مسلم خواتین کا امتیازی نشان— حجاب

ڈاکٹر رخسانہ جبین

حجاب امتِ مسلمہ کا وہ شعار، مسلم خواتین کا وہ فخر و امتیاز جو اسلامی معاشرے کو پاکیزگی عطا کرنے کا ایک ذریعہ تھا (اور ہے) استعمار کی سالہا سال کی سازشوں کے نتیجے میں آج بھر پور حملوں کی زد میں ہے۔مسلم دنیا کو پاکیزگی سے ہٹا کر بے حیائی کی دلدل میں دھکیلنا اور عورت کو ترقی کے نام پر بے حجاب کرنا شیطانی قوتوں کا ہمیشہ سے ہدف رہا ہے۔ شیطان کی سب سے پہلی چال جو اس نے انسان کو فطرت کی سیدھی راہ سے ہٹانے کے لیے چلی وہ یہ تھی کہ اس کے جذبۂ شرم و حیا پر ضر ب لگائی۔ اور اس کے شاگردوں کی یہ روش آج تک قائم ہے۔ ان کے ہاں ترقی کا کوئی کام اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا، جب تک عورت حجاب سے باہر نہ آجائے۔ حیاء کو دقیانوسیت قرار دیا جاتا ہے، پردے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ باور کرایا جاتا ہے اور طرح طرح سے برقع اور چادر کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ:
٭ پردہ و حجاب عورت کو تقدس ہی نہیں تحفظ بھی عطا کرتے ہیں۔ یہ شیطان اور اس کے حواریوں کی غلیظ نگاہوں سے بچنے کے لیے ایک محفوظ قلعہ ہے۔
٭ برقع و چادر معاشرے سے بے حیائی کی جڑ کاٹ دیتے ہیں۔ جب عورت پردہ اتار پھینکتی ہے تو اس کی مثال اُس سپاہی کی سی ہوتی ہے جو اپنی زرہ اتار پھینکتا ہے اور وہ دشمن کا تر نوالہ بن جاتا ہے۔
٭ عورت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان کے بعد خوبصورت ترین تحفہ پردہ عطا ہوا ہے جو اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے۔
٭ پردہ عورت کو ظاہری نمود و نمائش اور غیرضروری اخراجات سے روکتا ہے، سادگی سکھاتا ہے۔
٭ پردہ عورت کی زینت ہے، شرم و حیا اس کا زیور ہے اور اس زیور کی حفاظت پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
٭ پردہ عورت کو بلاضرورت گھر سے باہر جانے سے روکتا ہے، جس سے وہ اپنے گھریلو فرائض احسن انداز سے سر انجام دے سکتی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جسے نبی کریم ﷺ نے عورتوں کا جہاد کہا ہے۔
٭ ایسی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے، جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں اور پیارے نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکیں گی۔ جنت کی خوشبو تو ان سے ہزار میل دوری سے گزرجائے گی۔
چادر اور چاردیواری تو عورت کے تحفظ کے عنوان ہیں۔ اور عورت کا تحفظ خاندان کے استحکام، نئی نسلوں کی تربیت کے انتظام اور معاشرتی استحکام کا ضامن ہے۔ شیطان کے چیلوں نے کتنا بڑا وار کیا کہ دونوں کو متنازعہ بناکر عورت کو گھر اور پردے سے نکال کر پوری انسانیت کو نہ صرف ذلت سے دوچار کردیا ہے، بلکہ انسانیت کا مستقبل ہی داؤ پر لگادیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مغرب خاندان اور معاشرتی لحاظ سے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ عورت بے پردہ ہوئی تو بن بیاہی مائیں بننے پر معاشرے میں کوئی عار نہ رہی۔ ناجائز بچوں کی کثرت ہوگئی۔ ہر تیسری شادی طلاق پر منتج ہونے لگی۔ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ جنسی بیماریوں نے ایڈز کی سنگین صورت اختیار کرلی۔ ڈپریشن اور ذہنی امراض کی وجہ سے خود کشیوں میں اضافہ ہوگیا۔ مغربی اقوام اپنے اس معاشرتی انتشار کے بعد مسلمانوں کو بھی اس کا شکار کرنا چاہتی ہیں۔
حجاب پر پابندیاں عائد کرنے کا کھیل انہی طاقتوں کا ہے، جنھیں مسلمانوں کے مضبوط خاندانی نظام اور معاشرتی استحکام نے شکست خوردہ کردیا ہے۔
مسلمان خواتین نے پورے شعور کے ساتھ اپنے رب کی رضا اور اپنے نبی ﷺ کی تعلیم و سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے لیے یہ شعار پسند کیا ہے اور ان شاء اللہ مشرق و مغرب کا کوئی لبرٹی اور آزادی پسند یہ اتروا بھی نہیں سکتا۔ ان کا حق اور نصیب حیاء باختگی اور برہنگی ہے تو مسلم خاتون کا حق حجاب اور حیاء پر کاربند ہونا ہے۔ ان کو شیطانی تہذیب پر چلنے کی آزادی ہے اور وہ اس کے پشتیبان ہیں تو ہمارا حامی و ناصر رب کائنات ہے جس کی رضا پر ہم چل رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ حجاب (برقع، چادر، عبا یا گاؤن … کچھ بھی کہہ لیں) تو اسلام کا کلچر ہے اور فحاشی و بے حجابی شیطان کی روایت ہے جس کا اعلان خود رب کائنات نے کیا ہے:
’’اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، تمھیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمھیں علم نہیں ہے کہ (وہ اللہ نے فرمائی ہیں)۔‘‘ (البقرۃ: ۱۶۹)
عورت کو چادر، دوپٹے سے بے نیاز اور بے حجاب کردینا ہی متبعین ابلیس کا مطلوب و مقصود ہے۔
مسلمان عورت کا شعار حجاب ہے، پردہ ہے، مکمل لباس ہے… خواہ چادر کی صورت میں ہو یا گاؤن کی صورت میں اور چادر محض گرمی اور سردی سے بچانے والی شے نہیں۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ یہ ہمارے رب کا حکم ہے اور شارع نے یہ حکم دیتے ہوئے جو مقصد بتایا تھا، وہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے، فرمایا: ’’اے نبی ﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں، یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۵۹)
یعنی پہچان لی جائیں کہ یہ شریف اور باحیاء عورتیں ہیں، مومن عورتیں ہیں، ممتاز ہیں، پاکباز ہیں تاکہ شیطان کے ایجنٹ ان سے کوئی چھیڑ خانی نہ کرسکیں۔ ایک تصویر اور حلیہ مغربی عورت کی پہچان ہے اور ایک تصور فاطمۃ الزہراؓکا ہے، جو مسلمان عورت کی پہچان ہے۔ مغرب کے دوہرے معیار کو دیکھیں، ایک جانب بے حیاء عورت کی یہ مادر پدر آزادی ہے جس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں، دوسری جانب ایک مسلمان عورت اگر حجاب میں باہر آنا چاہتی ہے تو اس کے لیے کوئی شخصی آزادی نہیں۔ مغرب حجاب سے ایسے خوفزدہ ہے، جیسے یہ کوئی بم ہو جو انھیں تباہ کردے گا۔
ایک لطیف نکتہ بیان کیا جاتا ہے کہ کعبہ پر غلاف ہے تاکہ معلوم ہو یہ عام جگہ نہیں مسلمانوں کا قبلہ ہے، بیت اللہ ہے۔ قرآن پر غلاف ہے تاکہ معلوم ہو کہ مقدس کتاب ہے، ’’کتاب اللہ‘‘ ہے، عام کتاب نہیں۔ عورت پر حجاب ہے تاکہ معلوم ہو کہ عام عورت نہیں’مسلمہ‘ ہے اور پردہ اس کا شعار ہے۔
حجاب محض سر پر رکھے جانے والے ڈیڑھ گز کپڑے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مجموعۂ احکام کا نام ہے، یہ اسلام کے نظام عفت و عصمت کا نام ہے، جو معاشرے کو پاکیزگی بخشتا ہے، عورت کو توقیر عطا کرتا ہے، خاندانوں کو محفوظ و مستحکم کرتا ہے اور باہمی اعتماد کی بحالی کے ذریعے محبتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146