رمضان المبارک کی آمدکے ساتھ ہی عالمِ اسلام میں ایک مقدس لہر دوڑ جاتی ہے۔ سحروافطار کاخصوصی اہتمام کیا جاتاہے۔ برکتوں اور رحمتوں کایہ پاکیزہ مہینہ اپنے ساتھ خوشی اور مسرت کی بہارلے کرآتاہے۔ اس ماہِ مقدس کو مختلف اسلامی ممالک میں کس انداز سے خوش آمدید کہا اور اس کی برکتوں سے کس طرح فیض یاب ہواجاتاہے اس کی ایک جھلک نذرِ قارئین ہے:
رمضان کے ڈھولیے۔ عرب دنیامیں رمضان کے مقدس مہینے کے حوالے سے بعض ثقافتی روایات اب بھی جاری ہیں۔ان قدیم روایات میں ایک ڈھول بجاکر لوگوں کو سحری کے وقت جگانے کی روایت بھی ہے۔یہ روایت تقریباً 400 سال پرانی ہے اور یہ سلطنت عثمانیہ کے دور سے شروع ہوئی۔
سحری کے لیے جگانے والوں کو رمضان کے ڈھولیے کہا جاتا ہے۔یوں سحری کے لیے جگانے کی روایت اب بھی قائم ہے۔
سحری کے وقت ڈھول بجا کر لوگوں کوجگانے کی روایت 400 سال پہلے ترکی سے شروع ہوئی۔ اس وقت ترکی سلطنت کا دارالحکومت استنبول تھا۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں لوگوں کے پاس گھڑیاں نہیں ہوتی تھیں جن سے ان کو سحری کے وقت کا اندازہ لگانے میں مشکل کا سامنا ہوتا تھا۔
اس مسئلہ کا یہ حل نکالا گیا کہ سحری کے وقت ڈھول بجا کر لوگوں کو سحری کے لیے بیدار کیا جائے۔ ڈھول بجانے کے ساتھ ساتھ روایتی ثقافتی شاعری اور مذہبی گیت بھی گائے جاتے ہیں۔ روایتی ثقافتی اشعار کے ساتھ ساتھ لوگوں کو نماز اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف رجوع کی تحریک دلانے والے ایسے اشعار بھی پڑھے جاتے ہیں جن میں لوگوں کو آخرت کی یاد دلائی جاتی ہے۔ان میں سے کچھ اشعار یوں ہیں۔
تم کیوں سو رہے ہو؟
تم ا س نیند سے کیا کما سکتے ہو؟
نماز پڑھو اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو
تمہیں جلد آسمانوں پر مدعو کیا جائے گا
استنبول کی میونسپل کمیٹی ہر سال رمضان المبارک میں سب سے بہتر ڈھول بجانے کا مقابلہ کرواتی ہے۔ اس مقابلے میں رمضان المبارک میں سحری کے وقت ڈھول بجاکر لوگوں کو جگانے والے شریک ہوتے اور اپنی بہترین صلاحیتوںکا مظاہرہ کرتے ہیں۔ استنبول کے میئر بھی مقابلہ جیتنے کا اعلان کرنے والی جیوری کا حصہ ہوتے ہیں۔
استنبول میں سحری کے وقت ڈھول بجانے والوں کے درمیان شاعری کا زبردست مقابلہ بھی ہوتا ہے۔ تمام ڈھول بجانے والے اپنے علاقے کے کسی کافی ہائوس میں جمع ہوتے اور سال کے بہترین گلوکار کے گائے ہوئے گانے گاکر باہم مقابلہ کرتے ہیں۔ ایک ڈھول والا کوئی گانا گاتا ہے تو اس کا حریف اس کے جواب میں دوسرا گانا گاتا ہے۔
جب کوئی فریق جوابی گانا نہ گا سکے تو وہ ہار جاتا ہے۔رمضان المبارک کے اختتامی دنوں میں ڈھول والے گلیوں میں جاتے اور لوگوں سے ان کو سحری کے لیے جگانے کا رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور لوگ بخوشی ان کو اپنی استطاعت کے مطابق رقم دیتے ہیں۔
ترکی کے جنوبی شہر میں ان ہی ڈرم بجانے والوں میں ایک 44 سالہ خاتون ہانم پولات بھی شامل ہے۔ شاید اسلامی دنیا میںیہ واحد خاتون ہے جو لوگوں کو سحری کے وقت ڈھول بجا کر جگاتی ہے۔ہانم پولات اسپراتا شہر کے جنوبی حصے میں لوگوں کو سحری کے لیے ڈھول بجا کر جگاتی ہے۔
پولات کا کہنا ہے کہ اس کا خاوند روس میں کام کرتا ہے اور اسے اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ میرے آٹھ بچے ہیں اور میں اپنے بڑے بچے کے ساتھ ڈھول بجاتے ہوئے گلیوں میں گھوم کر لوگوں کو سحری کے لیے جگاتی ہوں۔
فلسطین کے شہر غزہ میں بھی رمضان المبارک میں لوگوں کو سحری کے وقت جگانے کے لیے ڈھول بجایا جاتا ہے۔ انہی ڈھول بجانے والوں میں وائل ابو شاوس بھی شامل ہے۔وائل کو یہ کام خاندانی وراثت کے طور پر ملا ہے۔ اس کے والد یہ کام کرتے تھے۔ آدھی رات گزرنے کے دو گھنٹے بعد وائل اپنا ڈھول اٹھاتا اور غزہ کی گلیوں میں نکل پڑتا ہے۔
وہ ڈھول بجاتا ہے تاکہ لوگ سحری کے لیے بیدار ہو جائیں۔ وائل کا کہنا ہے کہ جب وہ سحری کے وقت ڈھول بجاتے ہوئے گلیوںمیں گھوم رہا ہوتا ہے تو اس وقت لوگوں کا اس سے رویہ بہت دوستانہ ہوتا ہے اور چھوٹے بچے کھڑکیوں سے ہاتھ ہلا ہلاکر اس کا استقبال کرتے ہیں۔
2009ء میں امریکا کے شہرنیویارک میں 54 سالہ پاکستانی محمد بوٹابھی ڈھول بجا کر مسلمانوں کو سحری کے لیے جگاتا تھا۔محمد بوٹا لیموزین ڈرائیور تھا۔ سحری کے وقت محمد بوٹا مسلمانوں کے اکثریتی علاقے میں آتا، اپنی کار سے ڈھول نکالتا اورگلیوں میں گھومتے ہوئے اسے زور زور سے بجاتا۔
وہ سمجھتا تھا کہ اس طریقے سے وہ نہ صرف اپنی قدیم روایت کو زندہ کر رہا ہے بلکہ مسلمانوں کو سحری کے لیے جگا کر ثواب بھی کماتا ہے۔ محمد بوٹا کے ڈھول بجانے سے گوروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس سے ان کی نیند میں خلل پڑتا تھا۔ تاہم آج کے جدید دور میں بھی دنیا کے کئی اسلامی ممالک میں توپ کا گولہ داغ کر افطار اور سحر کے اوقات کا اعلان کرنے کی قدیم روایت برقرار ہے۔
رمضان میں توپ کا آغاز مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے ہوا۔ قاہرہ پہلا شہر ہے جہاں شہریوں کو افطار کا وقت بتانے کے لیے پہلی بار توپ کا گولہ داغا گیا۔
یہ 865 ہجری کا واقعہ ہے جب مملوک سلطان خوش قدم اپنی نئی توپ کا گولہ چلا کر اس کو چیک کرنا چاہتا تھا۔ ماہِ رمضان میں اتفاقی طور پر جب اس توپ کو شام کے وقت چلایا گیا تو اس کے گولے کی آواز پورے شہر میں سنی گئی اور لوگوں نے سمجھا کہ شاید افطاری کا وقت ہو گیا ہے۔
اگلے دن جب توپ کے گولے کی آواز سنائی نہ دی تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہو کر عثمانی محل میں آئی اور اْنھوں نے خلیفہ کی بیوی حجہ فاطمہ سے مطالبہ کیا کہ توپ کا گولہ داغ کرافطار کا وقت بتایا جائے۔ اس سے ان کو افطار کے وقت کا پتا چلنے میں سہولت ہوتی ہے۔
فاطمہ نے اپنے خاوندخلیفہ خوش قدم سے اس بارے میں سفارش کی جو اس نے بخوشی قبول کرلی اور اعلان کیا کہ سحر ی اور افطار کے وقت توپ سے گولہ داغا جائے تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ سحری یا افطار کا وقت ہو گیا ہے۔
سعودی عرب مکہ مکرمہ میں بھی رمضان المبارک کا چاند نکلنے پر توپ کا گولہ داغا جاتا ہے۔ یہ توپ مکہ مکرمہ کے قریب سب سے اونچی پہاڑی پر نصب کی جاتی ہے اور سحر اور افطار کے وقت اس توپ سے گولہ داغا جاتا ہے۔اس توپ کی حفاظت خصوصی سکیورٹی آفیسر کرتے ہیں۔ عید الفطر کا چاند نظر آنے پر اس توپ سے آخری گولہ داغا جاتا اور پھر اسے واپس اسٹور میں بھیج دیا جاتا ہے۔ پورے رمضان میں اس توپ سے 150 گولے داغے جاتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کی ریاستوں شارجہ، دبئی، کویت اور راس الخیمہ میں توپ کا گولہ داغ کر سحری اور افطار کے اوقات سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی قدیم روایت ابھی تک قائم ہے۔ متحدہ عرب امارات میں توپ کا گولہ داغ کر سحری اور افطار کے اوقات بتانے کی ابتدا سلطان بن سقر کے دور میں شارجہ سے شروع ہوئی۔دبئی میں رمضان توپ خلیفہ شیخ سعید المکتوم کے دور حکومت میں متعارف کرائی گئی۔lll