مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں

شمشاد حسین فلاحی

تقریباً دو دہائی قبل شروع ہونے والا مسلم نوجوانوں کی اندھا دھند گرفتاریوں کا سلسلہ ختم ہونے کو نہیں آتا۔ اور ختم تو کیا ہوتا اس میں روز بروز شدت آتی جارہی ہے یہ ایک تکلیف دہ اور تشویشناک بات ہے۔ دہشت گردی کے نام پر گرفتار ہونے والے مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے، جن کی معصوم زندگیاں اس نام نہاد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ کتنے ہی ذہین، محنتی اوربے گناہ نوجوانوں کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوگئی اور کتنے ہی نوجوان ہیں جن کے کیریر اور تعلیم کو دہشت گردی کے نام پر ہورہی ’’دہشت گردی‘‘ نے تباہ کردیا۔ گزشتہ دنوں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے ایک سروے نے جیلوں میں بند مسلم نوجوانوں کے سلسلہ میں ایک چشم کشا رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ نمائندگی صرف ملک کی جیلوں میں ہے اورتماشا یہ ہے کہ ایک بے گناہ نوجوان کو گرفتار کیا جاتا ہے اور اس پر درجنوں کیس تھوپ کر اسے ’ماسٹر مائنڈ‘ بتاکر اس کی گرفتاری کو اخبارات کی سرخیوں میں جگہ دی جاتی ہے اور جب وہ طویل عدالتی کارروائی اور ذہنی و جسمانی اذیت کے بعد باعزت بری کردیا جاتا ہے تو کہیں کوئی خبر نہیں آتی۔

ریاستوں کی پولیس اور اے ٹی ایس کا کردار بھی اس معاملہ میں یکساں ہیں۔ وہ صرف مسلم نوجوانوں کو ملزم بناکر گرفتاری کرکے یا دہشت گرد گردان کر انکاؤنٹر کرکے میڈیا سے واہ واہی اور اعلیٰ حکومتی افراد سے تمغے اور ترقیات حاصل کرتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس بھگوا دہشت گردی جس کا چہرہ مالیگاؤں، ناندیڑ، مکہ مسجد اور سمجھوتہ ایکسپریس کے دھماکوں میں بے نقاب ہوا ہے، اسے نہ صرف قابلِ توجہ تصور نہیں کرتی بلکہ اسے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اس ’دہشت گردی‘ کو سیاسی تحفظ حاصل ہے۔ اور ظاہر ہے ہندوستان میں مسلم امت سیاسی طور پر یتیم ہے، اور اس کی جو کچھ بھی اہمیت ہے وہ صرف انتخابی ووٹ کی حد تک ہے جو اس کے سیاسی لیڈروں کے اس وقت کام آتی ہے، جب ریاستی یا پارلیمانی الیکشن کا وقت ہوتا ہے۔

ہندوستان میں سیاست اور وہ بھی فرقہ پرستی اور مفاد پرستی کی سیاست نے ہر جگہ گھس کر ملک کا ستیاناس کیا ہے۔ یہاں ایک طرف فرقہ پرست طاقتیں اپنے معمولی مفاد کی خاطر گاؤں گاؤں اور شہر شہر کو آگ میں جھونک دینے کے لیے تیار رہتی ہیں تو دوسری طرف مفاد پرست لوگ محض اپنے معمولی سے مفاد کی خاطر انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے سے بھی نہیں چوکتے۔

ان دونوں باتوں کی تازہ ترین مثالوں میں ایک تو نکسلوادیوں کے نام پر درجنوں معصوم گاؤں والوں کا قتلِ عام ہے جسے پولیس افسران نے محض اس وجہ سے انجام دیا کہ ان کو کچھ تمغے اور ترقیاں مل جائیں اور دوسری مثال اترپردیش کے ایک مسلم اکثریتی گاؤں کو گھیر کر نذرِ آتش کردینے کا واقعہ ہے۔ اس کے سلسلہ میں عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یہ بڑے سیاسی لیڈران کا کھیل ہے اور وہی اس وقت اترپردیش کے سیاسی شہنشاہ بھی ہیں۔ دہشت گردی پولیس اور اے ٹی ایس کی ہو یا فرقہ پرست دہشت گردوں کی جنھوں نے گجرات میں خون کی ہولی کھیلی یا پھر سیاسی مفاد پرستی کی، نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے مسلم ملت کی پسماندگی، جانی ومالی نقصان اور اس سے آگے بڑھ کر عدم تحفظ اور مجبوری و لاچاری کا احساس۔
دہشت گردی کی ان تمام شکلوں میں سب سے زیادہ خطرناک اور نئی دہشت گردی وہ ہے جو مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر کی جارہی ہے اور اس کے سلسلے میں سرکاری مشینری کا ہر حصہ ایک ہی انداز کا ردِ عمل ظاہر کرتا ہے۔ ادنیٰ درجہ کے پولیس افسر سے لے کروزیرِ داخلہ تک ایک ہی ٹون میں بات کرتے ہیں۔ جبکہ دیگر امور میں ان کا ردِ عمل ایسا نہیں ہوتا۔ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے سلسلے میں پولیس میں وزیرِ داخلہ اور وزیرِ اعظم تک کا ٹون ایک تھا، جبکہ حالیہ نکسل وادیوں کے نام سے مارے گئے لوگوں کے سلسلہ میں وزیرِ داخلہ کا انداز بالکل مختلف تھا۔
ان ساری باتوں کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہندوستان میں مسلمانوں کو مجبوری، لاچاری اور بے وقعتی کا احساس کرایا جارہا ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ یہاں لوگوں کو زیادہ باشعور، سمجھ دار اور سیاسی اور سماجی اعتبار سے مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔ اور یہ ضرورت اسی صورت میں پوری ہوسکتی ہے جب مسلمان اپنی حیثیت، حقیقت اور حالات، کو سمجھیں اور اپنے ذہن و فکر میں ایک ایسی تبدیلی پیدا کریں جو انھیں فکر و عمل کے اعتبار سے بلند کردے۔ اور اس کا واحد آلہ کار قرآن مجید سے زندگی کو جوڑنا ہے۔ وہ قرآن جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’اس قرآن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو بلندی عطا کرتا ہے اور کچھ لوگوں کو پستی میں دھکیل دیتا ہے۔‘‘
ملت کے اصحاب فکر و نظر کو اس صورتِ حال سے بہتر طریقے پر نمٹنے کے لیے ٹھوس اور متحدہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔
شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں