مسلم عورت کی زندگی

شیخ مہ جبیں، اورنگ آباد

اللہ کی نظر میں عورت اور مرد دونوں یکساں ہیں۔ نیکو کاری کے معاملے میں بھی اور اس کی جزا اور انعام کے معاملے میں بھی۔ قرآن حکیم میں اس بات پر بار بار زور دیا گیا :

للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنسآء نصیب مما اکتسبن۔

’’مرد جیسا عمل کریں گے اس کا پھل وہ پائیں گے اور عورتیں جیسا عمل کریں گی اس کا پھل وہ پائیں گی۔‘‘

اسلام کے نزدیک تمدن کی تعمیر میں دونوں کی یکساں اہمیت ہے۔ دونوں اپنے اپنے دائرہ میں جو خدمات انجام دیتے ہیں وہ یکساں طور پر قابلِ قدر ہیں۔ ایک اچھے اور صالح تمدن کا کام یہی ہے کہ وہ عورت کو اس کے فطری دائرے میں رکھ کر تعلیم و تربیت کے ذریعے اس کی صلاحیتوں کو ابھارنے، نکھارنے اور اس کی شخصیت کے ارتقاء کے مواقع فراہم کرے اور اسلام نے ایسا کیا ہے۔

چنانچہ اسلام نے عورتوں کو نہ صرف دین اور دنیا کاعلم حاصل کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کو اتنا ہی ضروری قرار دیا ہے جتنا ضروری مردوں کی تعلیم و تربیت کو قرار دیا۔ حضور اکرم ﷺ کی حدیثِ مبارک ہے:

طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔

نبی کریم ﷺ سے دین و اخلاق کی تعلیم جس طرح مرد حاصل کرتے تھے اسی طرح عورتیں بھی حاصل کرتی تھیں۔ عورتوں کے لیے آپؐ نے اوقات مقرر فرمادیے تھے جن میں وہ آپ سے علم حاصل کرنے حاضر ہوتی تھیں۔ نبیؐ نے لونڈیوں تک کو علم اور ادب سکھانے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح اللہ کے رسول نے لڑکیوں کی کفالت اور ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بحسن و خوبی انجام دینے والوں کو جنت کی خوش خبری دی ہے۔اور حضور اکرمﷺ نے اخلاق کی بنیاد حیاء کو بتایا ہے اور اسلام کی اصلاح میں حیاء سے مراد وہ شرم ہے جو کسی برائی کی طرف مائل ہونے والے انسان کو خود بخود محسوس ہوتی ہے اور اپنے ضمیر اور اپنے خدا دونوں کے سامنے برائی کرنے پر اسے شرم دلاتی ہے اور اسی وجہ سے وہ برائی سے رکتا ہے۔ حضور اکرمﷺ کی حدیث ہے:

لکل دین خلق وخلق الاسلام الحیاء اذا لم تستح فاصنع ماشئت

’’ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے، جب تجھ میں حیا نہیں تو جو تیرا جی چاہے کر۔‘‘

بدکاری کی طرف بلانے والے جتنے چور دروازے ہیں سب کو اسلام نے حیا کے ذریعے بند کیا ہے۔ اور نظر کے فتنے سے بھی محفوظ کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قل للمؤمنات یغضضن من ابصارہن ویحفظن فروجہن۔

’’اور اے نبی! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘

ولا تبرجن تبرج الجاہلیۃ یعنی اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں جس بناؤ سنگار کی نمائش تم کرتی پھرتی تھیں وہ اب نہ کرو۔

زمانۂ جاہلیت میں عورتیں زینت اور حسن کو ظاہر کرتی پھرتی تھیں چلنے میں ناز و انداز دکھانا خوب بن سنور کر نکلنا یہ سب حرکتیں کرتی تھیں اور آج نئی جاہلیت میں بھی وہی سب کچھ ہورہا ہے، جس پر ہمارے نبیؐ نے لعنت فرمائی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ایک بہترین اسلامی معاشرے کی بہترین قومی تربیت کے لیے اسلام میں پہلا کام یہ کیا کہ برہنگی اور عریانیت کو مٹایا اور مردوں اور عورتوں کے ستر کی حدیں مقرر کردیں۔ ابوداؤد میں اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث مبارک ہے: ’’جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آنا چاہیے سوائے چہرے اور کلائی کے جوڑ تک ہاتھ کے۔‘‘

چہرے اور ہاتھوں کے سوا عورت کا پورا جسم ستر میں داخل ہے، جس کو اپنے گھر میں اپنے قریب ترین عزیزوں سے بھی چھپانا اس پر واجب ہے۔ وہ شوہر کے سوا کسی کے سامنے اپنے ستر کو نہیں کھول سکتی خواہ وہ اس کا باپ بھائی ہی کیوں نہ ہو حتی کہ وہ ایسا باریک لباس بھی نہیں پہن سکتی جس میں ستر ظاہر ہوتا ہے۔

حضرت عائشہؓ کی بھتیجی حضرت حفصہؓ ان کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ باریک دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھیں حضرت عائشہؓ نے اس کو پھاڑ ڈالا اور ایک موٹی اوڑھنی اڑھا دی۔

یہ تو رہا ستر کا معاملہ کہ عورت کا لباس کس طرح ہونا چاہیے، لباس اور ستر کے احکام کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ایک اور حکم دیا کہ ’’اپنے گھروں میں وقارکے ساتھ جمی بیٹھی رہو اور زمانۂ جاہلیت کے سے بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں کہ تمہاری صحیح جگہ تمہار گھر ہے اور گھر سے باہر کی ذمہ داریوں سے اسلام نے تمہیں اسی لیے سبکدوش رکھا کہ تم سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنے گھروں میں جمی رہو اور اپنے فرائض انجام دیتی رہو۔ پھر بھی اگر ضرورت ہو تو گھر سے باہر نکلنا بھی جائز ہے لیکن نکلتے وقت اپنی پاکیزگی اور پاکدامنی کا پورا لحاظ رکھو۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اللہ نے تم کو اپنی ضروریات کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔‘‘

اسلام نے عورت کو پاکیزگی اور پاکدامنی برقرار رکھنے کے لیے پردہ کا حکم دے کر ایک بہت بڑی سہولت مہیا کی ہے۔ سورہ احزاب کی آیت کا ترجمہ ہے:

’’اے پیغمبر! اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیویوں سے بھی کہہ دیجیے کہ (سر سے) نیچے کرلیا کریں اپنی ٹھوڑی سے اپنی چادریں اس سے جلدی پہچان ہوجایا کرے گی تو آزار نہ دی جایا کرے گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

اس حکم کا مقصد عورت کی آزادی پر پابندی عائد کرنا نہیں تھا بلکہ اس وقت مدینہ میں جو حالات تھے، ان کے پیش نظر عورتوں کو چھیڑ چھاڑ اور دوسرے نقصانات سے بچانا مقصود تھا۔

ایک حدیث حضرت ربیع بنت معوذ روایت کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ ہم لوگ غزوہ میں نکلتے تھے پانی پلاتے اور زخمیوں کا علاج کرتے تھے۔

عہدِ رسالت کے سماجی حالات میں پردہ اور وہ ہدایات جو اسلام نے عورتوں کو دی ہیں ان کے سماجی، معاشی، معاشرتی، دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں میں حصہ لینے میں کبھی مانع نہ ہوئیں گھر کے کام کاج نے ان کو نہ میدانِ جنگ میں جانے سے اور شریکِ جہاد ہونے سے روکا اور نہ دوسرے بے شمار فرائض کی ادائیگی سے روکا۔ عورتیں کھیتی کے کاموں میں اپنے شوہروں کا ہاتھ بٹاتیں، دعوتوں کے موقع پر مہمانوں کی تواضع کرتی تھیں اور دعوت و تبلیغ کے علاوہ تجارت بھی کرتی تھیں۔یہ تمام کام عورتیں مکمل پردے کے ساتھ ادا کرتی تھیں اور پردہ ان کے کاموں میں رکاوٹ نہیں ہوتا تھا۔ یہ وہ مثالی خواتین تھیں جن کا ہر ہر قدم ہمارے لیے نشانِ راہ ہے اور جن کی صفات کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بتایا ہے کہ وہ نماز قائم کرنے والی، روزے رکھنے اورزکوٰۃ ادا کرنے اور حج کرنے اور اللہ کی راہ میں صدقہ خیرات کرنے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے، مصیبت پر صبر کرنے ہر حال میں شکر ادا کرنے اور نفس پر قابو رکھنے والی اور ساتھ ساتھ زبان کی برائیوں سے بچنے اور غرور اور فخر سے بچنے والی خواتین ہیں۔

کاش کہ آج کی مسلم خواتین بھی ان کی پاک زندگیوں اور ان کے عظیم الشان کارناموں، سماج و معاشرے میں ان کے فعال رول کا مطالعہ کرتیں اور اپنی زندگی کو ان کے نور سے منور کرتیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں