مسلم سماج پر ہندی تہذیب کے اثرات

تسنیم نزہت اعظمی

خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے۔ یہ محاورہ ہند میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت پر درست ثابت ہوتا ہے۔ چاہے ان کا عقیدہ ہو یا رہن سہن، تہوار ہو یا رسم و رواج، سالگرہ ہو یا برسی، لباس ہو یا پردہ، وضع قطع ہو یا سلام و پیام، شگون ہو یا شباہت۔ ہندوستانی مسلمانوں نے ہر فکر، ہر کلچر اور اہل وطن کا ہر انداز اپنے اندر جذب کرلیا۔ جس سے ہماری مذہبی شناخت سخت مجروح ہوکر رہ گئی ہے۔ امتِ محمدیہؐ نے ایسی وضع قطع اپنا لی ہے کہ ہندو، مسلم، عیسائی تشخص کے بجائے صرف ہندوستانی نظر آتے ہیں۔

رسم و رواج

ہماری زندگی کا قابلِ تقلید نمونہ قرآن و سنت ہے۔ اسی معیار پر اپنی زندگی گزار کر اللہ رب العزت سے پسندیدگی کی سند حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کا محور اطیعوا اللّٰہ واطیعواالرسول ہونا چاہیے۔ جس کے احکام و قوانین فطرت کے عین مطابق ہیں۔ مگر امتِ مسلمہ نے اپنے گرد رسم و رواج کے جال بن کر اپنی زندگی مشکل ترین بنادی ہے۔ عقیقہ، ختنہ، نکاح، طلاق، عدت، میت، شادی، بیاہ ہر مسئلہ رسم کے جال سے بندھ کر رہ گیا ہے۔ تلک کی طرح نقدی، بھاری جہیز، گاڑی کا مطالبہ شادی کا اصل مقصد قرار پایا۔ اہلِ وطن ہر کام کے لیے شبھ گھڑی یا مہورت نکالتے ہیں۔ ہر کام کے لیے پنڈت و زائچہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ اسی طرح تقلید پرست مسلم بھی ماہِ محرم کو نامبارک سمجھ کر رشتے ناطے کرنے سے احتراز کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ غمی کا چاند ہے۔ جس کی نحوست شادی بیاہ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ قطع نظر اس سے کہ رب العزت نے کوئی دن کوئی ماہ بے برکت نہیں بنایا۔ اسی قبیح رسم کو توڑنے کے لیے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی رخصتی ماہِ شوال میں ہوئی۔ (اہلِ عرب ان ایام کو نامبارک سمجھتے تھے)

تیوہار

پروردگار نے ہماری فطرتِ نشاط کی تسکین کے لیے دو تہوار بنائے تاکہ مسلم یکساں طور پر باہمی خوشیاں مناسکیں۔ لہٰذا دورِ نبوت و خلافت میں یہی دو قومی تہوار منائے جاتے رہے۔ مگر جب اہلِ ایمان کے یقین و عقیدے میں ضعف پیدا ہونے لگا تو تقلید کے خوگر مسلمانوں کے بھی یقین و عقیدے میں ضعف آنے لگا۔ اور انھوں نے تہواروں میں توسیع شروع کردی۔ جس کی بنا پر شب برأت، محرم، گیارہویں اور رجب کے کونڈے جیسے خود ساختہ تہوار ایجاد کرکے اپنے محبِ وطن ہونے کا ثبوت دیا۔ دیوالی میں آتش بازی کی شکل میں دولت پھونک دی جاتی ہے۔ اس کی چکا چوند سے امت اتنی خیرہ ہوئی کہ اس نے بھی شبِ برأت جیسا تہوار وضع کرلیا۔ تاکہ اس کے تقلیدی ذوق کی تسکین ہوسکے۔

سالگرہ

سالگرہ خواہ شادی کی ہو یا پیدائش کی، جینتی ہو یا کرسمس ڈے، شرعاً سالگرہ کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ حتی کہ میلاد النبیؐ جو بڑی دھوم سے منائی جاتی ہے جس میں جلوس نکال کر چراغاں، شربت، سبیل، دیگیں پکوا کر عشقِ رسول کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ سالگرہ کی بدعت جو غیر مسلموں کا عطیہ ہے۔ جشنِ میلاد النبی میں نعرہ بازی سے حبِ رسول کا دعویٰ کرنے والے، تارک الصلوٰۃ کے مجرم بنتے ہیں۔ موضوع سنت اپناکر فرائض کو نظر انداز کردیتے ہیں۔

بہترین پوشاک و زیورات اور میک اپ سے سجی سنوری رنگین تتلیاں بھی اس جلوس میں شامل ہوکر عاشقِ رسول کی سند حاصل کرتی ہیں۔ صرفِ نظر اس سے کہ یہ اختلاطِ مرد و زن سماعت و بصارت کے زنا کا مرتکب ہوتا ہے اور تعلیمات رسول سے کتنی مطابقت رکھتا ہے۔

یعنی ہم آپؐ کو تو مانتے ہیں مگر آپؐ کی نہیں مانتے۔ لائٹنگ و چراغاں کے ذریعے لاکھوں روپئے برباد کردیے جاتے ہیں جبکہ اس رقم سے کتنے غریبوں کے سر پر چھت بنائی جاسکتی ہے۔ کتنے یتیموں کی پرورش ہوسکتی ہے۔ کتنے لاچار و مجبور مریضوں کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ اور کتنے بھوکوں کی بھوک کا سامان ہوسکتا ہے۔لیکن اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہوتی حالانکہ سنتِ رسولؐ ہمیں یہ درس دیتی ہے اور پھر ہمارا آپؐ سے تعلق سال کے ایک دن کا نہیں سال کے ہر لمحے، ہر دن اور پل کا ہے۔ آپؐ کی اتباع حصولِ جنت کا ضامن ہے۔ کیونکہ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’مجھ سے محبت ہے تو میری سنت سے محبت کرو۔‘‘ اس کھوکھلے دعوے سے کیا حقِ عقیدت ادا ہوسکتا ہے۔

جہیز

یہ وبا ہندوستانی معاشرہ میں عام ہے۔ شریعت میں جہیز کا تصور ہی نہ تھا۔ اس کے برعکس مہر، نان و نفقہ اور ولیمہ کی صورت میں لڑکوں والوں پر ہی مالی مصارف رکھے گئے کہ اگر وہ مذکورہ اخراجات برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو نکاح کرے۔ ورنہ بشکلِ دیگر موافق حالات ہونے تک صبر کرے۔اسلام میں جہیز کے بجائے وراثت میں لڑکی کا حق محفوظ کیا گیا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ قرآن کا تفصیلی بیان ہے۔ کیونکہ باری تعالیٰ نے کسی بھی حق کی وضاحت، سوائے وراثت کے قرآن میں نہیں کی ہے۔ (سورہ النساء کارِ ثواب کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ عمل سے کوئی واسطہ نہیں رہ گیا)لیکن ہند میں رہتے ہوئے ہر بات کی نقالی میں یہ نقالی بھی سرِ فہرست ہے کہ جہیز کے بغیر شادی کا تصورمحال ہے۔ کنیا دان کی خاطر پائی پائی جوڑنے والے بردارانِ وطن، سود، رشوت، جائز و ناجائز، ہر طرح سے بینک بیلنس کرتے ہیں تاکہ بیٹی کا بوجھ اتارا جاسکے۔ یہ طرزِ عمل ان کے لیے تو زیبا ہے کیونکہ آخرت میں جوابدہی کا احساس ان کے اندر ہے ہی نہیں اور پھر اس مصیبت سے بچنے کی بہتر شکل انھوں نے یہی سوچی کہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی اس کا وجود ختم کردیا جائے۔

مسلمانوں نے رسمِ جہیز اپنائی تو اس سلسلے کے متعدی مرض اس میں بھی سرایت کرگئے۔ جہیز جوڑنے کی خاطر حرام وحلال کی تمیز مٹ گئی۔ بینک بیلنس سے سودی رقم حاصل کی گئی۔ اسقاط کے ذریعے لڑکیوں کی بڑھتی تعداد پر قابو پایا گیا۔ پھر جب جہیز کے حریص کی مانگ پوری نہ ہوئی تو انھوں نے اپنی بہو کو جسمانی و نفسیاتی طور پر تنگ کیا کہ ادھار جہیز جلد از جلد ادا کیا جائے۔ لڑکی کو بھی بار بار اپنے باپ کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے بہتر حل یہی سمجھ میں آیا کہ ان حریصوں کی کبھی ختم نہ ہونے والی اشتہا کے مقابلے میں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے۔جہیز دینا مجبوری ہے۔ ورنہ بیٹی کی ڈولی اٹھانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بن گیا۔ مگر … مگر لینے کی کیا مجبوری ہے؟ اگر بھائی و بیٹے کو بیاہنے میں جہیز نہ لینے کا عزم کرلیا جائے تو یہ رسم قبیح ختم ہوسکتی ہے۔

لباس

معصوم بچیوں کو اسکرٹ، ٹاپ، جینز، منی اسکرٹ وغیرہ پہنا کر ان کے اندر بے عزتی و بے حسی کا زہر قطرہ قطرہ اتارا جارہا ہے۔ مختصر لباس کے ذریعے اس سے ردائے حیا چھینی جارہی ہے۔ ان کی فطری حیا پر تیشہ زنی کرکے، ذہنی بے غیرتی کا درس سکھایا جارہا ہے۔ پھر نوجوان لڑکی و لڑکوں کی مخلوط تعلیم سے نسوانیت چھینی جارہی ہے۔ جدید فیشن سے مرصع لباس پردہ پوشی کے بجائے دعوتِ نظارہ دیتا ہے۔ گویا جسم پر لباس منڈھ دیا گیا ہو۔ کہ نظریں شرم سے جھک جائیں۔

اس عہدِ نو میں اور تو سب کچھ ملا مگر

شرم و حیا کے قیمتی زیور نہیں رہے

تبرک

اہلِ وطن چڑھائے ہوئے کھانوں کو بڑا مقدس سمجھتے ہیں۔ اور یہ پرساد کارِ خیر سمجھ کر تقسیم کیا جاتا ہے۔ تقلیدی ذہنیت یہاں بھی پیچھے نہ رہی۔ فاتحہ خوانی کے ذریعے ہم نے بھی کھانوں کو مخصوص کرلیا اور اسے تبرک کا نام دے دیا۔ یقینا اس میں قرآنی آیات پڑھی جاتی ہیں۔ غیر اللہ کانام نہیں لیا جاتا ۔ صد فی صد درست ہے۔ مگر کیا ہم پنچ وقتہ نمازوں کے علاوہ ایک زائد نماز بطورِ فرض پڑھنے کے مجاز ہیں؟ یا غروبِ آفتاب کے بجائے دو گھنٹے تاخیر سے روزہ کھولنے کا استحقاق حاصل ہے؟ ہمیں ایک رکوع اور دو سجدے کا حکم ملا ہے۔ ہم اس کی ترتیب بھی نہیں الٹ سکتے۔ اگر ہم قرآن و سنت میں افراط و تفریط یا ساخت کو بدلنے کا حق نہیں رکھتے کہ شریعت میں چوں وچرا کی کوئی گنجائش نہیں۔ غذا بھی پروردگار کا عطیہ ہے۔ اس پر قرآنی آیات کا ورد کرکے سنت میں توسیع کرکے بدعت کے مرتکب نہیں ہوتے؟ پورے دورِ نبوت میں کھانے کو قرآنی آیات کے ذریعے تبرک بنانے کا ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

اہلِ وطن مخصوص اوقات میں گیتا رامائن کا پاٹھ کرکے، اپنے دھارمک ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ بعینہٖ مسلمان بھی قرآن خوانی کرکے، سورئہ یٰسین و سورہ ملک کا ورد کرکے احترامِ قرآن کا حق ادا کرنا ہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

شباہت

غیر قوموں کی شباہت اسلام میں ناپسندیدہ مانی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محرم میں دو روزے رکھنے کی شرعاً تاکید ہے۔ تاکہ یہودیوں سے شباہت نہ ہو۔ آپؐ نے ’’عورتوں کی شباہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں سے مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔‘‘ (بخاری) فیشن کے دلدادہ لوگوں نے ایسی وضع قطع اختیار کررکھی ہے کہ اب لڑکی و لڑکے کی شناخت ہی مشکل ہوجاتی ہے۔ بندیا، بچھیا، کھلے پیٹ و کمر والی ساری، جینز، اسکرٹ اپنا کر غیر مسلموں کی شبیہ اختیار کرلی ہے۔

علامہ اقبال ہمارے خوابیدہ ذہنوں کو جھنجھوڑتے ہیں:

تو اپنی خودی کو کھوچکا ہے

کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146