یہاں مسلم عورت کے چند مسائل کا تذکرہ ہے جو معاشرتی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ مسائل حقیقت میں اس فکر سے جنم لیتے ہیں جو اسلام سے دور اورجاہلیت پر مبنی ہندو سماج کی سوچ ہے۔ مسلمان بھی چونکہ اسی سماج کا حصہ بن گئے ہیں اور ان کی الگ سے اسلامی شناخت نہیں رہی، اس لیے وہ بھی ہندو سماج کی روایات کو اپنی روایات سمجھتے ہیں جو غلط ہے۔ مسلمانوں کے لیے غلط اور صحیح کو دیکھنے اور پرکھنے کا معیار اسلام کی تعلیمات ہیں نہ کہ سماجی و معاشرتی روایات چنانچہ اگر آج کی مسلم عورت ان مسائل سے چھٹکارا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسلام کو زندگی کے لیے مشعل راہ بنائے اور سماجی روایات کے بت کی پوجا سے توبہ کرے۔
ہندوستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی والا ایک وسیع و عریض ملک ہے۔ جہاں متعدد علاقائی تہذیبیں ایک ساتھ نہ صرف موجود ہیں بلکہ پنپ رہی ہیں۔ ہر تہذیب میں عورت کے جداگانہ مسائل ہیں۔ طرح طرح کی تہذیبوں اور رسوم و رواج کے اختلاف کے باوجود ان سب کے درمیان کچھ چیزیں مشترک ہیں۔ان مشترک قدروں کو ہم ہندو تہذیب کی اقدار کہہ سکتے ہیں۔ ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ہندوستان کے مختلف خطوں میں ہندو تہذیب کی نمایاں چھاپ نظر آتی ہے۔ یہ چھاپ اتنی گہری ہے کہ اس ملک کی جس آبادی نے اسلام قبول کیا، وہ بحیثیت مجموعی اس تہذیبی ورثہ سے مکمل پیچھا چھڑا کر اسلام کی نجات دہندہ آغوش میں پوری طرح سما سکنے کو تیار نہ ہوسکی۔ نتیجتاً نہ صرف ہندو عورت بلکہ ہندوستانی مسلمان عورت بھی ان مسائل میں شریک ہے۔
زمانۂ جاہلیت کے عرب کی مانند ہندوستان میں بھی پیدائش کے بعد لڑکیوں کا قتل عام ہے۔ اور اب تو میڈیکل سائنس کی ترقی نے ایسے ذرائع فراہم کردیے ہیں کہ پیدائش سے قبل ہی حمل میں لڑکی کا پتہ لگا کر اس کا خاتمہ کردیا جاتا ہے۔ اسلام نے اپنے منشور میں عورت کو ایک باعزت مقام عطا کرتے وقت یہ وارننگ دی کہ حساب کے دن اس طرح قتل کی جانے والی مظلوم بچیوں کے متعلق سوال کیا جائے گا۔بای ذنب قتلت اور پھر اُن قاتل والدین کو انتہائی عبرتناک قیمت ادا کرنی پڑے پڑگی۔
ہندوستان میں بچی بڑی ہوتی ہے۔ تو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے تک لگاتار اس کے کان میں یہ آوازیں گھولی جاتی رہتی ہیں کہ عورت ذات مرد سے حقیر تر ہے۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ جس اسلام نے تمام عالم میں عورت کی آزادی و وقار کی آواز بلند کی تھی، اور جس نے ہر مسلمان مرد و عورت کی تعلیم کو لازم قرار دیا تھا۔ ہندوستان میں اسی دین کی ترجمانی کرنے والے علما کے ایک بڑے گروہ نے اسلام ہی کے نام پر لڑکی کی تعلیم کو ممنوع قرار دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اسے بس اتنی شناخت کرادی جائے کہ وہ قرآن کریم اور چند اردو کی کتابیں پڑھنے پر اکتفا کرلے۔ قرآن پاک نے اپنی پہلی وحی میں انسان کے لیے علم بالقلمo علم الانسان ما لم یعلمo کی تصریح کی تھی۔ ہندوستان میں دین کے محافظوں نے مسلمان عورت کو قلم کا استعمال سکھانے پر پابندی عائد کردی۔ اسے اگر عورت کا انسانیت سے اخراج نہ کہا جائے تو کم از کم انسانیت کے کم تر درجہ کا استحقاق تو ماننا ہی پڑے گا۔
ہندو روایات میں لڑکی کو ’استری دھن‘ کہا گیا ہے۔ وہ سودے بازی کے نشیب و فراز سے گزرتا ہوا جہیز کی شکل اختیار کرگیا۔ جس کے سامنے عورت کی تمام صفات حقیر ہوگئیں۔ اب تصور یہ ہے کہ لڑکی نہ صرف ایک گھر کو بسانے کی تمام ضروریات زندگی سے لیس ہوکر شوہر کے گھر پہنچے بلکہ ازدواجی زندگی کے آغاز سے قبل ہی شوہر کی سواری و دیگر بہت سی ضروریات کا انتظام بھی لڑکی کے والدین کی ذمہ داری ہے۔ جہیز کی لعنت کی گرفت ہندوستانی مسلم معاشرے پر اتنی مضبوط ہے کہ انتہائی دین دار گھرانے بھی الا ماشاء اللہ نہ صرف اس کی زد میں ہیں بلکہ جا بجا کسی نہ کسی طرح اس کی توجیہ کرتے نظر آتے ہیں۔ بعض اہلِ علم نے کہا کہ عورت کے ساتھ وراثت کے معاملے میں عموماً حق تلفی ہوتی ہے۔ اس لیے شادی کے وقت والدین سے اسے جو کچھ ملتا ہے، وہ اس حق تلفی کا نعم البدل ہوجاتا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ جہیز رحمت نہیں لعنت ہے۔ ہندوستان میں لڑکی کے استحصال کا ذریعہ ہے۔ نہ جانے کتنے غریب اور اوسط گھرانوں کی لڑکیوں کو جہیز کی کمی کے باعث اچھے رشتے نہیں ملتے اور اب تو جہیز کی چتاپر قربان کی جانے والی بہوؤں کی خبریں مسلمان گھروں سے بھی آنے لگی ہیں۔ لڑکے کی حسبِ حیثیت اور حسبِ خواہش سامانِ جہیز کی فراہمی میں والدین اور خود لڑکی نکاح سے پہلے اور بعض اوقات شادی کے بعد بھی کتنی مرتبہ مر مر کر جیتے ہیں۔ وراثت کے معاملے میں اگر اس کی حق تلفی ہوتی ہے تو اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔اس کا نعم البدل یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ایک اور حق تلفی کو جواز فراہم کیا جائے۔
شادی کے بعد لڑکی کو ہندوستانی سماج کی ایک اور نمایاں خرابی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ وہ ہے ’’جوائنٹ فیملی سسٹم‘‘ جوائنٹ فیملی سسٹم میں لڑکی کو بچپن سے یہ ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ شوہر کے گھر جاکر ساس سسر اور نندوں کی خدمت کرنا اس پر فرض ہے۔ ساس سسر بے شک بزرگ ہیں۔ اور بزرگوں کی خدمت اسلامی شعار ہے۔ لیکن یہ امر قابلِ لحاظ ہے کہ والدین کی خدمت کا بار اولاد پر ہے۔ کوئی آیت یا کوئی حدیث اسے بہو کا دینی فریضہ قرار نہیں دیتی۔ ہندوستان سے باہر اسلامی معاشرے کا عمومی شعار یہی رہا ہے کہ شادی کے بعد مشترکہ خاندان کے بجائے شوہر اور اس کی شریکِ حیات علیحدہ گھر میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم خالص ہندو تہذیب کا خاصہ ہے جس میں خوبیاں کم اور خرابیاں زیادہ ہیں۔