مسلم عورت کی شخصیت کا ایک خاص پہلو ’’ورکنگ وومن‘‘ یا ملازمت پیشہ خاتون کا بھی ہے۔ اس میدان میں مسلم عورت کی ذمہ داریاں عالم عورت کے مقابلے زیادہ اور اہم ہیں کیونکہ اس کے سامنے دو اہم مسئلے درپیش ہوتے ہیں۔ ایک تو بہ حیثیت ملازم اسے اپنے آپ کو کامیاب ثابت کرنا ہوتا ہے دوسرے بہ حیثیت مسلمان عورت اپنی انفرادیت اور اخلاق و کردار کی بلندی کو ثابت کرناہوتا ہے۔ اول الذکر تو تمام ہی ملازمت پیشہ خواتین کی ذمہ داری ہے لیکن مسلم عورت اگر دوسری بات پر توجہ نہ دے تو اس کے اور عام غیر مسلم خواتین کے درمیان کوئی فرق و امتیاز نہیں رہ جاتا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو مسلم خاتون کے لیے بڑے خسارے کی بات ہے۔
مسلم عورت کے ملازمت اختیار کرنے کے اسباب محض معاشی اسباب ہی نہیں ہیں کہ اس کے بارے میں یہ رائے قائم کی جائے کہ وہ یا اس کے اہل خانہ حصولِ دولت کی خاطر ایسا کررہے ہیں بلکہ اس کے سماجی اور کسی حد تک دینی اسباب بھی ہیں۔ اور یہ اسباب کوئی نئے نہیں بلکہ عہد رسالت میں بھی پائے جاتے تھے اور مسلم خواتین ملازمت اور دیگر پیشوں سے وابستہ رہتی تھیں۔ اگرچہ اس کی نوعیت آج سے مختلف نظر آتی ہے مگر تاریخ اسلام میں اس کا ثبوت ضرور موجود ہے۔ اس پورے مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ عہدِ رسالت میں عورتیں کہیں تو معاشی کمزوری کے سبب، کہیں اپنے شوہروں اور باب و بھائیوں کی اقتصادی معاونت اور کہیں محض اس لیے پیشہ سے وابستہ ہوتی تھی کہ وہ پیسہ کماکر اپنے رشتہ داروں پر اور اللہ کی راہ میں خرچ کرسکیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ان کی خالہ کو طلاق ہوگئی۔ انھوں نے (دورانِ عدت ہی) پھل توڑنے کا کام کرنا چاہا۔ ایک شخص نے اس بات پر انہیں ڈانٹا تو وہ نبی ﷺ کے پاس آئیں اور دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے پھل توڑو، شاید تم اس کے ذریعہ کچھ صدقہ کرلو یا کوئی ا ور اچھا کام کرلو۔‘‘ اسی طرح حصولِ آمدنی کے لیے کام کرنے والی خواتین میں زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا نام سرِ فہرست ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’ہم میں سب سے لمبے ہاتھ والی (صدقہ کرنے والی) حضرت زینب تھیں۔ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرتیں اور صدقہ کیا کرتی تھیں۔‘‘ حضرت زینب بنت جحش چمڑے کا کاروبار کیا کرتی تھیں۔
اسی طرح عہدِ رسالت خواتین طب، مسلح افواج، کھیتی باڑی، گلہ بانی اور گھریلو دستکاری کے کاموں میں بھی نظر آتی ہیں۔ درس و تدریس اور صنعت و تجارت کے میدان بھی خواتین نمایاں نظر آتی ہیں۔ اگرچہ موجودہ دور میں پیشوں کی نوعیت یکسر تبدیل ہوگئی ہے لیکن خواتین کی ان میں شرکت اور ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لڑکیوں کے اندر تعلیمی و فنی ترقی اور صلاحیتوں کے ارتقا کے بھر پور مواقع نے اس بات کے مزید مواقع پیدا کردیے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے خاندانی احوال و کوائف کے پیشِ نظر اور بعض صورتوں میں ملی و ملکی ضروریات کی تکمیل کے لیے مختلف النوع پیشوں سے وابستہ ہوں۔ ان میں سے بعض پیشوں اور فنون کا علم اور ان کی خدمت خواتین کے لیے فرض کفایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مثلاً طب و جراحت کا میدان، درس و تدریس کا میدان، علم و تحقیق کا میدان وہ اہم میدان ہیں جن سے خواتین کی ایک خاص توازن کے ساتھ وابستگی ملک و ملت کی ضرورت کا تقاضا معلوم ہوتے ہیں۔ اسی طرح سماجی، اقتصادی اور معاشرتی صورت حال کو دیکھتے ہوئے کئی جگہ اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ گھر کی خواتین خواہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں یا کم تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ اپنے تنگ حال سرپرستوں کی مالی مدد کا ذریعہ بنیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس میں شرعی اعتبار سے کوئی قباحت نہیں اگر وہ واقعی اسلام کے شرعی اور اخلاقی ضابطوں میں رہ کر انجام دی جائیں۔
اسلام کے ضابطۂ اخلاق اور نظام شرعی میں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایک مسلم عورت کی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کا جذبہ خیر کی طلب اور برائیوں کی پہچان اور ان سے بچنے کے طریقوں کی معلومات کس حد تک ہے۔ اگر یہ چیز اس مسلم عورت کے اندر نہیں ہے تو اس کی خدمت سے نہ تو خود اس کی ذات کا کوئی فائدہ ہوگا اور نہ ہی وہ مقاصد حاصل ہوسکیں گے جن کے حصول کے لیے شریعت نے اسے اجازت دی ہے۔ اسی سلسلہ میں ایک اہم اور انتہائی قابلِ غور بات یہ ہے کہ مسلم عورت کے لیے کسی بھی طرح سے یہ بات نہ تو مفید معلوم ہوتی ہے اور نہ شرعی مقاصد سے ہم آہنگ کہ وہ عام خواتین کی طرح اپنی ان گھریلو ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہوجائے جن کی انجام دہی اس کے ذمہ ہے اور وہی اس ذمہ داری کو انجام دے سکتی ہے۔ اس میں گھریلو نظام اور اولاد کی پرورش و تربیت خاص ہیں۔ اگر وہ ان بنیادی ذمہ داریوں سے آزادی چاہتی ہے تو اس کا معاشرتی نقصان ہوگا اور ہمارا معاشرہ بگاڑ کی ان حدوںتک پہنچ جائے گا جہاں آج مغربی معاشرہ کھڑا ہے۔ کیونکہ اسلام کی نظر میں عورت کی ملازمت صالح مقاصد کے حصول کے لیے معاون کی حیثیت سے ہے نہ کہ یہ اس کی زندگی کا واحد مقصد اور ہدف۔ یہ بات سمجھ لینا انتہائی اہم ہے۔ ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام نے پورے معاشرہ اور خاص طور پر عورت کو چندہدایات دی ہیں جن کا مطالعہ ایک مثالی مسلم خاتون کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملازمت کرتے ہوئے بھی کس طرح اپنی زندگی میں اعتدال و توازن پر قائم رہے۔
اسلام کی اصولی تعلیمات
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: ’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق کار ہیں وہ (آپس میں) نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔‘‘ (توبہ:۱۷) اس آیت کی رو سے عورت مرد ہی کی طرح دانشمند اور صاحبِ عقل و فراست انسان ہے اور مختلف میدانوں، سماجی، معاشرتی، اقتصادی، دینی اور سیاسی میدانوں میں اہم سرگرمیاں انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس آیت سے عورت کے ’’ناقص العقل اور ٹیڑھی ہڈی‘‘ سے عام غلط رجحانات کی تردید بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح اس حقیقت کو بھی قرآن نے واضح کردیا ہے کہ مردوں ہی کی طرح عورت بھی اپنی ذاتی زندگی کے تمام اعمال کی ذمہ دار اور اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ فرمایا: ’’نیک عمل جو کوئی بھی کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ صاحبِ ایمان ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔‘‘ گویا کہ مرد کی طرح عورت کی بھی معراج یہی ہے کہ وہ پاکیزہ زندگی گزارے اور اس کے انعام و اکرام کی حقدار ٹھہرے۔
’’حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔‘‘ (بخاری)
مردوں کی مشابہت اختیار کرکے عورت کا جس طرح صحیح راستہ سے ہٹ جانا اس کی سماجی، معاشرتی اور ذاتی زندگی کے لیے خطرنا ک ہے، اسی طرح عورت کی انفرادیت اور امتیازات میں غلو اور حد سے بڑھنا بھی زنجیریں پہن لینے کے مترادف ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں عورت تیسرے درجہ کا شہری بن جاتی ہے۔ اس کی بلند مقامی ختم اور شخصیت زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ نہ اس کے ارادہ اور آزادی کی کوئی حیثیت باقی رہ جاتی ہے اور نہ اس کی ترقی مساوات اور برابری کے کوئی معنی رہ جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تو مساوات کے داعی مغربی معاشرہ میں دیکھی جاسکتی ہے اور دوسری مثال خود مسلم معاشرہ سے بھی تلاش کی جاسکتی ہے۔ اور مسلم معاشرہ میں عورت کی انفرادیت اور امتیازات کے تصور کا حد سے تجاوز اور غلو محض اس وجہ سے ہے کہ اس نے قرآن کی تعلیم ’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق کار ہیں‘‘ (توبہ:۱۷) کی تعلیم کو نظر انداز کردیا ہے۔
اسلام کی ان اصولی تعلیمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام نے عورت کو اس بات کی آزادی اور اجازت دی ہے کہ وہ معاشی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے البتہ اس سلسلہ میں وہ خود عورت کو، سماج کو اور عورت کے اہل خانہ کو بھی بعض اہم ہدایات دیتا ہے۔ یہ ہدایات ایک طرف تو عورت کی ملازمت کے لیے مناسب ماحول فراہم کرتی ہیں۔ دوسری طرف ان ہدایات کی روشنی میں عورت خود کو پیشہ سے وابستہ رکھتے ہوئے بھی صالح زندگی گزارنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ اسی طرح عملی زندگی کی ذمہ داریوں میں مردوں کے تعاون کی بھی ہدایات ملتی ہیں۔
ملازمت پیشہ خواتین کے لیے ہدایات
(۱) عورت کی جدوجہد کا سب سے بڑا اور اہم ترین محاذ گھر ہے۔ جس میں گھر کا نظم و انتظام اور اولاد کی نیک وصالح تربیت خاص ہے یہ اولاد کی فلاح و کامرانی کے لیے بھی ضروری ہے اور عورت کی اخروی فلاح و نجات کے لیے بھی چنانچہ شریعتِ اسلامی نے بھی اسے غیر معمولی اہمیت دی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’تم میں ہر شخص راعی (نگران اور ذمہ دا) ہے اور اس سے زیرِ نگرانی لوگوں کے بارے میں سوال ہوگا۔ …… اور عورت نگران ہے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد اور وہ اس کے لیے جواب دہ ہوگی۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اللہ کے رسول کے اس ارشاد کی روشنی میں ہر عورت کو دیکھنا چاہیے کہ ملازمت اور معاش کا حصول صرف ضروری حد تک ہی ہو جہاں اولاد کی تربیت و نگرانی میں اور بے توجہی شامل نہ ہوسکے۔ اسلام کی نظر میں اولاد کی تربیت و تعلیم کی قیمت عورت کی ملازمت خواہ وہ کتنی بھی خوش حالی کا ذریعہ بنی ہو قابلِ قبول نہیں ہے۔
(۲) ملازمت کرنے والی خاتون کے لیے کیونکہ میدان کار کھلا ہوتا ہے اور بچنے کی کوشش کے باوجود عام مردوں سے ان کا تعلق اور گفتگو ہوتی ہی ہے اس لیے انہیں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ وہ میل جول اور گفتگو میں وقار و سنجیدگی اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وقلن قولا معروفاً۔
’’تم (عورتیں) معروف (قاعدہ اور ضابطہ کے مطابق) بات کرو۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا گیا:
ولا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض۔
’’تم بولی میں نزاکت مت اختیا رکرو کہ (اس انداز سے) اس شخص کے اندر (شیطانی) لالچ پیدا ہونے لگے جس کے دل میں مرض ہو۔‘‘
ان دونوں ہدایات کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ ایک مسلم ملازمت پیشہ خاتون اپنا انداز و اطوار دو ٹوک ، واضح، پر اعتماد اور بولڈ رکھے۔ خاص طور پر مریضانہ نفسیات کے مردوں کے ساتھ ان کا انداز و اطوار زیادہ بولڈ اور دو ٹوک ہونا چاہیے۔
(۳) باوقار لباس اور حیا مسلم عورت کی زینت اور اس کا زیود ہے۔ ملازمت کرنے والی خاتون کے لیے باوقار لباس کی ضرورت گھریلو خواتین کے مقابلہ کہیں زیادہ ہے۔ اگر واقعی وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی خواہش مند ہوں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے‘
’’اور وہ (مومن خواتین) اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ ہونے دی۔‘‘ (نور:۳۱)
اسی طرح باوقار چال اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اور عورتیں اپنے پر زور سے زمین پر نہ مارتی چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت و آرائش ظاہر ہونے لگے۔‘‘ (نور:۳۱)
اسی طرح فرمایا: ’’اور جاہلیت کے قدیم طریقہ پر خود کو دکھاتی نہ پھرو۔‘‘
یہ وہ ظاہری چیزیں ہیں جو فساد زدہ ذہنیت کے مردوں کو عورتوں کے پیچھے پڑنے کے لیے راستے فراہم کرتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان خواتین لباس اور چال تک میں ایسا وقار اور سنجیدگی کا طریقہ اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے بیمار ذہنیت کے لوگوں کو ان کے قریب آنے کا کوئی بہانہ نہ ملے سکے۔
(۴) مسلم ملازمت پیشہ خواتین کو دوران ملازمت اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ کام کی جگہوں پروہ مردوں کے ساتھ تنہا رہنے سے نہ بچیں۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ اس کے محرم کے بغیر تنہائی میں نہ رہے۔‘‘
اسی طرح کوئی عورت کسی مرد کے ساتھ بھی تنہائی میں رہنے کو گوارہ نہ کرے۔ اللہ کے رسول نے ایک اور جگہ فرمایا کہ جہاں ایک اجنبی مرد اور ایک اجنبی عورت ہو وہاںتیسرا شیطان ہوتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ شیطانی وساوس سے کوئی بھی محفوظ نہیں اس لیے ان رساتوں کے قریب بھی نہ پہنچا جائے۔ جہاں اندیشے ہوں۔ کیوںکہ ایسے مقامات سے دوری جہاں شک و شبہ اور تہمت کا امکان ہو ہر صاحبِ ایمان مرد اور عورت کا فرض ہے۔
(۵) اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا ہر اہلِ ایمان کے لیے لازم ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ لوگوں کو ’’اتقوا اللّٰہ‘‘ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ ایک ملازمت پیشہ عورت کیونکہ اپنے گھریلو محفوظ مقام سے دور ہے اور عام معاشرہ میں رہ کر اپنی ملازمت کے فرائض انجام دے رہی ہے اس لیے اس بات کے مواقع وہاں موجود ہیں کہ وہ کسی چھوٹی یا بڑی برائی میں مبتلا ہوجائے۔ ایک مسلم عورت ایسے میں صرف اللہ کے خوف اس کے تقدس کے نتیجہ میں ہی ان برائیوں سے دور رہ سکتی ہے جو ملازمت کے مقام پر ہوں یا ہوسکتی ہوں۔
(۶) ایک ملازمت پیشہ مسلم عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی شناخت ایک صاحب ایمان خاتون کی حیثیت سے قائم کرے۔ اس کی یہ شناخت بہت سی برائیوں اور بہت سے مسائل سے بچنے کی ڈھال اسے فراہم کریں گی۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس کا تعلق عملی زندگی سے ہے۔ عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ایک عورت کے مسلم کی شناخت اس کے لیے مسائل پیدا کردے گی۔ اس میں کسی حد تک حقیقت ہوسکتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حقیقی صاحب ایمان کی شناخت بننے پر لوگوں کی نظڑ میں عزت و اکرام بھی حاصل ہوتا ہے اور بیمار ذہن اور کوڑھ مغز لوگوں سے نجات بھی مل جاتی ہے۔ ملازمت پیشہ عورت اگر اپنے کام کی جگہ پر واقعی اسلام کا نمونہ اور اسلامی زندگی کی علامت اور دعوت میں جائے گی تو اس سے بہت سا خیر سامنے آئے گا۔ کچھ ہو یا نہ ہو آخرت کی کامیابی اور اللہ کی مدد ونصرت کے حصول کا تو یہی واحد ذریعہ ہوگا۔
والدین اور سرپرستوں کے لیے ہدایات
(۱) صالح تربیت انسان کی زندگی کے ہر معاملہ میں کلیدی رول ادا کرتی ہے۔ والدین اگر اپنی اولاد کے اندر عقیدہ کی پختگی، عبادت کا شوق، اللہ کا تقویٰ، حسنِ اخلاق جیسی صفات پیدا کردیں تو ان کے اندر ایک طرف تو اپنی ذمہ داریوں کا احساس و شعور بھی پیدا ہوگا دوسری طرف عفت و پاک دامنی اور شرم وحیا جیسی عظیم خوبیاں بھی ان کے اندر پیدا ہوجائیں گی اور حقیقت میں یہی کام شریعت نے والدین کے سپرد فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ (تحریم:۶)
ملازمت پیشہ خواتین کے سرپرستوں کی ملازمت سے پہلے اور ملازمت کے بعد بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ہر وقت ان کو رضائے الٰہی کے حصول، معصیت سے پرہیز اور نیکی اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تم یا ددہانی کراتے رہو کہ یاد دہانی اہلِ ایمان کو فائدہ پہنچاتی ہے۔‘‘ اسی طرح یہ بھی ذمہ داری ہے کہ والدین اور سرپرست ملازمت پیشہ خواتین کے دین و اخلاق پر نظر رکھیں اور مردوں سے کم سے کم اختلاط کی تلقین کرتے رہیں۔
(۲) اللہ کے رسول نے مسلمانوں کو اس بات کی تعلیم دی ہے کہ لڑکے لڑکیوں کے بالغ ہوجانے کے ساتھ ہی مناسب رشتہ ملتے ہی ان کی شادی کردی جائے۔ اس سے ایک طرف تو لڑکا لڑکی اخلاقی فساد اور برائیوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں اور دوسری طرف معاشرہ بھی مفسدات اور مکروہات سے بچ جائے گا۔ وہ لڑکیاں جو ملازمت پیشہ ہیں ان کے والدین کو اس سلسلہ میں خاص طور پر فکر مند رہنا چاہیے اورانہیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کی جلد از جلد شادی کرکے خود بھی یکسو ہوجائیں اور اپنی بیٹی کو ممکنہ اندیشوں سے محفوظ کردیں۔
آخری بات
باشعور دختر اسلامی کی حیثیت سے ایک ملازمت پیشہ خاتون کی ذمہ داری دو چند ہے۔ ایک طرف تو اس کے سامنے پیشہ وارانہ زندگی کا چیلنج ہے دوسری طرف ان فطری ذمہ داریوں کی ادائیگی بھی جس سے اس کے لیے فرار ممکن نہیں۔ ایسے میں دونوں کے درمیان توازن قائم رکھنا اس کے لیے بڑی اہم چیز ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ گھر میں تعاون باہمی اور افہام و تفہیم کا ماحول پیدا کیا جائے اور مرد اور عورت دونوں مل کر گھریلو ذمہ داریاں ادا کرنے کی ایسی کوشش کریں کہ گھر کا نظام اور اولاد کی تربیت متاثر نہ ہو۔
اس پوری بحث کو پیش نظر رکھتے ہوئے شیخ عبدالحلیم ابوشقہ کی درج ذیل عبارت بڑی اہم معلوم ہوتی ہے:
’’پیشہ خواتین سے متعلق ان غلط خیالات کی تردید ضرور کردینی چاہیے جو مغرب زدہ لوگوں نے پھیلارکھے ہیں۔ مثلاً: یہ خیال کہ شادی شدہ خاتون کے لیے اقتصادی خود کفیلی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ارادہ میں آزاد ہو۔ یہ خیال خاندان کی اس بنیاد ہی کو ڈھا دیتا ہے جس پر کسی بھی صالح ڈھانچہ کی تعمیر اس کے افراد کے باہمی تعاون اور ذمہ داریوں کی باہمی تقسیم سے ہوتی ہے اور جوہرایک کی خود کفیلی اور کشمکش کی صورت میں قائم نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح یہ خیال کہ عورتوں کے لیے ملازمت سے وابستگی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی انفرادی شخصیت کی تعمیر و افزائش کرسکیں، غلط ہے۔ عورت اپنے کام میں گھر کی ملکہ رہ کر سیاسی سماجی سرگرمیوں میں اپنے تعاون کے ساتھ اپنی شخصیت کی بھر پور تکمیل کرسکتی ہے، اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ ملازمت سے وابستگی کی وجہ سے زندگی کے بہت سے مفید تجربات بھی حاصل ہوجاتے ہیں۔‘‘ (عورت عہدِ رسالت میں ،ص:۲۱۶، ترجمہ:فہیم اختر ندوی)