اسلام اپنے متبع مرد وعورت کو اپنے دائرہ کار میں رہ کر مختلف شعبۂ حیات میں حرکت وعمل کی پوری آزادی بخشتا ہے ۔ جہاں اس نے اقتضائے شریعت کی شرط کے ساتھ مردوں کو ہر طرح کی سیاسی، معاشی، تعلیمی ،رفاہی، تفریحی اور دیگر میدانوں میں جدوجہد کی آزادی بخشی ہے وہیں اس نے عورتوں کو بھی دائرہ شریعت میں رہ کر مساویانہ ومنصفانہ حقوق عطا کرتے ہوئے زندگی کے مختلف میدان عمل میں نہ صرف یہ کہ مصروفیات کی آزادی بخشی ہے بلکہ بعض مواقع پر ان کی ہمت افزائی بھی کی ہے اور ہر طرح سے ان کا حوصلہ بڑھایا ہے تاکہ یہ صنف نازک معاشرہ میں ایک بااختیار اور خود مختار خاتون کی طرح اپنا وجود محسوس کر سکے اور اپنی بہتر اور قابل رشک کارکردگی سے معاشرے کی خدمت کرےاور دین ومذہب وملک وملت کے لئے باعث افتخار اور سود مند ہو۔ زیر نظر مقالہ میں حضرات صحابیات رضوان اللہ علیھن اجمعین کے کردار کی روشنی میں مسلم معاشرہ میں نسائی تحریکات اور ان کے اختیارات پر بالاجمال بحث کی گئی ہے۔
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے عورتوں کے صرف معاشرتی اور سماجی حقوق ہی متعین نہیں کئے بلکہ ان کو مردوں کے مساوی درجہ دے کر انہیں انسانیت کانصف قرار دیا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابیات کے کارنامے تمدن کے مختلف شعبوں پر حاوی ہیں۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو ان کے کارناموں سے خالی ہو۔ مثلاً سیاست، معیشت، دعوت وتبلیغ، تعلیم وتربیت، خدمت خلق، صنعت وحرفت اور جہاد وغیرہ ایسے میدانات ہیں جہاں صحابیات نے اپنے کارنامے ثبت کئے ہیں۔ ذیل میں ایسی چندصحابیات کا ذکرہے جن کے تابندہ نقوش عصر حاضر کی خواتین کے لئے مشعل راہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
مذہبی کارنامے:
مذہبی کارناموں کے ضمن میں سب سے اہم خدمت جہاد ہے جسے صحابیات نے بہت جوش وجذبہ اور ہمت واستقلال سے انجام دیا۔ چنانچہ غزوۂ احد (شوال۳ ہجری) میں کافروں کے عام حملہ کے موقع پر جب چند جاں نثار ان رسول رہ گئے تھے اس وقت حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر حضور کے لئے سینہ سپر ہوجانا نیز کفار کے بڑھتے اقدام کو تیر اور تلوار سے روکنااور غزوۂ خندق یا احزاب کی لڑائی (ذیقعدہ ۵ ہجری)کے موقع پر حضرت صفیہؓ کا بہادری سے ایک یہودی کا قتل کرنا اور یہودیوں کے حملہ کے روکنے کی تدبیر اختیارکرنا۔ نہایت حیرت انگیز اور دلیرانہ اقدام ہے جس پر اسلامی تاریخ شاہد ہے۔اس کے علاوہ انسانی زندگی دیگر محاذوں پر بھی جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے صحابیات کے کارنامے بہت روشن ہیں۔
سیاسی محاذ:
دور اول کی مسلمان خواتین گرچہ اعلیٰ سیاسی مناصب پر فائز نہیں تھیں لیکن وہ سیاست سے غیر متعلق بھی نہیں تھیں۔ اپنے دور کے سیاسی حالات پر ہمیشہ نظریں جمائے رکھتیں۔ اسلامی ریاست کے تحفظ اور بقا کی خاطر انہوں نے قربانیاں دیں خلفاء اور امراء کو اپنے قیمتی نصائح اور مشوروں سے نوازا جیسا کہ حضرت شفاؓ کے بارے میں واقعہ ہے کہ وہ حد درجہ صائب الرائے تھیں اور حضرت عمرؓان کی تحسین کرتے اور سیاسی معاملات میں ان سے رجوع کرتے تھے۔ مولانا سید جلال الدین عمری مشہور صحابیہ فاطمہ بنت قیس ؓ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’ابتدائی مہاجرین میں ان کا شمار ہوتا ہے اور علامہ ابن عبد البر کے مطابق وہ صاحب جمال اور عقل وکمال والی تھیں۔ حضرت عمر ؓ کی شہادت کے بعد ان ہی کے مکان پر اصحاب شوریٰ جمع ہوئے تھے اورانہوں نے وہ تقریریں کی تھیں جو ان سے منقول ہیں۔ زبیر (ابن بکار) نے کہا ہے کہ وہ شریف خاتون تھیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ بنت قیس ؓ سیاسی بصیرت کی حامل خاتون تھیںاوراصحاب سیاست ان سے سیاسی معاملات میں نہ صرف یہ کہ مشورے کیا کرتے تھے بلکہ ان کی رایوں اور مشوروں کو عملی جامہ پہناتے تھے۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے ان کے لئے یہ دروازے بند نہیں کئے ہیں۔
علمی کارنامے:
اسلامی تاریخ خواتین کی علمی کاوشوں سے معمور ہے۔ چنانچہ اسلامی علوم یعنی قرأت ، تفسیر، حدیث، فقہ اور فرائض میں متعدد صحابیات ؓ کمال رکھتی تھیں۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ کے قول کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہؓ قرآن ، حدیث، فقہ، تاریخ اور علم الانساب میں سب سے آگے تھیں۔اس کے علاوہ طب اور شعر وادب میں بھی انہیں دسترس حاصل تھی۔
اسی طرح حضرت حفصہؓ ، ام سلمہؓ اور ام ورقہؓ قرآن مجید کی حافظہ تھیں جب کہ ام سعد ؓ قرآن کا درس دیا کرتی تھیں۔حضرت شفاؓحساب دانی میں قابل اور ممتاز تھیں۔ حضرت ام سلمہؓ کی مولاۃ ’خیرہ‘ بہت ذہین تھیں، علم حدیث میں گہری دلچسپی رکھتی تھیں۔
اسلامی تاریخ کے زریں دور میں ہمیں ایسی باعلم خواتین ملتی ہیں جن سے بڑے اور معروف علماء نے جو امام کے لقب سے جانے جاتے ہیں، کسبِ فیض کیاہے۔
اشاعت علم وتبلیغ دین:
خواتین کے کارناموں کے ضمن میں اشاعت علم اور تبلیغ دین بھی ایک اہم کارنامہ ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میںصحابیات نے بڑی قابل قدر کوششیں کیں جس کے سبب خاندانوں ، گھروں، محلوں اور شہروں میں دور دراز تک علم کی اشاعت ہوئی اور صحابہ وصحابیات کا ایک بڑا طبقہ دولت علم سے مالا مال ہوا۔
عہد رسالت میں اشاعت علم کے ذرائع درس وتدریس ، وعظ وارشاد اور خطابت ونصائح رہے ہیں۔ آپؐ کے خطبات اور وعظ ونصیحت کی مجلسوں میں اکثر وبیشتر خواتین کی شرکت ہوتی اور کبھی آپؐ اپنا نمائندہ خواتین کی تربیت واصلاح کے لئے بھیجتے۔ ازواج مطہرات میں سے حضرت عائشہ صدیقہ میں خطابت کی صلاحیت وقابلیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ اسی طرح حضرت اسماء بنت یزد بن السکن ؓ کو ، خطیبۃ النساء کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ حضرت ام درداؓ کا شمار بھی بہترین واعظین میں ہوتاتھا۔ اس دور میں تعلیمی اداروں کے قیام کارواج نہ تھا۔ مسجد نبوی میں مردوں کے لئے مستقل درسگاہ ، صفہ، کے نام پر قائم تھی۔ خواتین کے لئے کوئی درسگاہ نہیں تھی۔ صحابیات نے اپنے اپنے گھروں ہی کو مرکز علم کی شکل دے دی تھی۔ جہاں نہایت سادگی کے ساتھ اشاعت علم کافریضہ انجام دیاجاتا ۔وہ اس طرح کہ صحابیات نے اپنے اپنے رشتہ داروں کو تعلیم دینی شروع کی جن میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی اور اس طرح اشاعت علم کا سلسلہ روز بروز جاری وساری رہا۔
اسی طرح صحابیات نے اشاعت علم کے علاوہ تبلیغ دین کافریضہ بھی انجام دیا۔ چنانچہ حضرت فاطمہ بنت خطاب کی دعوت پر حضرت عمر ؓ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ ام سلیم کی ترغیب اور وعظ ونصیحت سے ابو طلحہؓ نے آغوش اسلام میں پناہ لی تھی اور عکرمہؓ اپنی بیوی ام حکیم کے کہنے سننے پر دولت اسلام سے فیضیاب ہوئے اور ام شریک دو سیہؓ کی وجہ سے خواتین قریش میں اسلام پھیلا تھا۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ آج بھی ان دونوں میدانوں میں صحابیات کے رول کے مطابق خواتین امت قابل قدر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وہ دینی جامعات اور عصری درسگاہوں میں مختلف علوم کی مدرسہ ومعلمہ بھی ہیں اور دیگراداروں او ر گھر کے ماحول میں تبلیغ دین سے وابستہ ہوکر مبلغہ اور واعظہ کے فرائض بھی بحسن وخوبی انجام دے رہی ہیں ۔
خدمت خلق
اسلام نے عورتوں کو خدمت خلق کرنے اور فلاح وبہبود کے کاموں میں حصہ لینے سے منع نہیں کیا ہے اور فی الواقع وہ ان رفاہی امور میں حصہ لیتی رہی ہیں اور آج بھی یہ اہم فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ اس کی سب سے اہم مثال میدا ن جنگ ہے جہاں صحابیات نے بے مثال خدمات انجام دی ہیں ۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ، ام سلیمؓ اور ام سلیط ؓ نے غزؤہ احد میں مشکیزہ بھر بھر کر زخمیوں کو پانی پلایاتھا۔ ام سلیم ؓ اور انصار کی چندعورتیں زخمیوں کی تیمار داری کرتی تھیں اور اسی جذبۂ خدمت سے سرشار ہوکر وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہوا کرتی تھیں ۔ربیع بنت معوذؓ وغیرہ نے شہداء ومجروحین کو قتل گاہ سے اٹھا کر مدینہ پہنچایاتھا۔ ام زیادہ الشجعہ اور دوسری عورتوں نے غزؤہ خیبر (آخری ۶ ہجری یاشروع ۷ ہجری ) میں چرخہ کات کر مسلمانوں کی مد د کی تھی نیز تیر اٹھا کر لاتیں اور ستو پلاتی تھیں اور حضرت ام عطیہ نے سات غزوات میں صحابہؓ کے لئے کھانا پکایاتھا۔
آج بھی ملت کی خواتین چاہیں تو صحابیات کے کردار کی روشنی میں کسی نہ کسی صورت خدمت خلق کا عظیم فریضہ انجام دے سکتی ہیں جو مطلوب زمانہ ہے۔
کسبِ معاش
اس سے متعلق مولاناجلال الدین عمری رقم طراز ہیں: ’’عصر حاضر میں سماجی تبدیلیوں کے سبب اور ضروریات زندگی کا دائرہ وسیع ہونے کے پیش نظر اسلام نے عورت کو بھی بقدر ضرورت شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے کسب معاش کی اجازت دی ہے گرچہ اسلام نے عورت کو معاش کی فکر سے بڑی حد تک بے نیاز رکھا ہے۔ اس کے لئے وہ عام حالات میں مجبور نہیں ہے لیکن اس کی معاشی جدوجہد کوناپسندیدہ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ رزق کو قرآن مجید میں اللہ کا فضل کہا گیا ہے اور اسے تلاش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سورہ جمعہ : آیت نمبر 10 میں ارشاد ہے:
’’جب نمازختم ہوجائے تو (تمہیں اجازت ہے کہ) زمین مین پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔‘‘
عورت کو بھی اللہ کا فضل تلاش کرنے کا حق ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ حق صرف مرد کو حاصل ہے، عورت کو حاصل نہیں ہے۔‘‘
اگر ہم سیرت اور تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو بے شمار صحابیات اور تابعات ہمیں نظر آئیں گی جو کسبِ معاش کی جدوجہد میں پیش پیش رہیں اور جنھیں آج کی اصطلاح میں ’بزنس ٹائیکون‘ کہا جاسکتا ہے۔
اوپر جو کچھ عرض کیا گیا اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اسلام خواتین کے رول کو محدود کرکے نہیں دیکھتا بلکہ انسانی تمدن میں اپنا رول ادا کرنے کے لیے انہیں آگے بڑھنے کے لیے مہمیز دیتا ہے۔ یہ مہمیز جیسے گزرے ہوئے زمانے کے لیے تھی اسی طرح ہمارے اس دور کے لیے بھی ہے۔ چنانچہ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے معاشرے کی خواتین کو ایک ہمہ جہت رول کی ادائیگی کے قابل بنانے کی فکر کریں اور جو کام کررہی ہیں انہیں حوصلہ اور ستائش دیں۔