گزشتہ تین ماہ سے مسلم سماج میں طلاق سے متعلق بیداری کی غرض سے ہم نے تین مضامین حجاب اسلامی میں بطور اداریہ تحریر کیے تھے۔ ان مضامین میں ہم نے بیان کیا تھا کہ طلاق سے قبل شریعت اپنے ماننے والوں کو اصلاح باہم کے لیے کیا کیا کرنے کا حکم دیتی ہے اور اگر اصلاح اور نباہ کی تمام صورتیں ناکام ہوجائیں تو طلاق دینے میں کن کن باتوں کا لحاظ لازم ہے اور پھرطلاق کے بعد پیش آنے والے حالات سے نپٹنے کے لیے قرآن نے کیا ہدایات دیں۔
آج کی تحریر میں ہم چندایسی باتوں کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جو ملک کے حالات، یہاں کی سیاست، علماء اور دینی جماعتوں کی سوچ اور ان کے رویہ سے متعلق ہیں۔ ان میں بعض باتیں اس طرح کی ہیں جو عام قارئین کو شاید ہضم نہ ہوں اس لیے کہ بعض چیزوں کے سلسلہ میں ہمارا ذہن بنا ہوا ہے اور اس کے بعد ہم کسی اور بات کو قبول کرنے کے لیے راضی نہیں ہوتے خواہ وہ حکم شرعی ہی کیوں نہ ہو۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہندوستان میں کئی دہائیوں سے بلکہ آزادی کے چند ہی سال بعد سے مسلم پرسنل لاء پر بحث شروع ہوگئی تھی اور یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ دستورہند کی اشتراکیت پر مبنی روح تھی جس کے لیے باقاعدہ دستور میں ایک دفعہ رکھی گئی جو اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ہندوستان بہ تدریج یونیفارم سول کوڈ کی طرف جائے گا اور اس ملک کے تمام شہریوں کے لیے یکساں قانون نافذ ہوگا۔ اس یونیفارم سول کوڈ کا مطلب صاف ہے کہ ملک میں کسی بھی بنیاد پر جاری پرسنل لاء بہت عرصے تک قائم نہیں رہ سکیں گے۔
آزادی سے لے کر آج تک متعدد بار مسلم پرسنل لاء پر شدید قسم کے حملے ہوتے رہے اور یہ حملے نظام طلاق کو لے کر ہوئے اور اس کے پیچھے یہ دلیل دی جاتی رہی کہ عورت کو ’’طلاق، طلاق،طلاق‘‘ کہہ کر دودھ میں پڑی مکھی کی طرح نکال پھینکنا اس پر ظلم ہے اور ہندوستان کی عدلیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اسے عدل و انصاف دلائے اور ظلم سے نجات بھی۔ حیرت کی بات ہے کہ ہمیشہ صرف طلاق کو لے کر ہی بحث ہوئی۔ حالانکہ وراثت میں عورت کا حصہ غصب کرنا بھی اس پر ظلم ہے اور اس کے معاشی اختیارات کا ’’ہنن‘‘ ہے۔ لیکن اس پر بحث اس وجہ سے نہیں ہوتی ہے کہ نہ تو ہندو سماج عورت کو وراثت میں حصہ دینے کا قائل ہے اور نہ ہندوستانی قانون عورت کو باپ کی وراثت میں حصہ دار مانتا رہا ہے۔
اس پورے سلسلۂ واقعات سے یہ بات صاف ہے کہ جو لوگ بھی طلاق کے معاملے کو لے کر واویلا کرتے ہیں انہیں مسلم عورت سے کوئی خاص ہمدردی تو نہیں البتہ اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کو نیچا دکھاکر ذہنی شکست دینے کی سیاست ضرور کارفرما دکھائی دیتی ہے۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مسلم سماج دودھ کا دھلا ہے اور درحقیقت مسلم سماج میں عورت پر زیادتی یا ظلم نہیں ہوتا ہے۔ہم بالکل کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مسلم سماج میں بھی عورت اسی طرح مظلوم و مجبور ہے جس طرح وہ ہندوستانی سماج میں مظلوم و مجبور ہے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ اس وقت ہندوستان کے مسلمان محض اسلام کے نام پر بننے والی ایک اقلیتی اکائی ہیں اور ان کی عملی زندگی میں اسلام کا تناسب کتنا ہے یہ فیصلہ قارئین خود کرلیں۔ اب کیونکہ مسلمانوں کی زندگی اسلام کی بنیاد پر ممتاز نہیں ہے اس لیے علماء کی یہ ذمہ داری تھی، ہے اور رہے گی کہ وہ ان کی زندگی میں اسلامی تعلیمات کو لانے اور جاہلیت اور جہالت کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور اب بھی نہیں ہوپارہا ہے۔ اسلام کی بڑی بڑی اور بنیادی تعلیمات کی دھجیاں بکھرتے دیکھ رہے ہیں بلکہ خود بکھیر رہے ہیں اور سنن و مستحبات کے لیے قتل و خون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مثال کے لیے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم ہے کہ ’’صفائی اور پاکیزگی آدھا ایمان ہے۔‘‘ مگر عملاً کیا ہے۔ آج مسلم محلے اور علاقے گندگی کی علامت اور بیماریوں کی نرسری بنے ہوئے ہیں۔ مسجدوں کے آس پاس کوڑا کرکٹ خوب ملے گا۔لیکن ہماری مسجدوں میں گفتگو ئیں ہوتی ہیں مسواک کی فضیلت پر اور ذکر و اذکار پر۔ ان کی اہمیت پر کلام نہیں مگر نصف دین پر بھی۔کہ از کم اتنی گفتگو اور اس قدر ذہن سازی ضرور ہو جتنی ان چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہوئی ہے اور لوگ اس کو عملی زندگی میں برتنے لگے ہیں۔
اسلام کی تعلیمات میں طلاق و نکاح اور وراثت کے اصول کھول کھول کر بیان کیے گئے ہیں۔ شریعت نے نکاح کو آسان بنایا ہے اور وراثت کو حق بتایا ہے مگر ہمارے علماء کی عملی زندگی اور روش دیکھ لیجیے کتنے لوگ ہیں جو اپنی بیٹیوں کو رواثت میں خود حصہ دیتے ہیں اور دوسروں کو حصہ دینے کی تلقین کرتے ہیں۔ اچھے خاصے مسلمان دولہے کو نکاح سے قبل کلمۂ شہادت پڑھاکر اس کی تجدید ایمان لازمی سمجھتے ہیں مگر مجال ہے کہ ایک جملہ نکاح کی سادگی یا جہیز کی لعنت کے خلاف بول دیں۔ اسی طرح طلاق کو لے لیجیے۔ قرآن پاک میں طلاق کے احکامات بالکل دو اور دو چار کی طرح واضح ہیں مگر پورے ہندوستان کے علماء تمام دلائل اس بات کے لیے جمع کرتے ہیں کہ بیک وقت تین طلاق کو تین ہی مانا جائے گا۔ حالانکہ قرآن میں کہیں بھی تین طلاق کو ذکر نہیں ہے۔ قرآن کا فرمان ہے ‘‘الطلاق مرتان‘‘ طلاق دو مرتبہ ہے۔ اور جیسا کہ ہم نے پچھلے اداریے میں لکھا کہ طلاق کب ، کہاں اور کس حالت میں دینی ہے یہ سب بھی قرآنی تعلیمات میں واضح ہے مگر مجال ہے کہ علماء نے کبھی مسلم سماج کو ان تعلیمات سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہو۔
ہم اپنی معاشرتی ، معاشی اور سماجی زندگی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اس میں اسلام کس حد تک باقی ہے۔ یہ آٹے میں نمک کی طرح ہے یا نمک میں آٹا۔ یا آٹے میں نمک کا کوئی ذائقہ بھی ہے یا بالکل پھیکا پھس۔
اس وقت ہندوستا ن میں مسلم امت کو ہر سطح پر زبردست چیلنجز کا سامنا ہے۔ اور ان کا مقابلہ بیدارمغزی، حکمت اور سیاسی بصیرت ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔ مگر افسوس کہ اس طبقہ میں نہ صرف یہ چیزیں مفقود نظر آتی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تقریب بین المذاہب تو آسان ہے مگر تقریب بین المسالک مشکل۔ اسلام کے ماننے والے، آمین بالجہر اور صلوٰۃ و سلام کی بنیاد پر کفر کے فتوے دینے کو تیار ہیں۔
یہ ان لوگوں کا حال ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے۔ کہ ’’مومن مومن کے لیے دیوار کی اینٹوں کے مانندہے جو ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں۔‘‘ اور یہ کہ مومنین جسد واحد کی طرح ہیں کہ ایک حصہ کو چوٹ پہنچتی ہے تو اس کی تکلیف پورا جسم محسوس کرتا ہے۔
ہندوستانی سماج میں مسلمانوں کا امتیاز اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے سے ہے۔ اگر وہ اسلام پر عمل کرکے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ممتاز نہیں کرتے تو ان میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں۔ محض مسلمانوں جیسے نام رکھنے سے مسلمان نہیں ہوا جاسکتا مگر بدقسمتی سے لوگوں نے یہی سمجھ لیا ہے۔
آج ہم مسلمان پرسنل لا پر منڈلاتے خطرات کے بادل دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں مگر کیا کبھی اس بات پر غور کرنے کی فرصت ملتی ہے کہ ہم اپنی زندگی میں اسلام کے ا ن احکامات کو خود بہ خود نافذ کرلیں جو پرسنل لا قانون کے ذریعہ نافذ کرواتا ہے۔ اگر ہم ایسا کررہے ہوتے تو نہ ہمیں پرسنل لا کے سلسلہ میں کوئی خطرہ ہوتا اور نہ اس پر سیاست کرنے والوں کو سیاست کرنے کا موقع ملتا۔ اس کے برعکس اسلام کی نظام حیات کی حیثیت سے برتری ثابت ہوجاتی اور لوگ اس سے رشتہ جوڑنا کامیابی تصور کرتے۔ مگر ایسا نہیں ہے اور ایسا کرنے کے سلسلہ میں ہم سوچتے بھی نہیں۔lll