مسلم معاشرہ اور اس کی دینی قیادت زوال امت کے اس دور میں خواتین کے بیرونِ خانہ کسی بھی رول کو غلط قرار دیتے رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک عورت کا مکمل رول صرف گھر کی چہار دیواری تک محدود ہے۔ اس تصور میں اتنی بات تو مسلمہ ہے کہ مسلم عورت کی ترجیح اول اس کا گھر، خاندان اور بچوں کی تربیت و تعلیم ہے۔ اس تصور کو موجودہ دنیا کے ٹوٹتے بکھرتے خاندانی نظام کے تناظر میں بہ آسانی دیکھا بھی جاسکتا ہےاور سمجھنا بھی آسان ہے، مگر اس موضوع پر غوروفکر کرتے ہوئے اکثر ہم دو چیزوں کو ایک ساتھ ملا کر دیکھنے لگتے ہیں۔ ان میں ایک ہے عورت کا سماجی رول اور دوسرا ہے عورت کا معاشی رول۔
اسلام عورت کے معاشی رول کا سرے سے انکاری نہیں ہے یہ بات عہدِ رسالت سے ثابت شدہ ہے، البتہ اہم بات یہ ہے کہ وہ مسلم عورت کی ترجیح اول میں ہرگز نہیں آتا۔ جو رول ترجیح میں آتا ہے وہ اس کا سماجی رول ہے، جس کے تحت تحریک دعوت و اصلاح میں اُسے اسی طرح شریک قرار دیا گیا ہے جس طرح مرد کی شرکت مطلوب ہے، جبکہ مغربی دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے معاشی زندگی کو ترجیح اول بنادیا اور اس کے سامنے اس کے علاوہ ہر عمل اورسرگرمی کو ہیچ اور اس کے استحصال کا سبب گردانا۔ خرابی یہیں سے پیدا ہوئی۔
موجودہ طرز ِ زندگی یا مغربی طرزِ زندگی سے پیدا ہونے والے سماجی و معاشرتی اور خاندانی مسائل میں کچھ وہ ہیں جو مغربی دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور جنھوںنے خاندانی و سماجی نظام کو ہلاکر رکھ دیا ہے، اس کا سبب محض عورت کا گھر سے باہر نکلنا نہیں ہے بلکہ عورت کو معاشی جدوجہد میں اتار دینا ہے جبکہ اسلام عورت پر معاشی جدوجہد کا بوجھ نہیں ڈالتا۔
صنعتی انقلاب کے بعد مغربی دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے سبب جو ذہنی و فکری تبدیلی واقع ہوئی اور جسے پوری دنیا کے سامنے مرد و عورت کے درمیان مساوات اوریکساں حقوق کا نظریہ بناکر پیش کیا گیا، اصل خرابی وہاں سے پیدا ہوئی۔ اس نظریے نے مرد اور عورت دونوں صنفوں کے درمیان سماجی و معاشرتی سطح پر کشمکش کی کیفیت پیدا کردی۔ اسی کشمکش کا نتیجہ تھا کہ موجودہ دور کی عورت اور موجودہ دور کا سماج اس بحران سے دوچار ہوا جس میں اعلیٰ سماجی واخلاقی قدریں دقیانوسی ٹھہریں، خاندان بکھر گئے، شادی کا عمل غیر ضروری بتایا جانے لگا، آبادی کے تناسب میں خلل واقع ہوگیا، سنگل پیرنٹس اور نامعلوم والدین کی اولاد کی حیثیت میں سرکاری اداروں میں پروان چڑھنے والے بچوں کی تعداد اور ان کے درمیان جرائم کا رجحان بڑھا۔
یہ ایک عدمِ توازن کی کیفیت تھی جس کے سبب مغربی دنیا کو آج یہ دن دیکھنے پڑے۔ اس معاشرے میں ایک تاریک دور میں عورت کو تمام برائیوں کی جڑ تصور کیا جاتا تھا۔ یوروپ میں ایک زمانے تک فلسفی اس بات پر بحث کرتے تھے کہ عورت کے اندر روح ہوتی بھی ہے یا نہیں۔ ایسے سماج میں عورت کے ساتھ ظلم وزیادتی پر کھولتا لاوا جب باہر آیا تو سب کچھ تباہ ہوگیا۔ خاندان کا پرانا نظام بھی اور مذہبی اقدار و روایات بھی — مغرب انکار مذہب اور فطرت سے بغاوت کی انتہا کو پہنچا اور اپنے گھروں کو ویران اور سماج کو تباہ کربیٹھا۔ دوسری اسلام کے پیروکاروں کا ایک بڑا طبقہ اسلام کے نظامِ زندگی، نظمِ معاشرت سے غفلت اور جہالت کے نتیجہ میں عورت کے اس وسیع تر سماجی رول کو بھلا بیٹھا جو عورت کے ذریعے گھر کے بہترین نظم و انتظام سے شروع ہوتا ہے اور دعوتِ دین اور اصلاحِ معاشرہ سے ہوتا ہوا اسے میدانِ جہاد تک لے جاتا ہے۔ میدانِ جہاد جہاں ایک عورت جنگ میں تلوار چلاتی، فوجیوں کی مرہم پٹی کرتی اور ان کی دوسری ضروریات کی تکمیل کرتی نظر آتی ہے۔ اس پورے سلسلے میں کہیں بھی، مغرب کی طرح، مرد اور عورت کے درمیان کشمکش کی کیفیت نظر نہیں آتی۔ نہ عورت کو اپنے حقوق کے لیے کوئی جنگ چھیڑنی پڑتی ہے اور نہ مرد کو کہیں عورت کی بغاوت کا شکوہ ہوتا ہے۔
ایسا کیوں ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے!
اسلام کے نظامِ زندگی اور نظام ِ معاشرت کی ایک بڑی پرکشش خوبی یہ ہے کہ وہ مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا دست راس، ولی اور دوست قرار دیتا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے:
’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی، دوست اور دست راس ہیں۔ وہ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی یقینا اللہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘ (التوبہ:71)
مذکورہ آیت جہاں مرد اور عورت کے درمیان کسی بھی قسم کی کشمکش کا خاتمہ کردیتی ہے، وہیں مسلم سماج کی عورت کو ایک وسیع تر رول کے لیے کمربستہ ہونے کی تلقین کرتی ہے۔ وہ رول ہے سماج میں اچھائیوں کے فروغ اور برائیوں کو مٹانے کا رول۔ یہ رول انہیں مردوں ہی کی طرح نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور یکساں طور پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔
مسلم امت کی عورت جب اس سماجی رول سے غافل ہوئی تو نصف انسانیت کی اصلاح کا عمل رک گیا اور نصف انسانیت کا رول ٹھہر گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بے شمار برائیوں بلکہ ان تمام برائیوں کی زد میں آگئی جو باقی سماج میں پائی جاتی تھیں۔ یہ بات اہم ہے کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت میںاس کا جو شعوری اور تعمیری رول اپنی اہمیت اور نتائج و عواقب کے اعتبار سے تسلیم شدہ تھا وہ بھی متاثر ہوگیا اور اب ہمارے یہاں جو نسلیں تیار ہورہی ہیں ان کی کیفیت و حالت کیا ہے، یہ ہم سب کے سامنے ہے۔
موجودہ دور میں جب ہماری سماجی و معاشرتی زندگی کو بڑے بڑے عملی و نظریاتی چیلنجز درپیش ہیں، اس فکر کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلم سماج کی عورت کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ اور فرصت و فراغت فراہم کرکے اس مہم کے لیے تیار کیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے سپرد بھی اسی طرح کی ہے جس طرح مرد کے سپرد کی ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی سماجی و معاشرتی زندگی میں اپنی خواتین کو جہاں یہ فکر دینے کی ضرورت ہے وہیں ان کے لیے اس بات کے مواقع اور اس کے لیے مناسب تربیت اور ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ سماج میں خیر کے فروغ اور برائیوں کے ازالہ میں اپنا وہ رول ادا کرسکیں جس کا دین مطالبہ کرتا ہے اور حقیقت میں جس کی ادائیگی کے بغیر ہماری اپنی خیر اور اصلاح خطرے میں پڑی ہوئی ہے۔