دنیا یہ سمجھتی ہے کہ عورت فطری و جسمانی طور پر کمزور ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صنف نازک ہونے کے باوجود اس نے جب کبھی بھی اسلامی حقوق کا شعور حاصل کیا اور خدا سے اپنے تعلقات کو مضبوط کر کے اپنی شخصیت کی تعمیر کی تو اس نے مختلف محاذوں اور مختلف صلاحیتوں کے ذریعے زمانہ کو صالح انقلاب سے ہمکنار کیا، قرن اول میں صحابیات کے کارنامے انکے بہترین کردار کے آئینہ دارہیں۔ چند خواتین اسلام اور صحابیات کا نمونہ پیش ہے۔
صالح معاشرتی تبدیلی اور دعوت حق میں فرعون کی بیوی حضرت آسیہؒ نے جس پختہ ایمان اور جس صبرو ثبات کا نمونہ پیش کیا ہے، اس میں ہمارے لئے سبق ہے۔ آپ صبروثبات کا پہاڑ ثابت ہوئیں۔ انھوں نے ہر طرح کے ظلم و ستم برداشت کر کے رہتی دنیا تک کی خواتین کو یہ سبق دیا کہ وہ بھی اسی طرح سے اپنے دین و ایمان پر ثابت قدم رہیں۔ جبکہ آج ہماری خواتین پر اس طرح کے مظالم نہیں پھر بھی دین کے کاموں کے لئے انہیں اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ ہمیں اجازت نہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اقامت دین کے لئے عزم محکم اور پختہ تصور دین کی ضرورت ہے۔ جب ظالم فرعون اپنی بیوی کو ان کے ایمان سے نہیں پھیر سکا تو کیا آج مسلم شوہر، باپ اور بھائی ہمارے راستے میں مزاحم ہو سکیں گے یہ اک سوال ہے؟ اسی طرح سے حضرت خدیجہ ؓ نے اپنی ساری دولت و محبت حضورؐ کو پیش کر کے دنیا کی خواتین کے سامنے یہ کردار پیش کیا کہ مال دولت اور قابلیت کا بہترین مصرف اللہ کے دین کی اقامت اور اس کی سرفرازی ہے۔
مغربی تہذیب نے زندگی میں تعیش و تکلفات اور نمودو نمائش کا زہر گھولا ہے۔ اور ہم خواتین اس میں دیوانی ہو رہی ہیں۔ دنیا کے تکلفات اسقدر بڑھے ہیں کہ مال و دولت جو اللہ کا ایک فضل و احسان ہے، اس کا بے جا اسراف ہو رہا ہے۔ شادی بیاہ، جہیز کی تیاری اورلباس و زیورات کی خریداری میں ڈھیروں مال لٹائے جاتے ہیں۔ ایک عورت بنا وینٹی بکس کے سفر نہیں کر سکتی۔ اس کا پرس لپ اسٹک اور دیگر میک اپ کے سامانوں سے خالی نہیں ہوتا۔ شادی بیاہ کے مواقع پر خوب دل کھول کر فضول خرچیاں کرتی ہے۔ اور بے شمار فضول مشغولیات میں اپنے اوقات اور پیسوں کو برباد کرتی ہیں جب کی بہت سے یتیم، بیوہ اورمعذور افراد موجود ہیں جن کا کوئی ولی نہیں ہوتا اور غریب بچیاںجن کی شادیاں مشکل ہو رہی ہیں۔ اس دولت کا بہترین مصرف تویہ جگہیں تھیں۔
صحابیات کا بہترین اسوہ ہمارے لیئے نشان راہ ہے کہ وہ خود اپنے ہاتھوں کی کمائی سے ایسے لوگوں پر صدقہ کیا کرتی تھیں۔ اس سلسلے میں حضرت فاطمہ الزھرہؓ کا بے مثال کر دار تاریخ میںثبت ہے کہ کس طرح اپنی عسرت کی زندگی کے باوجود وہ صدقہ و خیرات میں بے مثال تھیں ،اسی طرح سے حضرت زینبؓ کو اسمیں یدطولیٰ حاصل ہے۔
دور جدید میں زینب الغزالیؒ جیسی مجاہدہ بھی ہمیں نظر آتی ہیں۔ جنہوں نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کر کے عورت کی بلند حوصلگی اور بلند ہمتی کی تاریخ رقم کی اور یہ ثابت کر دیا کہ اقامت دین اور اس کی سر بلندی کی جدوجہد میں عورت مرد سے کسی بھی طرح کم نہیں اور یہ اعلان کر دیا کہ اپنے لقب اور مقصدِ زندگی کی خاطر بڑی سے بڑی مصیبتیں ہیچ ہے۔ اور کسی بھی طرح سے گھریلو مصروفیات دین کے کاموں کے لئے رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔
اللہؒ نے خلافت فی الارض اور اقامت دین کے اس عظیم منصب کا مخاطب مرد و عورت دونوں کو بنایا ہے۔ جہاں تک عورت کے دائرہ کار کی بات ہے تو صرف گھر اور بچوں کی نگہداشت ہی عورت کی دینی ذمّے داری اور نصب العین نہیں ہے، ہمارا نصب العین تو اقامت دین ہے اور گھریلو ذمّے داریوں کو بحسن خوبی انجام دینا اقامت دین کا ایک اہم جزو ہے۔
لیکن آج ہمارے معاشرے میں ضرورت کے دائرے کو صرف خریداری اور تقریبات میں شرکت تک محدود کر لیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ گھر کا سودا سلف لانا اور گھر کی آرائش و زیبائش میں بازار کا چکر کاٹنا اسکا شیوہ بن چکا ہے۔ مگر دینی امور میں اور اس میں شمولیت کی جب بات آتی ہے تو یہ بات دھرائی جاتی ہے کہ عورت کی اصل ذمّے داری شوہر کی خدمت اور بچوں کی تربیت ہے۔ یہ کہاں کی منطق ہے کہ ہم اپنی دنیاوی ضروریات کے تحت گھر سے باہر نکل سکتی ہیں۔ لیکن اس خاص کا م کے لئے نہیں جو ہمارا فرض منصبی ہے۔ اور جس کی ادائیگی کے بغیر ہم اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے اس کے لیے یہ کہکر کہ ’’عورتوں کا دائرہ کار انکا گھر ہے۔‘‘ اپنا دامن بچاتے اور قرآن کا یہ حکم بھول جاتے ہیں کہ ’’اے نبی کی بیویوں جو کتاب و حکمت کی تعلیم تمہارے گھروں میں تمہیں رسول کے ذریعے سے دی جاتی ہے اس کا چرچا اور اشاعت کرو‘‘۔
کیا ضروریات کے دائرے صرف بازار تفریح و تقریبات ہیں۔ کیا غض بصر حجاب، پردے کی پابندی، مخلوط سوسائٹی سے اجتناب انہیں ضروریات کی بنا پر ہیں؟ یا حصول تعلیم دینی اور سماجی مقاصد کے پیش نظر ہے یہ غور کرنے کا مقام ہے۔ وہ دین جس نے عورت کے تحفظ کی خاطر اسکو گھر میں لا بٹھایا ہے بازار، میلے ٹھیلے اور دیگر تقریبات کی مسموم فضا سے بچانے کے لئے اسے مستور رہنے کا حکم دیا ہے۔ اسے تو حوائج میں شامل کر کے نکلنے کی اجازت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اور انسانیت کی فلاح و بہبودد جس کی تعمیر و ترقی ہی عورت کا اصل کر دار ہے اس سے صرف نظر کیا جائے۔ تو اس میں قرآن پاک کی یہ وارننگ مردو عورت دونوں ہی کے لیئے ہے ۔
ترجمہ:۔ اے نبی کہہ دو اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب او ر تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جنکے ماند پڑنے کا تمہیں اندیشہ ہے اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں اگر وہ تمکو اللہ اور اسکے رسول اور اس راہ جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے۔‘‘
عورت کی ذمّے داری اور اس کا وظیفہ حیات بے شک نئی نسل کی تربیت اور گھر کو جنت کا نمونہ بنانا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ معاشرے اور انسانیت کی تعمیر کے لئے فکر مند ہونا بھی ضروری ہے۔ اس میں توازن ہونا چاہیے۔ خواتین اسلام اور صحابیات نے دین کے اس مزاج کو سمجھا۔ انکا مطمع نظر آخرت اور اللہ کی رضا کا حصول تھا۔ اسلئے گھریلو امور میں موثر کردار کے ساتھ ساتھ سماجی و معاشرتی خدمات کو بھی مدنظر رکھا۔ یہاں تک کے رفاہی خدمات میں بھی وہ پیش پیش رہیں۔ علم کی اشاعت عزیزوں و مسکینوں کی دیکھ ریکھ، رفاہی ادارے قائم کرنا، شفا خانے کھولنا، مسلم خواتین کے زریں کارنامے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب عورت قرآن و سنت کی روشنی میں ان ذمے داریوں کو ادا کرے گی تبھی وہ فرض امومت اور ازدواجی ذمے داریوں کو شعوری طور پر اللہ کا حکم جان کر ادا کرے گی نہ کہ فطری اور معاشرتی دبائو کے طور پر اور اس طرح وہ سارے امور جن کو دنیاوی امور کہا جاتا ہے عبادت کا درجہ حاصل کرلیں گے۔ اور اس کی آغوش میں پلنے والی نسل صحیح تربیت سے ہمکنار ہوگی۔ یہ کام صرف اللہ اور اس کے رسول کے سامنے جھکنے والی عورت ہی کر سکتی ہے۔ lll