مسلم خواتین کے مسائل

عطیہ نیاز، اعظم گڑھ

اس بات سے ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ انسانی معاشرہ کی تشکیل میں مردو زن کا اشتراک کس درجہ اہم ہے اور خصوصاً اس تشکیل میں عورت ایک گرانقدر عنصر کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے بغیر کسی زمانہ میں سماج کا کوئی بھی ڈھانچہ مکمل تصور نہیں کیا گیا ہے۔ ہر زمانہ میں مردوزن کا یہ اشتراک انسانی معاشرہ کے لیے ضروری سمجھا جاتا رہا ہے۔ عورت معاشرہ کا صرف ایک حصہ ہی نہیں بلکہ وہ ایک ایسی ہستی ہے جس پر معاشرے کے بننے اور بگڑنے کا دارومدار ہے۔

لیکن اسی کے ساتھ آپ یہ بھی محسوس کریں گی کہ ارتقاء کی اس پوری تاریخ میں عورت کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کی وہ مستحق تھی۔ اسے ہوس رانیوں کا شکار بنایا جاتا رہا اس کی حیثیت ایک زر خرید باندی کے مانند رہی اور اس کو لوگ جوئے کے داؤ پر لگادیتے تھے یہ محسنِ انسانیت کا فیضان ہے کہ آپ نے عورت کو قعرِ مذلت سے نکالا اور دنیا والوں کو بتایا کہ عورت بھی اللہ کی ویسی ہی مخلوق ہے جیسے مرد … اور انسانیت کے عروج و ارتقاء میں اس کا وہی حصہ ہے جو مرد کا ہے۔

اسلام سے قبل جاہلیت کا زمانہ تھا جہاں عورتیں بے پردہ تھیں اور انہیں زینتِ محفل سمجھا جاتا تھا۔ اس کو کسی معاملہ میں لب ہلانے کا اختیار نہیں تھا وہ مجبورِ محض تھی اور سماج کا عضو معطل۔ ایسے نازک، سنگین اور انسانیت سوز حالات میں اسلام نے مظلوم عورت کی داد رسی کی، اسے سماج کا ایک فعال حصہ بنایا، اسے شناخت عطا کی اور اس کی ذات و شخصیت کا ارتقاء بھی اسی طرح لازم قرار دیا جس طرح مرد کا ہے۔

یہ ایک فکری اور عملی انقلاب تھا جس کے تحت مسلم خواتین کو ازدواجی حقوق ملنے کے ساتھ ساتھ انہیں سماج میں عزت و احترام کا اعلیٰ مقام حاصل ہوا۔ علم و ہنر سے آراستہ ہوئیں، پاکدامن ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگیوں میں خدا اور رسول کی اطاعت کا جذبہ داخل ہوا اور وہ اپنے شوہروں کی وفاداری کے جذبے سے سرشار ہوئیں اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جہاں نہ معصیت کا گذر تھا اور نہ بدعملی کا دور دور تک نشان۔ یہ ہمہ جہت فکری اور عملی ارتقا ء تھا اور مردو زون دونوں ارتقاء کے ان مراحل میں ایک دوسرے کے رفیق تھے۔ اس عملی ارتقاء کی ایک طویل تاریخ ہے جس کے کسی موڑ پر مسلم خواتین کے مسائل سے سرے سے نظر ہی نہیں آتے بلکہ زندگی کے اہم شعبہ جات میں مسلم خواتین کا کردار تاریخ ساز رہا ہے۔ خواہ حضرت عائشہؓ کا کردار ہو یا رابعہ بصریؒ کا۔ یہ وہ تاریخی کردار ہیں جو آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں یہ وہ شخصیتیں ہیں جنھوں نے علم و فن کو پروان چڑھایا، باطل نظریات کا منہ توڑ جواب دیا اور دنیا والوں کو اسلام کی لازوال دولت سے روشناس کرایا۔ لیکن جیسے جیسے مسلمانوں کے اندر دینی جذبہ سرد پڑتا گیا ویسے ویسے ان کے اندر اضمحلال آتا گیا اور اس کے تاثرات مردوں کے مقابلے میں خواتین پر زیادہ پڑے اور مسلم خواتین کے مسائل نے جنم لینا شروع کیا جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید بڑھتے چلے گئے۔

اس تاریخی پس منظر میں جب ہم مسلم خواتین کے مسائل کا جائزہ لیتے ہیں توجو مسائل ابھر کر سامنے آتے ہیں انہیں درج ذیل خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

(الف) مسلم معاشرہ میں تعلیمِ نسواں کا مسئلہ۔

(ب) مسلم معاشرہ میں پردہ سے بیزاری کا رجحان۔

(ج) مسلم خواتین میں صالح قیادت پیدا کرنے کے لیے اسلامی تحریکوں اور تنظیموں سے وابستگی کا مسئلہ۔

(د) مسلم خواتین کی فنی و تکنیکی تعلیم و تربیت کے لیے معقول انتظام نہ ہونے کا مسئلہ۔

ان مسائل میں سب سے اہم مسئلہ مسلم معاشرہ میں تعلیم نسواں کا ہے۔ انسانی زندگی کے لیے تعلیم سب سے اہم تھی اور آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اس سمت خصوصی توجہ دلائی گئی ہے اور بلا امتیاز جنس مردوزن دونوں کو تعلیم کی تحصیل پر آمادہ کیا گیا ہے۔

انسان کی روحانی اور مادی زندگی میں توازن صرف تحصیل علم ہی سے حاصل ہوسکتا ہے اور اس میں تعلیم نسواں کا مسئلہ خاص ہے۔ اس کی زیادہ اہمیت اس لیے بھی ہے کہ قوم و ملت کا مستقبل اسی کے آغوش میں تربیت پاتا ہے۔ اور تہذیب و تمدن اور اخلاقیات کا پہلا سبق اسی کے سایہ شفقت میں حاصل ہوتا ہے مرکزی اور صوبائی حکومتیں بلا امتیاز مذہب و ملت تعلیم نسواں کے لیے مختلف ذرائع سے ہندوستان کی خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے کوششیں کررہی ہیں۔ تاہم مسلم خواتین کی اکثریت ابھی بھی تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے اور لڑکوں کے مقابلے میں مسلم لڑکیاں تعلیم کے معاملے میں کافی پیچھے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت کے دانشوران اپنے پرائیویٹ فنی اور تکنیکی تعلیمی ادارے کھولیں اور حکومت سے ان کا الحاق کراکر مسلم خواتین کی تعلیمی پسماندگی کو دور کریں۔ اگر ہمارے دانشور اپنے اس مشن میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر مساویانہ حقوق اور سماجی و معاشرتی ارتقاء اور دعوت و تحریک میں اپنا کردار ادا کرنے سے مسلم خواتین کو کوئی نہیں روک سکتا ہے۔

مسلم خواتین کا دوسرا مسئلہ ان کی پردہ سے بیزاری ہے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ سماج کی مسلم خواتین بے پردہ نظر آتی ہیں۔ اگر عورتوں کو تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے تو اسے پردہ میں رہنا بھی ضروری ہے۔ عورت بذاتِ خود پردہ ہے۔ عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرکے بے پردگی اور بے راہ روی اختیار کرلیں۔ تعلیم جہاں خواتین کو اچھا شہری بناتی ہے وہیں اچھے اخلاق کا حامل بھی۔ اپنے شوہروں کا وفادار اور وفا کیش اور گھرو خاندان کا بہترین منتظم بھی بناتی ہے۔ اور انجام کار یہی خواتین ملک و قوم کے لیے نمونہ عمل بن کر ابھرتی ہیں اس کی مثالیں تاریخ میں بکثرت موجود ہیں۔

مسلم معاشرہ میں پردہ کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے اس کی تاکید نبیؐ کے حوالے سے ازواج مطہرات کو کی گئی ہے اور پھر ان کے توسط سے امت کی تمام خواتین کو پردہ کے ساتھ اپنے تمام امور انجام دینے کی قرآن نے ہدایت دی ہے۔ یہ ایک صریحی حکم ہے جس کی خلاف ورزی مسلم خواتین کو کسی حال میں نہیں کرنی ہے۔ اور یہ پردہ مسلم خواتین کے لیے روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ کوئی بھی قوم اپنے کلچر اور تہذیب سے باغی ہوتی ہے تو پھر دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس قوم کو قعر مذلت میں گرنے سے نہیں بچا سکتی۔ اس صورت حال میں تو ہر مسلم گارجین کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے۔ انہیں اپنی تہذیب کی حفاظت کا بیڑا اٹھانا ہوگا اور اجتماعی طور پر فیصلہ لینا ہوگا کہ ہمارا مرنا جینا، ہمارا روزہ، ہماری نماز شریعت کے احکام کے مطابق ہوگی اور ہم اسلامی کلچر کو بحال رکھنے کے پابند ہوں گے ورنہ اسلامی حدود سے ہماری معمولی غفلت بڑے بھیانک نتائج سے دوچار کرسکتی ہے۔ اس لیے قرآن کے نصِ صریح الرجال قوامون علی النساء کے مطابق مرد اپنی عورت کو شریعت کے اصول و ضوابط کا پابند بنانے کا مکلف ہے اور یہی احساس ذمہ داری مسلم خواتین کو پردہ کا پابند بناسکتا ہے اور یہی طرزِ عمل اس مسئلہ کا حل ہے۔

مسلم خواتین کا تیسرا اہم مسئلہ ان کی اجتماعی زندگی میں وحدت کا فقدان ہے جب تک یہ صورتحال بنی رہے گی اس وقت تک مسلم خواتین اپنی صلاحیتوں کو نکھار نہیں سکتیں۔ آج کی دنیا میں مسلم خواتین اجتماعی اور تنظیمی زندگی سے کوسوں دور ہیں اور ان کے بالمقابل غیر مسلم خواتین اپنی کسی نہ کسی ذیلی تنظیم سے ضرور وابستہ ہیں۔ جہاں انہیں اپنے مذہب کے لیے مخلص اور پابند وفا بنایا جاتا ہے اور ان کے حوصلوں کو بڑھا کر اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے انہیں ذیلی یا مرکزی تنظیم استعمال کرتی ہے۔ اور آج کی اس ترقی یافتہ دنیا میں یہ تنظیمی عمل بڑے پیمانے پر باطل تنظیمیں اپنے کاز کے لیے کررہی ہیں اور ان کے آلہ کار مردوزن دونوں ہیں۔ لیکن مسلم خواتین ایسی تنظیمی وحدت سے یکسر محروم ہیں اور ذیلی یا مرکزی کسی بھی تحریک سے وابستہ نہیں ہیں جب کہ اسلام کی بنیادہی وحدت اور اجتماعیت پر رکھی گئی ہے۔ اسلام کی کامل پیروی میں زندگی گزارنا، اس کی دعوت اور اشاعت کا فریضہ انجام دینا اور زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کو قائم اور نافذ کرنے کی کوشش کرنا مسلم مردوزن دونوں کی ذمہ داری ہے اور ان تمام امور کی سر انجام دہی کسی تنظیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جب عالمی سروے ریکارڈ دیکھا جاتا ہے تو مسلم تنظیموں کی ایک لمبی فہرست سامنے آتی ہے مگر ان تنظیموں سے مسلم خواتین کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ انہیں ان تنظیموں کے مقاصد سے واقف کرایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی قوم کے مستقبل کا دارومدار بڑی حد تک اس قوم کے نوجوانوں پر ہے خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔ قوم کے باشعور اور سنجیدہ افراد کا فرض ہے کہ وہ نوجوانوں پر خصوصی توجہ دیں اور انہیں بیدار کریں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو منظم کرسکیں، اپنی سیرت و کردار کی تعمیر کریں، اپنی کاوشوں اور کوششوں کو صحیح رخ دیں، برائیوں کو مٹا دیں، بھلائیوں کو فروغ دینے کے لیے اپنے جدوجہد کو منظم کریں، جاہلیت کے اس ماحول میں اللہ کے دین کو جو اجنبی ہوتا جارہا ہے، متعارف کرائیں اور اس کو قائم کرانے کے لیے یکسوئی کے ساتھ مسلسل جدوجہد کریں۔ اللہ نے قرآن میں امت مسلمہ کو ان کا مشن یاد دلاتے ہوئے یوں خطاب فرمایا ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ۔ (آل عمران)

اس خطاب میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔

ایک یہ کہ یہ خطاب امت مسلمہ کے ہر فرد کے لیے عام ہے اس میں نہ کوئی تخصیص ہے اور نہ کسی جنس کی قید بلکہ ہر وہ مردوزن اس کا مخاطب ہے جو ایمان لایا ہو۔ دوسرے یہ کہ سماج کی صالح تعمیر اور اسلام کی دعوت و اقامت کی ذمہ داری جس طرح مردوں پر ہے ٹھیک اسی طرح عورتوں پر بھی ہے۔ اس فریضہ کو انجام دینے کے لیے جس طرح مسلم نوجوان مخاطب ہیں ٹھیک اسی طرح نوجوان لڑکیاں بھی مخاطب ہیں۔

مسلم خواتین میں اس تنظیمی خلاء کو پُر کرنا یہاں مسلم تنظیموں اور اسلامی تحریک کا فریضہ ہے ۔ عالمی سروے ریکارڈ کے تناظر میں جب تک مسلم خواتین کو تنظیم کی وحدت میں نہیں پرویا جائے گا اس وقت تک مسلم خواتین میں صالح قیادت پیدا کرنے کا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوگا اور یہی تنظیمی وابستگی مسلم خواتین میں باطل نظریات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت پیدا کرسکتی ہے اور یہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔

درج بالا مسائل کے علاوہ خواتین کا ایک اور بھی مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلم خواتین کے لیے خصوصی طور پر ایک فنی اور تکنیکی ادارہ ضرور ہونا چاہیے جہاں انہیں سماج کی خدمت کرنے کے لائق بنایا جاسکے۔ مگر اس حیثیت سے جب دیکھتے ہیں تو میدان صاف نظر آتا ہے۔

یہ پیش کردہ تجزیہ مسلم دانشوروں کو ایک دعوتِ فکر دیتا ہے کہ وہ اپنی مسلم خواتین کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ مسلم خواتین کے مساویانہ حقوق کی بازیابی سماجی، معاشرتی ارتقاء اور اسلام کے لیے فعال رول کے لیے ایسے اداروں کی اشد ضرورت ہے جہاں خواتین اپنی دبی صلاحیتوں کو نکھار سکھیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہوسکا تو ہم سماج کے نصف کو اوپر نہیں اٹھا سکیں گے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں