مسلم عورت کے اہم مسائل

مریم جمال

کیلیفورنیا کی ایک ۳۶ سالہ خاتون نے اپنے والدین سے رقم اینٹھنے کے لیے متعدد مرتبہ اپنے اغوا کا ڈرامہ رچا۔ اس نے کل تین لاکھ پچاس ہزار ڈالر کی خطیر رقم وصول کی۔ وہ اپنے والدین کو نوٹ لکھ کر بھیجتی: ’’مجھے قرض کی عدم ادائیگی پر اغوا کرلیا گیا ہے۔ اتنی رقم بھیجیں۔‘‘ ساتھ ہی تنبیہ بھی کرتی کہ پولیس کو اطلاع نہ دی جائے۔ آخری بار معاوضے کی رقم اتنی زیادہ تھی کہ اس کے باپ کو رقعہ پڑھتے ہی دل کا دورہ پڑا اور وہ جاں بحق ہوگیا۔ بعد کی چھان بین سے پتہ چلا کہ بیٹی نے ساری رقم کو کین کے نشے میں اڑا دی تھی۔

مسلم عورت بھی اسی سماج اور معاشرہ کا حصہ ہے جس میں ہم رہتے اور بستے ہیں۔ اس حیثیت سے جو مسائل عام خواتین کے سامنے ہیں وہی مسائل مسلم عورت کو بھی درپیش ہیں۔ مثلاً بہ حیثیت معاشرہ کے ایک فرد کے حقوق و اختیارات کی جنگ میں وہ بھی شریک ہے۔ مساوات مردو زن کے نعرے نے جو معاشرتی کشمکش پیدا کی ہے، وہ بھی اس کا ایک حصہ ہے اسی طرح عریانیت و فیشن پرستی، خواتین کے خلاف سماجی جرائم، غربت و افلاس، بنیادی انسانی حقوق سے محرومی، تعلیمی پسماندگی، خاندانی زندگی میں تشدد اور بے وقعتی، لڑکے اور لڑکی میں تفریق، جنین کا قتل، جہیز اور صحت و غذا کے مسائل ایسی باتیں ہیں جن کا بطور خاص ہمارے ملک کی عورت اس وقت مقابلہ کررہی ہے۔

جب ہم بہ حیثیت مسلمان ان تمام مسائل پر غور کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ عام سماج کی عورت اگر اس قسم کے مسائل کا شکار ہو تو یہ بدیہی اور فطری امر ہے کیونکہ وہاں عورت کی حیثیت ہی سماج میں دوسرے درجے کے شہری کی ہے، مگر مسلم عورت بھی اس قسم کے مسائل سے دوچار ہو یہ اس لیے قابل تصور نہ تھا کہ ان کے پاس واضح نبوی ہدایات اور خدا کے عطا کردہ حقوق و اختیارات ہیں، جو ان کی زندگی اور ان کے رول کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔اسلام کا امتیاز ہی یہ ہے کہ وہ عورت کو بے مثال عزت و وقار اور سماجی و معاشرتی زندگی میں دوسروں کے مقابلے امتیازی حیثیت عطا کرتا ہے۔ اس سیاق میں اگر دیکھا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلم سماج نے ان تعلیمات کو عملی زندگی سے یکسر بھلا دیا جو اللہ اور اس کے رسول نے عطا کی تھیں اور ہم قول و عمل کے تضاد کا شکار ہوکر رہ گئے۔ وہ مسلم عورت جسے مثالی ہونا تھا اور جسے دنیا بھر کی خواتین کی قیادت کرنی تھی پسماندہ ہوکر اور پچھڑ کر رہ گئی۔ اس چیز نے سب سے زیادہ نقصان اسلام اور مسلمانوں کو پہنچایا اور وہ دو طرح سے تھا۔ ایک تو یہ کہ جب وہ زندگی کے میدان میں پچھڑی اور اپنی ذمہ داریوں کے شعور سے قاصر ہوئی تو اس کا انقلابی داعیانہ کردار جاتا رہا اور دنیا اس کے ذریعے ملنے والے خیرسے محروم ہوگئی اور دوسرے یہ کہ اسلام دشمن طاقتوں نے جو عورت کے استحصال کے خوگر ہیں اور مسلم عورت کو بھی اپنے دائرۂ ہوس میں داخل کرنا چاہتے ہیں، اسلام میں عورت کی حیثیت کو لے کر حملے شروع کردیے اور ہم کیونکہ عملی اسلامی زندگی سے بہت دور تھے، اس لیے ان کا خاطر خواہ توڑ نہ کرسکے کیونکہ ان کے حملے دراصل مسلم سماج میں عورت کی صورت حال کو لے کر تھے اور ہم ان کے جواب میں’اسلام میں عورت کی حیثیت‘ کا ورد کرتے رہے اور ظاہرہے ’اسلام میں عورت کی حیثیت‘ موجودہ دور کے ’مسلم سماج میں عورت کی کیفیت‘ سے یکسر مختلف ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا بھر میں اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے کہ اسلام کے زیرِ سایہ عورت مظلوم ہے اور اس ڈھنڈورے سے خود مسلم خواتین بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں یہی وجہ ہے کہ آج تعلیم یافتہ مسلم خواتین میں خاصی تعداد مغربی نظریے کی حامل اور اس کی مبلغ نظر آتی ہے اور پردہ اور اسلام کی باتیں ان کے نزدیک دقیانوسیت ٹھہرتی ہیں۔ دوسری طرف’ پردہ نشین‘ اور اسلام پسند خواتین کا معاملہ یہ ہے کہ ایسی خواتین کو انگلیوں پربھی نہیں گنا جاسکتا جو نظریاتی اور فکری سطح پر جاکر ان مغرب پسند آز اد خیال خواتین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ ثابت کرسکیں کہ اسلام نے تمہاری اس نام نہاد آزادی اور مساوات سے بدرجہا اونچا مقام عورت کو دیا ہے۔

ہم جب مسلم عورت کی ترقی اور اس کے امپاورمنٹ کی بات کرتے ہیں تو کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ہم انہیں عام خواتین کی طرح یا مغربی طرزِ زندگی پر لانے کی بات کرتے ہیں اور ہمارے لیے وہ کوئی مثال ہے بلکہ ہم مسلم عورت کو اس ہمہ گیر اور تعمیری رول کے لیے تیار کرنے کی بات کرتے ہیں جس کا نمونہ ہمیں نبوی دور میں ملتا ہے اور جس مثالی کردار کی خواتین ہمیں اسلامی تاریخ میں قدم قدم پر نظر آتی ہیں۔ عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ کی خواتین سے جب ہم آج کی مسلم خواتین کا موازنہ کرتے ہیں تو وہ میدانِ عمل سے یکسر غائب نظر آتی ہیں اور ان کا وہ تعمیری رول بھی ندارد ہے جو عہدِ اسلامی میں رہا ہے۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں اور وہی وجوہات دراصل مسلم عورت کے اہم مسائل ہیں جن کا تذکرہ یہاں مقصود ہے۔

(۱) تعلیم کے میدان میں مسلمان ملت دوسروں سے کافی پیچھے ہے اور مسلم عورت بھی اسی مسلم سماج کا حصہ ہے جو تعلیم کے میدان میں پسماندہ ہے لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ مسلم سماج میں تعلیم یافتہ خواتین ندارد ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں مسلم عورت کی تعلیم کی سطح میں قابلِ ذکر ترقی ہوئی ہے۔ مگر ہم یہاں علم اور تعلیم میں فرق کرنا چاہیں گے، وہ اس لیے کہ اگر محض تعلیم اور اعلیٰ ڈگریاں ہی مسائل کا حل ہوتیں اب تک صورتِ حال بڑی حد تک تبدیل ہوچکی ہوتی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مسلمان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ڈگری یافتہ خواتین کا عالم یہ ہے کہ جو جتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے وہ اتنی ہی اسلام سے دور ہے بلکہ دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ معاشرہ کی باصلاحیت اور ذہین ترین خواتین کی صلاحیتیں اسی استحصالی نظریے کی حمایت میں لگ رہی ہیں جو اسلام دشمنی کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہے۔ اس لیے ہم اسے تعلیم کی کمی کے بجائے اس علم کی کمی گردانتے ہیں، جو انسان کو اچھائی اور برائی کا شعور عطا کرکے اسے اس لائق بناتا ہے کہ وہ خیر کے فروغ اور منکر کی بیخ کنی کے لیے اپنی جدوجہد صرف کرے۔ یہی وہ چیز ہے جو کسی بھی انسان کے اندر اپنی ذات اور اپنی ذات اور اپنی ذمہ داریوں کا شعور پیدا کرتا ہے اور یہی شعور انسان کی زندگی کو جہدوعمل اور انقلابیت سے سرفراز کرتا ہے۔ اس کی دلیل کے طور پر ہم عہدِ صحابہ کی ان خواتین کو پیش کرسکتے ہیں جن میں سے ابتدائی دور میں چند ہی لکھنا پڑھنا جانتی تھیں، مگر اسی علم نے جو انھیں رسول ﷺ سے اور اپنے گھر کے مردوں سے ملاتھا ان کی زندگیوں کو انقلابی جذبے سے سرشار کردیا تھا۔

موجودہ دور کی عورت کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اس پر اس علم کے سوتے بندہوگئے ہیں یا بند کردیے گئے ہیں۔ ایسے میں اگر وہ فکری پسماندگی کی زندگی نہ گزارے تو اور کیا ہوئے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم عورت پر اس علم و شعور کے سوتے کھولنا اور فہم و شعور کے بند دروازوں کو کھولنا پورے مسلم سماج کی ذمہ داری ہے اور ان ناگفتہ بہ حالات میں ہم اس چیز کے بہت زیادہ متحمل نہیں ہوسکتے کہ ہماری خواتین بے شعوری اور بے عملی کی زندگی گزاریں۔

(۲) اسی لاعلمی کے بطن سے پیدا ہونے والی بے شعوری نے اسے خود ناشناس اور خداناشناس بنادیا اور وہ کلی طور پر دوسروں کے تابع فرمان ہوکر رہ گئی۔ اسے معلوم ہی نہ رہا کہ شخصی آزادی بھی کوئی چیز ہے اور یہ اللہ اور اس کے رسول کی عطا کردہ نعمت ہے۔ اس کی اسی بے شعوری نے اس کی شخصی آزادی کو کچل ڈالا اور وہ خواہی نہ خواہی اپنے ہر اس حق سے دستبردار ہوتی گئی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے اسے دیا تھا۔ معاشرتی اور خاندانی زندگی اور اس کے امور میں فیصلہ سازی میں اب اس کا رول بہت معمولی ہے یا نہیں ہے، انفرادی آزادی کے مطالبہ کی بات اب بغاوت قرار پاتی ہے، معاشی آزادی حرف لعنت بن گئی ہے، وراثت غصب ہورہی ہے، مہر بے معنیٰ ہوتا جارہا ہے اور مستقل تجارت کا توتصور ہی محال ہے۔

شخصی آزادی کے خاتمہ نے عورت کو مردوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بنادیا ہے اور پورا مسلم سماج ایک افراط و تفریط کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔ ایک طرف تو آزادی کا یہ عالم کہ وہ جو چاہیں کرتی پھریں اور مسلم عورت کی دوسری طرف یہ حالت کے شادی اور نکاح تک کے معاملوں میں اسے اپنی مرضی ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں۔ظاہر ہے نہ اول الذکر کی اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ثانی الذکر کو اسلام پسند کرتا ہے۔ بلکہ وہ تو ایک توازن، تفاہم باہمی، ایک دوسرے کے جذبات، احساسات اور تمناؤں کو سمجھنے اور ان کا خیال رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔

مسلم سماج کا ارتقاء اور مسلم عورت کا تعمیری رول اس وقت تک محکم اور قابل عمل نہیں ہوسکتا جب تک اسے وہ شخصی آزادی حاصل نہ ہو جو اسلام نے اسے فراہم کی ہے، وہ کیا ہے اسے ہمیں معاشرتی اور سماجی روایات سے نہیں بلکہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے جاننا ہوگا۔

(۳) اسلام نے مردو عورت کو ’اَوْلِیَائُ بَعْضُہُمْ بِبَعْضٍ‘ (مومن عورتیں اور مرد ایک دوسرے کے ولی اور دوست) قرار دیا ہے اور ایسی ہدایات دی ہیں جو تعاون کی باہمی فضا بنانے کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ خود رسول اکرم ﷺ تمام تر دعوتی جدوجہد اور بے شمار مسائل کے باوجود جب گھر میں آتے تو اپنی بیویوں کا گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ احادیث میں یہاں تک آتا ہے کہ رسول ﷺ اپنے گھر میں آٹا تک گوندھتے تھے اور صحابہ کرام میں بہت سے لوگوں کے بارے میں آتا ہے کہ وہ گھروں میں اپنی خواتین کے ساتھ وہ کام کرتے تھے جن کو آج ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ گھر کی اسی باہمی تعاون کی فضا نے خواتین کو علم حاصل کرنے اور دعوتی جدوجہد میں فعال رول ادا کرنے کے لائق بنایا۔ مگر آج یہ مفقود ہے۔ دوسری طرف صحابیات کو کھجوروں کے باغات میں کام کرتے، بکریاں چراتے اور دوسرے معاشی کاموں میں مردوں کے ساتھ تعاون کرتے دیکھا گیا ہے۔ اس چیز نے مردوں اور عورتوں کے درمیان تعاون علی الخیر کی جو فضا پیدا کی تھی وہ آج ندارد ہے۔ اس کے برعکس آج کی کام کاجی خواتین پر دوہرا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ وہ باہر بھی کام کرتی ہیں اور اندرونِ خانہ بھی انھیں تمام تر فطری اور عملی ذمہ داریوں کا بوجھ سہنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے بڑی بڑی باصلاحیت خواتین اپنے پیشہ اور گھریلو ذمہ داریوں میں گم ہوکر رہ گئی ہیں۔ مسلم معاشرے کے مرد باہمی تعاون سے بچنے کے لیے اس بات کو زور دے کر کہتے ہیں کہ عورت کا اصل میدان اس کا گھر ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو کیا خواتین کو اس ذمہ داری سے بری کردیا جاسکتا ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی صورت میں ان کے رب نے ان پر ڈالی ہے۔ اور کیا غلبہ اسلام کی جدوجہد میں خواتین کا کوئی باہری (بیرونِ خانہ) رول یکسر غیر اسلامی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جبکہ نصف انسانیت کو نظر انداز کرکے کوئی پائیدار صالح تبدیلی ناممکن ہے۔

مسلم عورت کا ایک بڑا مسئلہ جو اس کے تعمیری رول کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے مردوں کی یہی ذہنیت ہے کہ عورت کا جوکچھ بھی رول ہے وہ صرف اندرونِ خانہ ہے اور باہر کے فساد و بگاڑ کو خواہ یوں ہی رہنے دیا جائے مگر وہ خود کو کسی بیرونِ خانہ ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے تیار نہ کرے۔ یہ سوچ دراصل اپنی اس بنیادی ذمہ داری سے فرار ہے جو تعاون علی البر و التقویٰ کی صورت میں ہمیں ملتی ہے اور رسولؐ اور صحابہ کی زندگیاں اس پر گواہ ہیں۔

اگر موجودہ دور کا مسلم معاشرہ عورت کی راہ سے ان تینوں رکاوٹوں کو ہٹادے تو ہم دیکھیں گے کہ مسلم خواتین ایک بے مثال تعمیری رول کے ساتھ میدان عمل میں آئیں گی اور ان کی وہ بے شمار صلاحیتیں جو اپنے اظہار کی راہ نہیں پاتیں اور مرجاتی ہیں ایک صالح انقلاب کا پیش خیمہ بن کر دنیا کو بتادیں گی کہ اسلام نے عورت کو کیا دیا ہے اور پھر پورا سماج ہی نہیں پوری دنیا اس طرف کھینچی چلی آئے گی۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146