مسلم گھرانوں کی چند صفات اور خصوصیات ایسی ہوتی ہیں جو اسے دوسرے گھروں سے ممتاز و نمایاں کرتی ہیں۔ ہر خصوصیت کو پڑھنے کے بعد آپ اپنے گھر کو ان کی روشنی میں پرکھیں تاکہ آپ پر اپنے گھرکی صورتحال واضح ہوسکے اور آپ یہ پتا لگا سکیں کہ حضور نبی کریمﷺ اور آپؐ کے اصحابؓ کے گھروں میں وہ خصوصیات کیا تھیں جو آپ کے گھر میں نظر نہیں آتی۔ اگر آپ اپنے گھر کو بہتر حالت میں پائیں تو بہت اچھی بات ہے، لیکن اگر صورتِ حال اس کے برعکس ہے تو اس کے علاج کی کوشش شروع کردیں تاکہ آپ اپنے گھر کی اصلاح کرکے اسے بزرگانِ دین کے گھروں جیسا بناسکیں۔
۱- حفاظتِ توحید
ایک مسلم گھر کی ترجیحات میں سر فہرست توحید اور عقیدے کی مضبوطی اور پختگی ہونی چاہیے۔ توحید کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر اسلام نے پیدائش کے وقت سے ہی بچے کے ذہن و دماغ میں عقیدۂ توحید کو راسخ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ بچے کی پیدائش کے فوری بعد ہم بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے ہیں۔ اذان اور اقامت دونوں کے الفاظ توحید پر مشتمل ہیں۔ سنتِ مطہرہ یہی ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آنے اور دنیا میں قدم رکھنے کے بعد سب سے پہلے یہی کلمات توحید سنے۔ اس پہلو سے خادم رسولؐ حضرت انسؓ کی والدہ حضرت ام سلیمؓ کے واقعے میں ہمارے لیے قابلِ تقلید نمونہ ہے اور یہ ہر ماں کے لیے درسِ عبرت ہے۔ ایک بار ان کا اپنے مشرک شوہر سے حضرت انسؓ کو لے کر جھگڑا ہوگیا۔ وہ اپنے بچے کو ایمان و توحید کی پناہ میں لانا چاہتی تھیں اور وہ یہ چاہتا تھا کہ اس کو کافر و مشرک ہی بناکر رکھے۔ آخر میں جیت اسی توحید پرست صحابیہ کی ہوئی۔ ان کے عزم و ارادے اور نصرتِ خداوندی کے آگے مشرک شوہر کو ناکامی ہوئی۔ حالانکہ یہ بات معروف ہے کہ عرب معاشرے میں عورت پر مرد ہی غالب رہتا تھا۔ امِ سلیمؓ اس پر غالب آگئیں اور اپنے مشرک شوہر کو انھوں نے جب اس معاملہ میں شکست دے دی تو اس نے کہا:
’’تو نے میرے بچے کو برباد کردیا۔‘‘یہ کہہ کروہ شام کی طرف چلا گیا۔
۲- احکامات و عبادات پر توجہ
وہ گھر جس کے افراد قیام لیل، نفلی روزوں، تلاوت قرآن پاک اور دوسری عبادات کا اہتمام کرتے ہوں وہاں اللہ کی برکت، سکینت، خوشی، ایمان کی برکات اور ملائکہ کا نزول ہوتا ہے۔ ایسے گھر میں داخل ہونے کا شیطان کو نہ تو راستہ ملتا ہے اور نہ ہی وہ اسے اپنا ٹھکانہ بنانا چاہتا ہے۔ مسلم والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بچپن ہی سے عبادات کی جانب راغب کریں۔ سلفِ صالحین کی مائیں اپنے بچوں کو مسجد میں اپنے ساتھ لے جاتی تھیں۔ جب رسول اللہ ﷺ کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو نماز کو مختصر فرمادیتے تھے۔ اسی طرح بزرگ صحابیات اپنے بچوں کو کھیلنے کے لیے گڑیا دے دیتی تھیں تاکہ وہ اس کے کھیل میں مشغول ہوکر تھوڑی دیر کے لیے کھانے پینے سے غافل ہوجائیں۔ اس سے ان کا مقصد بچوں کو یہ تربیت دینا ہوتاتھا کہ بچہ دن کے کچھ حصے میں بھوکا رہنا سیکھ لے، اس طرح وہ بچوں کو روزے رکھنے کے لیے تیار کرتی تھیں۔
قارئین کرام! کیا کبھی آپ کے اندر بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ آپ اپنے بچے کو مسجد لے کر جائیں اورعزیز بہن! کیا کبھی آپ کو بھی یہ خیال آیا کہ آپ نماز کے وقت اپنے بچے کو اپنے ساتھ کھڑا کریں۔ کیا کبھی آپ نے اپنے گھر کو ایسا گھر بنانے کی کوشش کی جس میں اللہ کی عبادت ہو؟ آپ نے کتنی راتوں میں قیامِ لیل کا ارادہ کیا؟
۳- گھریلو معاملات پر خصوصی توجہ
مسلم گھر کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دین و شریعت کے معاملے میں اس کی توجہ خاص طور پر ہو اور اعلیٰ درجے کی ہو نہ کہ بس یوں ہی واجبی اور سرسری سی۔ اسلاف کی عورتوں کا حال یہ تھا کہ وہ صبح اپنے شوہر کو وصیت کیا کرتی تھیں اور شام کو شوہر جب گھر واپس آتا تو اس سے پورا حال معلوم کرتی تھیں۔ آپ کو معلوم ہے وہ وصیت اور سوال کیا ہوتا تھا؟ وہ اپنے شوہر کو وصیت کرتی تھیں کہ ’’ہمارے معاملے میں اللہ کا خوف اپنے دل میں رکھنا، ہمیں حلال رزق کے علاوہ کچھنہ کھلانا۔ ہم دنیا میں بھوکے رہ کر صبر کرلیں گے لیکن آخرت میں آگ کا عذاب برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘ جب شام کو شوہر گھر واپس آتا تو اس سے پوچھتیں کہ ’’آج قرآن کی کون سی آیت نازل ہوئی؟‘‘
عزیز بہن! آپ اپنا جائزہ لیجیے کہ آپ ان چیزوں کا کتنا اہتمام کرتی ہیں۔ ہماری عورتیں غور کریں کہ وہ آج کس مقام پر ہیں؟ کہاں عظیم خواتین اور کہاں آج کی عورتیں جو فضول خرچی کی دلدل میں غرق اور دنیا کی زینت و آرائش کی چکاچوند سے دم بخود ہیں۔
۴- دعوت اسلامی کے کام کا شوق
سعادت مند گھرانے کا ہر فرد سخی اور دوسروں کے کام آنے کا جذبہ رکھتا ہے۔ بعض عظیم صحابیات نے اس کی بے مثال نظیریں پیش کی ہیں جن میں سب سے نمایاں حضرت ام عمارہؓ ہیں جنھوں نے جنگِ احد میں رسول اللہ ﷺ کی اس وقت بہادروں کی طرح حفاظت کی جب دشمنوں نے آپﷺ کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ اس موقع پر جب کہ بڑے بڑے سورما راہِ فرار اختیار کرلیتے ہیں، وہاں ام عمارہ کی ہمت و بہادری کی تعریف کرتے ہوئے نبیﷺ ان کے بیٹے سے فرماتے ہیں: ’’آج تمہاری ماں کا مقام و مرتبہ فلاں اور فلاں سے بہت بلند ہے۔‘‘ آپؐ بعض بہادر صحابیوں کا ذکر کرتے ہیں اور پھر ام عمارہؓ کی بہادری کو سراہتے ہوئے فرماتے ہیں:’’میں اپنے دائیں بائیں جدھر بھی دیکھتا تھا بس ام عمارہ کو ہی اپنی حفاظت اور دفاع کرتے ہوئے پاتا تھا۔‘‘
عزیز بہن! شاید آپ نے ام عمارہؓ کے لیے رسول کریمﷺ کی اس تعریف سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا ہوگا کہ ام عمارہؓ بہت ہی جسمانی قوت و صلاحیت کی مالک تھیں، یہ لیاقت انھوں نے مشق و ورزش سے حاصل کی تھی جس نے ان کے اندر پھرتی اور بہادری بھر دی تھی اور انھیں اس لائق بنادیا تھا کہ وہ رسول اکرمؐ کی حفاظت کرسکیں۔ چنانچہ آپ کے لیے بھی یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ آپ بھی ورزش کریں تاکہ آپ دعوتی مشن اور اپنی زندگی کے لیے مہارت کے ساتھ جدوجہد کرسکیں اور آپ کے اندر کوئی کوتاہی اور سستی نہ آئے، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ہماری بیشتر خواتین ورزش ہی نہیں کرتیں، جس کی وجہ سے ان کا وزن بڑھ جاتا ہے، جسم ڈھیلا ڈھالا اور بے کشش ہوجاتا ہے، نتیجتاً مرد کسی دوسری عورت کو تلاش کرنے لگتا ہے، جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ بیوی کے حصے میں ندامت اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں آتا۔
۵- ہدایت اسلامی کا لحاظ
اس کے لیے لازمی ہے کہ زیبائش وآرائش، کھانے پینے، سونے، جاگنے، زندگی کی تمام حرکات و سکنات سے مربوط اذکار، گھر کے سامان، کمروں کی آرائش اور تقریبات کے انعقاد وغیرہ میں اسلامی ہدایت اور احکامات کا لحاظ رکھا جائے۔
۶- اخلاقی خرابیوں سے گھر کی حفاظت
مسلم گھرانہ اس بات کا آرزو مند ہوتا ہے کہ اس کے افراد میں اخلاقی برائیاں نہ نظر آئیں۔ اخلاقی برائیوں میں سے ایک برائی وہ بھی ہے جس نے ہمارے گھر بلکہ ہمارے بیڈ روم پر کیبل ٹی وی چینل، فحش مجلات، انٹرنیٹ کی فحش ویب سائٹ اور دوسرے وسائل کے ذریعہ یلغار کردی ہے۔
۷- مراتب وحقوق کا لحاظ
ایک مسلم گھر کے اندر بڑوں کی عزت اور ان کا احترام اور چھوٹوں سے شفقت و محبت کو ملحوظ رکھا جاتا ہے خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے اپنے گھر کے ہوں یا پڑوسی۔ حقوق سے میری مراد وہ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں جو شریعت نے باپ پر اولاد کے تعلق سے اور اولاد پر باپ کے تعلق سے عائد کیے ہیں۔ ان ہی حقوق و فرائض میں پڑوسیوں، احباب اور رشتہ داروں کے حقوق بھی شامل ہیں۔
۸- طہارت و نظم کے اقدار کا لحاظ
اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ طہارت و صفائی ایمان کا جزو ہے اور اسلام نظم و ضبط کا مذہب ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اسلام کی حقیقت کو نہ سمجھنے والوں کی اکثریت اسلام کو ان خوبیوں کے برعکس تصور کرتی ہے۔ مسلم گھر کو تمام گھروں سے زیادہ خوبصورت اور پاکی و صفائی میں اسے دوسروں سے بڑھ کر حریص ہونا چاہیے۔ میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ گھر کے ڈیکوریشن، زینت و آرائش اور فرنیچر وغیرہ میں انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا جائے کیونکہ سادگی خوبصورتی کی عظیم ترین علامت ہے۔
۹- میانہ روی
اس سلسلے میں ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا وہ واقعہ پیش کردینا ہی کافی ہے کہ جب انار کا ایک دانہ زمین پر گر گیا تو انھوں نے اسے اٹھالیا اور سورہ بقرہ کی آیت واللّٰہ لا یحب الفساد (۲۰۵) کی تلاوت کرنے لگیں۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ نہ جانے کتنا رزق کوڑے دانوں میں پھینک دیا جاتا ہے، جبکہ بہت سے مسلمان بھائی اور عام انسان اپنی زندگی کے بقا کے لیے ایک روٹی بھی حاصل نہیں کرپاتے کہ اس سے اپنی بھوک مٹا سکیں۔
۱۰- عفت
عفت سے میری مراد زبان کی حفاظت ہے یعنی زبان سے کوئی گندی بات نہ نکلے۔ اسی طرح عزت و ناموس کی حفاظت، پاکیزگی و طہارت، عفت و پاک دامنی مسلم گھرانوں کی اصل صفات ہیں۔ لوگوں کی سعادت اسی میں ہے کہ مرد و عورت کے درمیان اجتماعی و معاشرتی زندگی کی بنیاد شادی ہو۔ بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شادی کو قید تصور کرتے ہیںاور آزادی کے نام پر شہوت کے گھوڑے کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ حالاںکہ درحقیقت یہی اباحیت ہے جو انسان کو سعادت و سکون سے نہیں بلکہ شقاوت و ندامت سے دوچار کرتی ہے اور اندرونی کشمکش نیز نفسیاتی امراض کا شکار بنادیتی ہے۔ ان لوگوں کے لیے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ امریکہ اور یورپ میں اسی اباحیت کے سبب خود کشی کرنے والوں کا تناسب دیکھ لیں۔ ایک شخص نے خود کشی کرنے سے پہلے کہا: ’’میرے دوستو! میں اپنی تعلیمات ا ور جنسی غیرت کے خاتمے کے لیے جدوجہد میں اب بھی پورا یقین رکھتا ہوں۔ عمر زیادہ ہوجانے کے باوجود میں اپنی خوبصورت بیوی سے بے پناہ محبت کرتا ہوں، لیکن میری بیوی کی ازدواجی خیانت ایسا معاملہ تھا کہ میں اس حقیقت کو برداشت نہیں کرپاتا۔ مجھے جب اس کا علم ہوا تو گویا میری زندگی کی کشتی کسی بڑی چٹان سے ٹکرا گئی جس نے اس کو پاش پاش کردیا اور میرے لیے اس کے بعد زندگی کا کوئی مفہوم نہیں رہ گیا۔ اس لیے اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلوں۔ میں آپ لوگوں سے معافی چاہتا ہوں … خدا حافظ۔‘‘ ان الفاظ کے بعد اس شخص نے خود کشی کرلی۔
انسانی زندگی پر عفت و پاکیزگی کے اثرات پر ماہرین نفسیات نے بھی گفتگو کی ہے کہ اگر شہوانی قوت کا رخ خیر اور بھلائی کی طرف ہو تو اس کے عظیم تر نتائج سامنے آتے ہیں۔ میکڈوجل کا کہنا ہے: ’’کسی ایری غیری عورت کے ساتھ جنسی مسائل میں الجھنے کے بجائے انسان کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ محبت کرنے والا انسان بنے، اپنی طاقت کو دلچسپ فنی کارناموں کی ایجاد میں صرف کرے، یا معاشرے میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کرے، یا کوئی عظیم کام انجام دے، یا معاشرے اور سوسائٹی سے عزت و شرف حاصل کرے۔ وہ اپنی سرگرمیوں کو علم کی خدمت میں بھی لگا سکتا ہے۔ اس لیے بجائے اس کے کہ اس کا جنسی جذبہ اس کی بدبختی و شقاوت کا سبب بنے، بہتر ہے کہ اسے کسی زیادہ اعلیٰ جدوجہد کے لیے وقف کردے۔‘‘
قارئین! اب آپ کے لیے یہ آسان ہے کہ آپ اپنے گھر کی اصلاح کے لیے ایک چارٹ بنائیں اور ایک کارڈ پر مذکورہ بالا دس خصوصیات لکھ لیں۔ اگر آپ شادی شدہ ہیں تو ہر خصوصیت کے سامنے اپنے لیے دس میں سے جتنا نمبر دینا چاہیں دیجیے۔ اپنی بیوی کو بھی ایسا ہی کرنے کے لیے کہیے۔ پھر دونوں کے مجموعی نمبرات کو دو سے ضرب دے دیجیے۔ اس سے آپ کو اپنے حاصل شدہ نمبر کا فی صدی معلوم ہوجائے گا۔ اور اگر آپ غیر شادی شدہ ہیں تو آپ اپنا بھی جائزہ لے سکتے ہیں۔ آپ ہر خصوصیت کے لیے دس نمبر مان کر چلیے اور پھر انھیں دس سے ضرب دے کر انتہائی نمبر یعنی ۱۰۰ تک پہنچانے کی کوشش کیجیے۔