خدا کی اس وسیع و عریض دنیا میں عورت تعداد کے لحاظ سے نصف لیکن سماج پر اپنے اثرات کے اعتبار سے وہ کہیں زیادہ ہے۔ عورت اپنی انسانی حیثیت سے اگرچہ ایک فرد نظر آتی ہے لیکن درحقیقت وہ ایسا ادارہ ہے جہاں افراد تیار ہوتے ہیں اور ذہن و فکر کے سانچے تیار کیے جاتے ہیں۔ گھر کے معاملات میں بہ حیثیت بیوی وہ شوہر کے ذہن اور اس کی سوچ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بہ حیثیت ماں وہ اپنی اولاد کو جس سانچے میں ڈھالنا چاہے ڈھال کر پروان چڑھا سکتی ہے۔ عورت کی اسی حیثیت کو دنیا نے بھی تسلیم کیا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ’’ہر عظیم شخص کے پیچھے کسی عورت کا رول ہوا کرتا ہے۔‘‘
اس ناقابل انکار حقیقت کے باوجود عورت کے بدخواہوں نے یہاں تک کہ مذہب کے ’نمائندوں‘ نے بھی اس کی تذلیل و تحقیر کو مذہب کی تعلیم بناکر پیش کیا۔ چنانچہ اس طرح کی جہالت پر مبنی باتیں مذہب کے نمائندوں نے بھی لوگوں کو بتانی شروع کردیں کہ آدم کی اس غلطی کا سبب عورت ہی تھی جس کی وجہ سے انہیں جنت سے نکال دیا گیا۔ وہ شیطان کا پھندا، ابلیس کا جال اور گمرہی و غلط روی کا ذریعہ ہے۔ وہ عقل کے اعتبار سے ناقص اور دنیا میں جنگ و جدال کے اسباب میں سے ایک ہے۔ چنانچہ اسے مجبور، مظلوم اور دبا کر رکھنا ہی جائز اور درست ہے۔ اسے شخصی حیثیت سے حقوق کا مطالبہ کرنے اور مردوں کی طرح آزادی کی زندگی گزارنے کا حق نہیں۔ وہ ’دان‘ کیا جانے والا سامان ہے۔
اس ذلت و بدنامی سے نکلنے کے لیے گذشتہ صدیوں میں مساوات مرد و زن کی تحریکیں شروع ہوئیں جنھوں نے مردوں اور عورتوں کے درمیان کشمکش کی سی کیفیت پیدا کردی اور دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل بن گئے۔ عورت کے نام نہاد خیر خواہوں نے اس کے لیے اسی طرح کی آزادی کا مطالبہ کیا جس طرح مرد آزاد ہے اور پھر اسے ان تمام کاموں کے لیے تیار کردیا جو مردکرسکتا ہے۔عورت کے ان نام نہاد خیر خواہوں نے مذہب کو خاص طور پر نشانہ بنایا اور عورت کے تمام تر مسائل کا ذمہ دار بھی اسی کو قرار دیا۔
عورت کی بے عزتی کے ذمہ دار وہ ادیان باطلہ تو ہوسکتے ہیں جنھوں نے شریعتِ الٰہیہ کو اپنی خواہشات کا غلام بنالیا لیکن وہ دین توحید ہرگز نہیں ہوسکتا جو قیامت تک انسانوں کی رہنمائی کے لیے آیا ہے۔ یہ اہل اسلام کی بے عملی اوربدقسمتی ہے کہ عورت کے مقام و مرتبہ کو لے کر ہی اسلام کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس میں جہاں اسلام مخالف عناصر کا تعصب ہے وہیں مسلمانوں کی بے عملی، اسلام سے غفلت اور عورتوں کے اسلامی حقوق کی پامالی بھی ہیجبکہ آج صورت حال یہ ہے کہ ہم اہلِ اسلام مغرب پر عورت کی حالت زار کے حوالے سے تنقید و تبصرہ کرتے ہیں اور وہ اسلام پر مسلمانوں کی بدعملی کے سبب مسلم معاشرے میں عورت کی بے چارگی کو دیکھ کر تنقید کرتا ہے۔
اس صورتِ حال کا سبب مغربی تعصب کے ساتھمسلمانوں کی بے دینی اور حقوقِ خواتین کے سلسلہ میں غفلت پر مبنی رویہ بھی ہے۔ ہمارا یہی رویہ ان کے اسلام پر تنقید کا سبب ہے۔ یہ کوئی مدافعانہ رویہ اختیار کرنے کی بات نہیں بلکہ مسلم معاشرہ کو دینی و معاشرتی خود احتسابی کی طرف متوجہ کرنے کا ایک موقع ہے۔
اس وقت مسلم معاشرہ کے مرد وزن کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسلام میں دیے گئے عورت کے اعلیٰ مقام کی عملی تصویر اپنے معاشرہ سے پیش کریں اور دنیا کو ایسا عملی سماج فراہم کریں جہاں عورت کی عزت و آزادی کا دینی منظر نامہ پیش کیا جائے جو عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ میں تھا۔
آج کے مسلم معاشرہ کاخوش آئند پہلو یہ ہے کہ ہمارے یہاں بھی تعلیم عام ہورہی ہے۔ لڑکیاں اسکولوں اور کالجوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں لیکن اس کا تاریک پہلو یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوکر وہ بھی اُن ہی نظریات کی آندھی کا شکار ہوجاتی ہیں جو اسلام پر تنقید کرتا ہے۔ ایسے میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ان اعلیٰ تعلیم اداروں میں پڑھنے والی طالبات کے اندر اسلام کی صحیح معلومات پیدا کی جائیں اور انہیں اس بات کے لیے آمادہ کیا جائے کہ وہ ایک طرف تو مسلم معاشرہ سے اسلام کے عطا کردہ حقوق حاصل کریں تو دوسری طرف اپنی مدلل معلومات کے ذریعہ دنیا کے سامنے یہ ثابت کریں کہ اسلام عورت کو ایسا باعزت و بلند مقام عطا کرتا ہے جو نہ کسی دوسرے دین نے اسے دیا ہے اور نہ تاریخ کے کسی دور میں اسے حاصل رہا ہے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عورت ایک طرف تو معاشرہ کا باعزت فرد ہے دوسری طرف وہ ایک ذمہ دار ادارہ بھی ہے۔ بہ حیثیت فرد بھی اس کی عزت ہے اور بہ حیثیت ادارہ بھی اس کی اہمیت اور بلند مرتبہ سے انکار نہیں۔ حقیقت یہ کہ عورت کے نام نہاد خیر خواہ اس کی انفرادی حیثیت کو ایک بازاری جنس بناکر اس کے ادارہ کے بلند مرتبہ کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔
یہ بات مسلم خواتین کے سمجھنے کی ہے کہ اس ادارہ کی بلند حیثیت کو آخر مغرب کیوں ختم کردینا چاہتا ہے۔ یہ بات عام خواتین کے سامنے تمام تر توانائی کے ساتھ پیش کرنے کی بھی ہے کہ عورت کی ادارہ کی حیثیت اس کے مرتبہ کو کم نہیں کرتی بلکہ معاشرہ میں اس کے وقار اور عظمت کو چار چاند لگاتی ہے۔