کی حیثیت سے جانے جانے والوں میں مہر ایک علامتی رقم کے طور پر جانی جاتی ہے جبکہ نام نہاد اعلیٰ خاندانوں کے درمیان یہ رقم اتنی اعلیٰ اور زیادہ ہوتی ہے کہ اسے شاید کبھی بھی ادا نہ کیا جاسکے۔ دونوں ہی صورتوں میں لوگوں کے اندر مہر ادا کرنے کی سوچ ہوتی ہی نہیں۔
جہیز گھریلو تشدد کی سب سے بڑی وجہ کے طور پر جانا جاتا ہے اور دلہنوں کے جلائے جانے کے زیادہ تر واقعات بنگلور کے میسور روڈ مسلم علاقے سے آتے ہیں جہاں کوئی چھ لاکھ مسلمان رہتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان گھریلو تشد دکی اتنی زیادہ وارداتوں کے پیش نظر بنگلور پولیس نے خاص طور پر مسلمانوں کی کاؤنسلنگ کے لیے پولیس کمشنر کے آفس میں ایک خاص یونٹ چند سال سے شروع کیا اور اب یہ ایک ایسے مسلمان سب انسپکٹر کے ذریعہ چلایا جارہا ہے جو قرآن اور شریعت کی وافر معلومات رکھتا ہے۔ اور صورت حال یہ ہے کہ اس پولیس آفیسر سے بات چیت ہر شخص کے لیے ضروری ہے جو اس علاقے میں مسلم عورت کی صورتحال جاننا چاہتا ہے۔
جدائی، طلاق یا عورتوں کے سسرالی گھر سے نکالے جانے کا غالب سبب ناکافی جہیز ہوتا ہے یہ ایسی حقیقت ہے جسے کسی بھی حال میں مسلم معاشرہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ غیر معمولی طور پر جہیز کے لالچی مرد عورت کو ستانے کے لیے ہندوستانی سماج کی روایات اور شریعت دونوں کو غلط طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ جہیز بھی اینٹھ لیتے ہیں اور مسلم پرسنل لا کے تحتنباہ نہ ہونے کی صورت میں طلاق بھی دے ڈالتے ہیں اور عورت جب گھر سے نکلتی ہے تو مہر، نان نفقہ اور وہ رقم جسے قرآن نے متاع بالمعروف کہا ہے مشکل ہی سے دی جاتی ہے( میں نے بنگلور کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے پاس اس طرح کے کئی مقدمے دیکھے ہیں)۔ اگرچہ اس دوران طلاق کے بھی کچھ واقعات سامنے آئے لیکن بیوی کو چھوڑ دینے کے واقعات عام تھے۔ شوہروں نے بیویوں کو چار پانچ بچوں کے ساتھ چھوڑا اور غائب ہوگئے۔ بہار، اتر پردیش اور شمالی ہند کے دیگر علاقوں کے کئی امام مولوی حضرات بھی کئی کئی بچوں کے ساتھ اپنی بیویوں کو چھوڑ کر چلے جانے کے مرتکب پائے گئے۔ اس طرح کے کئی واقعات میں خواتین نے شکایت کی کہ ان کے اس طرح چھوڑے جانے کا سبب کئی لڑکیوں کو جنم دینے کا ’’جرم‘‘ تھا۔
ہم نے اس طرح کی ماؤں کی بڑی تعداد کو جن کے غیر ذمہ دار شوہروں نے انہیں چھوڑ دیا، اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات کے حصول کے لیے ایک ایسے ٹرسٹ کے یہاں لائن لگاتے دیکھا ہے جو اس طرح کے بچوں کو تعلیمی وظائف دیتا ہے۔
طلاق کی ایک ثابت شدہ وجہ مرد کے دوسری عورتوں سے ناجائز تعلقات بھی ہیں۔ بڑے شہروں میں اس طرح کے افراد کی اس کے لیے موافق زندگی جو گھومنے پھرنے والے مثلاً ڈرائیور یا سیلس مین وغیرہ آسانی سے اس طرح کے ناجائز تعلقات میں پھنس جاتے ہیں۔ دوسری عورتوں کو اگرچہ صحیح صورتحال کا علم کم ہی ہوپاتا ہے مگر یہ اس طرح کے افراد کی معاشی زندگی کو چکنا چور کردیتا ہے جوپہلے ہی سے اس قابل نہیں ہوتے کہ اپنے بچوں کو دو وقت عزت کی روٹی کھلا سکیں۔ اس صورتحال کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے بچے کم عمری ہی میں بچہ مزدوری کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں اور مائیں ان کی کمائی پر منحصر ہونے کے لیے مجبور ہوتی ہیں ایسے میں گھر سے دور ان بچوں کو زندگی کا سلیقہ اور نظم و ضبط کیسے سکھایا جاسکتا ہے۔ ایسے حالات میں اس قسم کے بچے قبل از وقت ہی ایک تکلیف دہ حالت کی طرف دھکیل دئے جاتے ہیں۔ دوسری مصیبت یہ کہ جلد کمانے کی وجہ سے یہ بچے بہت کم عمری ہی میں بری عادتوں جیسے لاٹری و جوا، بہت زیادہ فلم بینی اور ڈرگس و دیگر منشیات کی لعنت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ چیز ان کی ازدواجی زندگی کے سورج کو بھی گہنا دیتی ہے کیونکہ وہ ایسی عمر میں اس رشتہ میں بندھ جاتے ہیں جہاں وہ نہ ذہنی طور پر بالغ ہوتے ہیں اور نہ خاندان کی معاشی ذمہ داریوں کو اٹھانے کے قابل ہوتے ہیں۔
بلا تفریق مسلم گھرانوں میں لڑکیوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اگرچہ ہم اپنے علماء کو مسلسل یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ اسلام نے خواتین کو چودہ سو سال پہلے ہی بے شمار حقوق دے دئے ہیں۔
بنگلور شہر سے باہر صرف چند عورتیں ہی وراثت میں اپنے حق کے بارے میں جانتی تھیں جبکہ زیادہ تر خواتین، جن سے ہم ان ورک شاپ میں ملے، اس بات کا اعتراف کرتی تھیں کہ وہ اپنے باپ کی جائداد میں کسی بھی حصہ کی توقع یا امید نہیں رکھتیں یا انھوں نے اپنے والدین کی میراث سے رضا کارانہ طور پر اپنے کو الگ کرلیا اور سب کچھ بھائیوں کے حق میں دے کر دستبردار ہوگئیں۔ لڑکیوں کو ہمیشہ یہ باور کرایا گیا کہ جہیز جو انہیں شادی کے وقت دے دیا گیا وہ والدین کی جائداد کا حصہ ہی تو تھا جو انھیں پہلے ہی (ایڈوانس) دے دیا گیا ہے۔
ہم نے طلاق کا قرآنی طریقہ تین نشستوں میں تفصیل سے بیان کیا اور شوہروں پر عائد ہونے والی اس سلسلہ کی مالی و معاشی ذمہ داریاں بھی بتائیں اس وقت انہیں اس پر حیرت ہوئی اور انھوں نے یہ تاثر دیا کہ اس سے پہلے انہیں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا تھا۔ خواتین کو یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ وہ بہ حیثیت عورت نکاح نامہ میں کچھ شرطیں (مثلاً سسرال کے لوگوں سے الگ رہائش، یا دوسری شادی کی صورت میں خود بہ خود طلاق واقع ہوجانا) بھی رکھ سکتی ہیں۔ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ اس وقت معاشرہ میں بالکل الٹی صورت حال ہے اور لڑکی کی جانب سے کوئی بھی شرط اس کی شادی کو شاید ناممکن عمل بنادے گی۔مسئلہ کا حل خواتین کے معاشی حقوق کی حفاظت اور مسلمانوں کے اندر شادی اور اس سے متعلق ذمہ داریوں اور حقوق کے سلسلہ میں عام بیداری پیدا کرنا ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ: شاداب سلیم)