مسلم سماج میں معلم کا کردار

سمیہ نوشین، پوسد

علامہ اقبال نے کہا تھا:

سبق پھر پڑھ صداقت کا، شجاعت کا، عدالت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

انسان کو یہ سبق کون پڑھائے اور کس طرح پڑھائے؟ کبھی آپ نے غور کیا۔ اگر ایک عام آدمی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کرے تو وہ کیسے یہ خدمت انجام دے سکتاہے؟ کیا یہ آسان کام ہے؟ اور آپ اسے انجام دے سکتے ہیں؟مگر سماج کا معلم جسے ہم ٹیچر کہتے ہیں اس منصب اور مقام پر ہے کہ اگر وہ واقعی اس سبق کی اہمیت و ضرورت کو جان لے تو اپنی زندگی میں سیکڑوں ہزاروں انسانوں کو یہ اعلیٰ سبق پڑھا سکتا ہے۔ ایک ماہرِ تعلیم فریڈرک فروبل نے اپنے دور معلمی کے پہلے دن کہا تھا جبکہ اس کی عمر اس وقت صرف ۲۳ سال تھی:

’’آج مجھے وہ گم شدہ دولت مل گئی ہے۔ جس کی تلاش میں میںابھی تک ادھر ادھر مارا مارا پھر رہا تھا۔ مجھے بچوں کو پڑھا کر وہی خوشی محسوس ہوئی ہے جو مچھلی کو پانی میں اور چڑیا کو ہوا میں ہوتی ہوگی۔‘‘

فروبل کے اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معلمین طلبہ کو پڑھانے کے بعد اپنے آپ کو کتنا ذمہ دار محسوس کرتے ہیں۔ معلم سماج میں ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ اور اسے انتہائی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اسے معمارِ قوم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ معلم سماج میں تعمیری اور تشکیلی کردار ادا کرتا ہے۔

جس طرح کمہار بے کار اور چکنی مٹی کو لے کر خوبصورت اور کارآمد چیزیں بناتا ہے۔ وہ اپنی محنت اور اپنے فن سے بے جان مٹی کو جس شکل میں چاہتا ہے، ڈھال دیتا ہے، اسی طرح ہمارے معلم کا معاملہ ہے۔ وہ اخلاق، افکار اور کرداروں کو بناتا ہے کیونکہ اس کے سامنے جو چیز ہے وہ انسان اور صاحبِ عقل و شعور لوگ ہوتے ہیں۔

اب دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کیا ایک معلم کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ بچوں کولکھنا پڑھنا، جوڑنا گھٹانا اور ضرب و تقسیم کے فارمولے بتائے یا اس سے آگے بھی اس کی ذمہ داریاں ہیں۔ جی ہاں! اگر معلم صرف اسی کو اپنی ذمہ داری تصور کرے تو معاشرے کو ایک تعلیم یافتہ اور حرف شناس نسل تو مل سکتی ہے لیکن مہذب، باکردار اور اعلیٰ اقدار کو اختیار کرنے والی نسل میسر نہیں آسکتی۔ہربارٹ نے کہا تھا:

’’اگر علم برائے علم کے نظریہ کو لے کر تعلیم دی جائے گی تو ابتدائی تعلیم میں ان کا زور لکھنے، پڑھنے اور سننے کی مہارتیں پیدا کرنے پر ہی ہوگا۔ اگر اس طرح کا نظام ہوا تو ایک تعلیم یافتہ قوم تو تیار ہوگی لیکن مہذب قوم تیار نہیں ہوسکتی۔‘‘

چنانچہ علم برائے علم کے تصور کو نہ تو عوام نے تسلیم کیا ہے اور نہ خود معاشرے کے معلم طبقہ نے کیونکہ آج ذہن و فکر، سماجی ترقی اور تمدنی ارتقاء کے دروازے صرف علم کی کنجی سے نہیں کھولے گئے ہیں بلکہ جذبہ، لگن، اور جذبۂ خدمت خلق نے لوگوں کو ان تھک جدوجہد اور مصائب وآلام برداشت کرنے کے لیے تیار کیا ہے اور ان تمام کا سہرا ان معلمین کے سر جانا چاہیے جنھوں نے وہ افراد تیار کیے جنھوں نے دنیا کو ترقی کی ان منزلوں تک پہنچایا۔

معلم روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ نئی نسل کو سماج کے اہم فرائض ادا کرنے کے لائق بناتا ہے۔ اور تعلیم کا کام درحقیقت ایک پیغمبرانہ مشن ہے۔ مردم سازی، سیرت وکردار کی تعمیر، اچھے اخلاق کا فروغ، بلند کرداری، سماج کو برائیوں سے پاک کرنے کا جذبہ پیدا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لیے بہ ذات خود بلند کرداری، گہری نظر، تعمیر سوچ اور جذبہ غوروفکر کے ساتھ ساتھ سخت محنت و جانفشانی بلکہ دلسوزی و ایثار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور کوئی معلم اس وقت تک کامیاب معلم اور اپنی ذمہ داریوں کو انجام دینے والا نہیں ہوسکتا جب تک وہ ان خوبیوں کو اپنے اندر پیدا نہ کرے۔

کیا اخلاق و کردار کی دورنگی کا شکار معلم اعلیٰ کردار طلبہ تیار کرسکتا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں سے غافل معلم کیا ذمہ دار نسل بنانے میں معاون ہوسکتا ہے۔ اور کیا اخلاق و کردار کے دیوالیہ پن کا شکار ٹیچر اعلیٰ قدروں کے محافظ، سماج کو دے سکتا ہے۔ اللہ کے رسول نے فرمایا تھا:انما بعثت معلما۔(میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔)اور اس طرح اللہ کے رسول کا کردار وہی ہے جو ایک معلم کا ہوتا ہے اور ایک معلم کا کردار وہی ہونا چاہیے جو رسول اور پیغمبر کا کردار تھا اور اللہ کے رسول کا کردار کیا تھا یہ ہم سب کے سامنے ہے۔ صادق و امین، وعدے کے پکے کہ تین روز تک ایک مقام پر کھڑے رہے، خدمت گار کہ بڑھیا کا سامان لے کر میلوں تک چلے گئے، غم گسار کہ اس دشمن بڑھیا کی عیادت کو پہنچے جو آپ پر نفرت سے روزانہ کوڑا ڈالتی تھی۔ جی ہاں سماج کا معلم پیغمبرانہ مشن پر ہے اور اس کی ذمہ داری اور حیثیت بھی اسی طرح کے معلم کی ہے جس طرح کہ نبی کی بہ حیثیت معلم تھی۔ مگر کیا آج کے معلمین اپنے اس پیغمبرانہ مشن اور نبوی ذمہ داری سے آگاہ ہیں اور کیا وہ ان کی انجام دہی کے لیے سنجیدگی سے کوشاں ہیں؟ یہ سوال ہمارے سماج کے ہر معلم کے لیے اور خاص طور پر ان معلمین کے لیے ہے جو نبیؐ کو اپنا رہنما اور قرآن کو کتاب حیات تصور کرتے ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146