بوران پے در پے شکست اٹھانے کے بعد ایک لاکھ سے زائد مسلح فوج لے کر حضرت خالد بن ولیدؓ کے مقابلے کو روانہ ہوا۔ ادھر حضرت خالد بن ولیدؓ بھی حضرت ابوعبیدہؓ کے مشورہ سے دشمن سے مقابلے کے لیے بڑھے۔ حضرت خالدؓ تمام فوج کو اپنے ہمراہ لیے بہت آگے نکل چکے تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ بھی عورتوں کے قافلے کو لیے بتدریج بڑھے چلے آرہے تھے کہ رومیوں کی فوج نے اچانک ان پر یلغار کردی۔ حضرت ابوعبیدہؓ کے ساتھ اسلامی مجاہدین تھوڑی تعداد میں تھے لیکن انھوں نے بڑی جوانمردی سے دشمنوں کا مقابلہ کیا۔ گھمسان کی لڑائی ہورہی تھی۔ رومی بری طرح مارے جارہے تھے کہ ہوشیار اور مکار رومی پطرس افسردو سو سواروں کے ساتھ مسلمان عورتوں کے کیمپ کی طرف بڑھا اور چند عورتوں کو گرفتار کرکے وہاں سے فرار ہوگیا۔ حضرت ابوعبیدہؓ جنگ میں اس قدر مصروف تھے کہ انہیں اس سنگین حادثے کی فوری طور پر خبر تک نہ ہوئی۔
واقدی نے لکھا ہے کہ پطرس جب مسلم خواتین کو گرفتار کرکے نہر استریاق کے کنارے پر خیمہ زن ہوا تو حکم دیا کہ قیدی عورتوں کو اس کے حضور میں پیش کیا جائے۔ چنانچہ عورتیں حاضر کی گئیں۔ رومی سپاہیوں نے زبردستی مسلمان عورتوں کے چہروں سے نقاب الٹ دیے۔ حضرت خولہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کو رومیوں کی اس حرکت سے بہت تکلیف ہوئی اور جب وہ خیمہ میں واپس لوٹیں تو ان کا بدن غصہ سے کانپ رہا تھا اور آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ انھوں نے گرجتی ہوئی آواز میںکہا:
’’اے ناموسِ عرب کے پاسبانو، مجاہدو، اور سرداروں کی غیور، بہو بیٹیو! کیا تم محمد عربی ﷺ کی ہم قوم اور ان کے دین کی داعی و پاسدار نہیں ہو؟ کیا تم اس بے عزّتی کو خاموشی سے برداشت کرلوگی؟ آؤ، اٹھو۔ ہم سب مل کر عرب کی عزت کو چار چاند لگادیں اور ان عیسائی درندوں کو بتادیں کہ غیور مسلمانوں کی خوددار بیٹیاں عزت سے زندہ رہتی ہیں اور عزت ہی سے مرتی ہیں اور جو ان کی طرف نظر ِ بد اٹھاتا ہے، وہ ان کی آنکھیں نکال لیتی ہیں اور اسے ذلت و نامرادی کی گہرائیوں میں ہمیشہ کے لیے سلادیتی ہیں۔‘‘
حضرت خولہؓ کے جوش بھرے خطبے سے تمام مسلمان عورتیں شعلۂ جوالہ بن گئیں مگر خصمیرہ بنت العفا العمریہؓ نے یہ اعتراض کیا کہ ہم لڑیں گی کیسے جب کہ ہمارے پاس تلوار ہی نہیں؟ خصمیرہ کا اعتراض سن کر خولہؓ غضب کی تصویر بن گئیں۔ ان کی رگیں پھول گئیں۔ چہرہ تپتے ہوئے سونے کی طرح پگھلنے لگا اور انھوں نے خصمیرہ کے بازو کو زور سے جھٹکا دیتے ہوئے کہا۔ بزدلو! کیا یہ چوبیں کچھ کم ہیں۔ انھیں ہاتھ میں لو اور ان بزدل رومیوں کو بتادو کو تم محمد ﷺ کی ماننے والی ہو۔ تمہارے سینے نور ایمان سے معمور ہیں اور تم ایسی عرب عورتیں ہو جو جیتے جی غیر کے ہاتھ اپنی طرف بڑھنے نہیں دیتی ہو۔
یہ سنتے ہی تمام مسلمان عورتوں نے چوبیں ہاتھ میں لے لیں اور اہل اسلام کی بہو بیٹیاں عزت و ناموس بچانے، اسلام کی لاج رکھنے اور تقدیر کو بدلنے کے لیے شیرنیوں کی طرح نکلیں۔ چنانچہ فتح و نصرت کے فرشتوں نے آگے بڑھ کر ان کے قدم چومے اور تاریخ نے ان مقدس مسلمان زاوویوں کے راستے میں اپنی آنکھیں بچھادیں۔
حضرت خولہؓ اس چھوٹے دستے کی قیادت کررہی تھیں اور لڑائی کی ترکیبیں سمجھا رہی تھیں۔ ایک رومی پہرہ دار آگے بڑھا تو حضرت خولہؓ نے اس کے سر پر چوب سے ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ زمین پر آرہا۔ بدمعاش پطرس دور سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ اس نے خواتین اسلام کے اس حملہ کو مذاق سمجھا اور چند سپاہیوں کو حکم دیا کہ انھیں ان کے پاس لے آئیں۔ سپاہی عورتوں کو بلانے کے لیے آگے بڑھے مگر ان کے قریب پہنچتے ہی حضرت خولہؓ، ان کی ساتھی اور ان کی سپاہ چوبیں لیے ان کے استقبال کو آگے بڑھیں۔
واقدی کا بیان ہے کہ حضرت خولہؓ نے سپاہیوں پر اس قدر سختی سے وار کیے کہ ان کی تلواریں کند ہوگئیں۔ پطرس دور کھڑا غصہ سے پیچ و تاب کھا رہا تھا اور سپاہیوں کو سختی سے حملہ کرنے کی ہدایت دے رہا تھا۔ رومی پطرس کے طعنے سن کر مسلم خواتین پر بری طرح ٹوٹ پڑے مگر انھوں نے اس قدر جرأت وجواں مردی سے مقابلہ کیا کہ پطرس بھی عش عش کر اٹھا۔ ان کے قریب آیا اور انھیں سمجھایا کہ وہ اس بے سود جنگ و جدال سے رک جائیں اور ان کی رفاقت قبول کرلیں۔ خولہؓ نے کہا کہ تم جیسا ذلیل و رذیل بدطینت رومی میری رفاقت کی آرزو رکھے اور پھر اسے چوب رسید کی کہ وہ وہاں سے بھاگ نکلا۔ بدبخت اپنی اس بے عزتی سے سخت نادم ہوا اور فوج کو حکم دیا کہ جس طرح بھی ہو خولہؓ کو گرفتار کرلیا جائے مگر خولہؓ اور ان کی پردہ نشین ساتھی عورتیں جن میں شرم و حیا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، آج عزت نفس کے لیے، قومی غیرت کو برقرار رکھنے کے لیے، کفر اور بدی کا مقابلہ کررہی تھیں کہ دفعتاً حضرت خالد بن ولیدؓ، اور ضرارؓ ہوا کے گھوڑوں پر سوار ان کی مدد کو آپہنچے۔ اب کیا تھا رومیوں کی شامت آگئی اور پورا دستہ ہلاک و برباد ہوگیا۔
چودہ سو سال کا طویل زمانہ گزرچکا ہے مگر آج بھی شام کی عورتیں اپنی بیٹیوں کو جب ڈولی پر بٹھاتی ہیں تو انھیں یہ واقعہ سناکر نصیحت کرتی ہیں کہ جب ان کی ناموس خطرہ میں ہو تو خولہ انصاریہؓ کی اقتداء کریں۔