عورت معاشرے کی تعمیر میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ یہ اگر معاشرے میں بناؤ پیدا کرنا چاہے تو معاشرہ تمام نجاستوں سے پاک ہوسکتا ہے اور اگرعورت بگاڑ کو جنم دے دے تو دنیا کی کوئی طاقت اس بگاڑ اور انتشار کو درست نہیں کرسکتی۔
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی ماں جس نہج پر اس کی تربیت کرے گی اور جو جو اصول اسے سکھلائے گی، بچہ اپنی باقی زندگی انھی اصولوں کو اپناتے ہوئے اور اسی ماں کے دیے گئے جذبہ تجسس کے تحت گزارنے کی کوشش کرے گا۔ حدیثِ نبوی ﷺ ہے کہ ’’بچپن کا علم پتھر پر لکیر ہوتا ہے۔‘‘ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے اور اس درسگاہ سے جو جو باتیں اور جس جس لمحے بچہ سیکھے گا وہ اس کے دل و دماغ پر پتھر پر لکیر کی مانند نقش ہوں گی۔ گویا ماں کی عادات و اطوار، اس کی سیرت و کردار، رجحانات و میلانات اور اس کے احساسات و خیالات بچے کی زندگی کے لیے مشعلِ راہ ہوں گے اور اس کی تمام تعمیری و تخریبی سرگرمیاں بعینہٖ بچے میں منتقل ہوں گی اور پھر اس کی ذات سے بھی ان کا ظہور واقع ہوگا۔ نیک عورت زندگی کا اثاثہ ثابت ہوتی ہے۔ حضورﷺ اپنی زندگی میں کہا کرتے تھے کہ دنیا کی تین چیزیں مجھے بہت پسند ہیں ’’خوشبو، نماز اور نیک رفیقۂ حیات‘‘۔ گویا پیغمبر ﷺ کی پسند کی اہمیت مسلمہ ہے اور معاشرے کے بناؤ میں عورت کا کردار لازماً ہونا چاہیے۔ حضور ﷺ خواتین کی تکریم میں فخر محسوس کرتے تھے۔ جب آپ ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ آپ سے ملنے آتیں تو آپ ﷺ ان کی تعظیم میں کھڑے ہوجاتے اور ان کے لیے اپنی عبا(چادر) بچھا دیتے۔ حضورﷺ کی زبان سے وحی کی آواز بھی سب سے پہلے ایک عورت (خدیجۃ الکبریٰ) نے سنی اور رسالت مآب ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی بھی ایک عورت تھی اور سب سے پہلے پروانہ رسالت پر جان دینے والی بھی ایک عورت (سمیہ رضی اللہ عنہا) ہیں۔
اگر ہم اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو بے شمار خواتین کی زندگیاں ستاروں کی طرح روشن نظر آئیں گی۔ ان کے کارنامے، خدمات اور قربانیاں جہاں موجودہ دور کی مسلم خواتین کے لیے حیرت ناک ہیں وہیں انتہائی سبق آموز بھی ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے جائیے اور دیکھتے جائیے کس قدر عظیم خدمات ہیں، ان خواتین کی اسلام کے لیے، سماج کے لیے اور مسلم معاشرے کے لیے!
حضرت امِ صہیب رضی اللہ عنہا ایک غیرمسلم کے نکاح میں تھیں۔ اگرچہ فطرتاً مرد اپنی فضیلت و برتری کے باعث عورت پرسایہ فگن رہتا ہے، لیکن اسلام کی دولت لازوال کو دیکھو کہ امِ صہیب رضی اللہ عنہا اپنے خاوند کو مسلسل حلقۂ بگوش اسلام ہونے کی دعوت دیتی رہیں، حتیٰ کہ وہ تنگ آکر اپنا مسکن اور گھرانہ چھوڑنے پر مجبور ہوا اور ملک سے فرار ہوکر بے وطن ہوکر مرا۔ اب ابوطلحہ نامی ایک شخص نے امِ صہیب رضی اللہ عنہا سے رشتہ ازدواج جوڑنے کی درخواست کی۔ ابھی ابوطلحہ اسلام نہیں لائے تھے، تو امِ صہیب رضی اللہ عنہا نے غضب اور جلال میں آکر چند اشعار پڑھے جن کا مفہوم یہ تھا کہ ’’تجھے شرم نہیں آتی کہ تو زمین سے اگی ہوئی چیزوں کو معبود مانتا اور انھیں سجدہ کرتا ہے اور میں خالقِ کائنات، مالک لم یزل خدائے وحدہٗ لاشریک کی پرستش کرتی ہوں۔‘‘ ابوطلحہ بلاتامل پکار اٹھے کہ میں اسلام قبول کرتا ہوں۔ ام صہیب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اب میں تیرے حلقہ ازدواج میں آنے کے لیے تیار ہوں۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں کہ مہر کیا ہوگا؟ تو یہ پاک باز اور نیک سیرت عورت جواب میں کہتی ہے کہ ابوطلحہ! اگر تو میری طلب میں اسلام قبول کرتا ہے تو تجھے اسلام لانا مبارک ہو اور مجھے تو مبارک ہو، میرا مہر اسلام کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں۔ یوں اس عورت نے اپنے کردار سے ناری کو نوری بنادیا اور وہ زبان جو کچھ دیر پہلے کلمۂ کفر کا اقرار کررہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد کلمۂ طیبہ کا ورد کررہی تھی۔
قدیم عرب ممالک میں تاتاری مشہور و معروف جابر قوم تھی۔ یہ وہ تاتاری تھے کہ مسلمانوں کا قتلِ عام کرکے ان کی کھوپڑیوں سے منارے تعمیر کرتے تھے اور اپنی فتح کے جشن مناتے۔ یہ تاتاری مسلمانوں کا قتلِ عام کرتے اور ان کی بیواؤں کو اپنے گھروں میں لونڈیاں بناکر رکھتے۔ ان لونڈیوں نے تاتاریوں کے بچوں کی نگہداشت، تعلیم و تربیت، ان کے ساتھ شفقت و محبت سے اس طرح کام لیا کہ تاتاری ان کے معمولات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور حلقۂ بگوش اسلام ہونا شروع ہوئے۔ یہ عورت کا کمال ہے کہ اس کی سیرت و کردار نے تاتاریوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کردیا اور کل تک جو تاتاری اسلام کے بدترین دشمن ہوا کرتے تھے،خود مسلمان اور اسلام کے زبردست حامی بن گئے۔اسی حقیقت کو علامہ اقبالؒ نے اس طرح بیان کیا ہے:
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
ایک واقعہ ایک مسلمان گورنر سے منسوب ہے کہ کسی غیر مسلم گروہ سے لڑنا ہے۔ وہ مسلمان گورنر اپنے بیٹے کو لشکر کا سپہ سالار بناکر قتال کے لیے بھیجتا ہے۔ ہفتہ گزرگیا اور پھر مہینہ لیکن میدانِ جنگ کی سرگرمیوں کی بابت کوئی اطلاع کسی کان نے نہیں سنی۔ پھر کسی نے اَنہونی اڑائی کہ گورنر کا بیٹا اور قافلے کا سپہ سالار شکست خوردہ ہوکر اور ہتھیار ڈال کر میدانِ کارزار سے بھاگ نکلا ہے۔ غیرمسلموں کے سامنے surrenderکرگیا ہے۔ وہ گورنر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تو نے اپنے بیٹے کی کیسی پرورش کی تھی کہ وہ میدانِ جہاد میں مات کھاکر فرار ہوگیا۔ اس راسخ العقیدہ اور پارسا بیوی کی نگاہ دور بین تھی، مختصر تامل کے بعد کہتی ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ میرا لختِ جگر جنگ کرتا ہوا بھاگ جائے۔ وہ غازی بن کر واپس آسکتا ہے یا شہادت کے منصب کو پاسکتا ہے لیکن دشمن کے مقابلے میں پیٹھ نہیں دکھا سکتا۔پھر مصدقہ خبر آتی ہے کہ قافلے کے سالارِ اعظم نے لڑتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ گورنر سجدہ شکر بجالاکر بیوی سے اس کے یقینِ محکم کے متعلق استفسار کرتا ہے تو بیوی کہتی ہے کہ ’’مجھے جب بھی اپنے لخت جگر کو دودھ پلانا مقصود ہوتا تو میں پہلے وضو کرلیتی پھر نماز ادا کرتی اور اس کے بعد اپنے نورِ نظر کے لیے دعا مانگتی کہ اے اللہ تو اسے سعادت کی زندگی سے نواز اور پھر اس کی شہادت کی تمنا کرتی اور اس کو دودھ پلادیتی۔ میں نے کبھی بے وضو اس کے لیے کھانا تیار نہیں کیا۔ بھلا یہ کون سی بات ہوسکتی ہے کہ میں اپنے فرزند کے سیرت و کردار سے لاعلم ہوتی۔‘‘ گورنر نے بیوی کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ تو نے سچ کہا اور جس طرح اپنے بیٹے کی تربیت کی ویسے ہی اس نے بھی اس کی لاج رکھی۔
مختصر یہ کہ معاشرہ کے بناؤ اور بگاڑ کی اصل لگام عورت کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور یہ ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ عورتیں ہی آج کل معاشروں میں اختلافات کو جنم دیتی ہیں۔ مرد عورتوں کی باتوں پر آنکھ بند کرکے اعتماد کرتے ہیں۔ اگر یہ عورتیں نبی اکرم ﷺ کی ازواجِ مطہرات کی زندگیوں کا نمونہ بن جائیں تو معاشرے میں کوئی برائی ہی جنم نہ لے۔ عورتوں کے معاملے میں مرد نرم ضمیر رکھتے ہیں لہٰذا اگر عورتیں اپنی اخلاقیات کو درست رکھیں تو مجال ہے کہ کوئی مرد، عورتوں کی مرضی کے خلاف کوئی غلط فعل سرانجام دے سکے۔
اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست یہ تقاضا کرتی ہے کہ عورتوں کی صحیح خطوط پر تعلیم و تربیت ہو تاکہ آگے چل کر وہ بہتر مائیں ثابت ہوں اور پھر ہر ماں کے کندھوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت بھی بہتر طریقے سے کرے اور خاندان کے دیگر افراد کو اسلامی روایات اور اقدار سے آشنا کرے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری کو بجالائے گی تو نتیجتاً اس کا بیٹا نیک بخت، دیانت دار، مخلص، مدبر، مجاہد اور بڑے سے بڑا عالم و فاضل بن سکتا ہے اور اگر تربیت غلط ہوگی تو وہ چور،لٹیرا، ڈاکو اور کرپٹ ہونے کے علاوہ خائن، بددیانت اور طاغوت کا علمبردار بھی بن سکتا ہے۔ اب یہ ہمارے دیکھنے اور سوچنے کی چیز ہے کہ ہم اپنی اولاد کو کیا بنانا چاہتے ہیں او رکیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ہماری خواہش یہ ہو کہ ہماری نسلیں نیک اور صالح بنیں تو ایثار و قربانی اور تعلیم وتربیت کے ان ہی نقوش پر عمل کرنا ہوگا، جن پر ہمارے اسلاف نے عمل کیا۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر نیک اور صالح نسل کی توقع بیکار اور بگاڑ کے مقابلے بناؤ کی امید محض خیال ہی رہے گی۔
——