خواتین اگر اپنے اندر دین کا شعور اور دینی سوجھ بوجھ پیدا کرلیتی ہیں تو وہ اسے قائم اور برقرار رکھنے ہی کے لیے نہیں بلکہ اسے پروان چڑھانے کے لیے بھی مسلسل اور پیہم کوشش کرتی ہیں۔ جہاں وہ قرآن مجید کی شعوری تلاوت اور نماز پڑھنے کا اہتمام کرتی ہیں۔ وہیں اگر مسنون دعائیں شعور کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام بھی کریں۔ کیوں کہ مسنون دعاؤں کے اہتمام سے بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں:
(۱) مسنون دعاؤں سے ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسلامی عقائد نہ صرف تازہ ہوتے رہتے ہیں، ذہن و دماغ پر چھائے رہتے ہیں، دل و دماغ اور ان میں رسوخ پیدا ہوتا رہتا ہے۔ فکر و نظر، خیالات و افکار اور نظریات ہر ایک اسلام کے مطابق ڈھلتے رہتے ہیں۔
(۲) اللہ تعالیٰ کی صفات کا اثر زندہ و تابندہ ہوتا رہتا ہے اور زندگی اتباعِ رسول کی خوشبو سے مہکنے لگتی ہے۔ سنت رسولؐ پر کاربند رہنے کی توفیق ملتی ہے۔ اطاعتِ خدا اور اطاعتِ رسول سے زندگی میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ محبتِ رسولؐ کے پھول، ستاروں سے زندگی جگمگانے لگتی ہے۔
(۳) سیرت و کردار اور اخلاق و عادات کے پہلو میں بہار آنے لگتی ہے۔ مسنون دعاؤں کے اہتمام سے اخلاقِ نبوی کا عکس زندگی میں نظر آنے لگتا ہے۔
(۴) معاشرت، سماجی زندگی، تعلقات اور معاملات، برتاؤ اور سلوک پرتوحید، رسالت اور آخرت کے عقائد اثر انداز ہونے لگتے ہیں اور پوری زندگی اسلامی زندگی بنتی چلی جاتی ہے۔
(۵) حلال و حرام، جائز و ناجائز، صحیح و غلط میں امتیاز کرنے اور صرف حلال، جائز اور پاک ذرائع سے حاصل کی ہوئی روزی پر اکتفا کرنے اور حرام، ناجائز اور ناپاک روزی سے بچنے کا اہتمام کرنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔
(۶) نہ صرف انفرادی، ازدواجی، عائلی اور نجی زندگی میں خوفِ خدا اور خیالِ آخرت کے تحت اطاعت اور اتباع رسول کے اہتمام کی توفیق ہوتی ہے بلکہ شعوری طور پر مسنون دعاؤں کے اہتمام سے اجتماعی، سیاسی، قومی اور وطنی بلکہ بین الاقوامی زندگی میں اطاعت خدا اور اتباعِ رسولؐ کے اہتمام کی فکر لاحق ہوتی اور توفیق ملتی ہے۔
(۷) مسنون دعاؤں کا اہتمام کرنے والوں ا ور اہتمام کرنے والیوں کا تصور خدا، تصور دین، تصور عبادت، تصور کائنات، تصور انسان، تصور حیات، تصور رسولؐ اور تصور آخرت خالص اسلامی بنتے رہتے ہیں۔
(۸) براہِ راست اللہ رب العالمین سے ربط و تعلق قائم کرنے اور بغیر کسی توسل کے، بغیر کسی واسطے کے، بغیر کسی کے طفیل کے دعا مانگنے کی اہمیت ذہن پر بیٹھتی رہتی ہے اور توحید راسخ ہوتی رہتی ہے۔ کیوں کہ کسی ایک مسنون دعا میںبھی کسی مخلوق کے واسطے سے مانگنے کی مثال نہیں پائی جاتی۔
(۹) توحید کا یہ عقیدہ بھی راسخ ہوتا رہتا ہے کہ دعائیں اور التجائیں سننے والا، منتیں اور مرادیں پوری کرنے والا، بنانے اور بگاڑنے والا، مارنے اور جلانے والا، مشکلیں حل کرنے والا اور حاجتیں پوری کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ کیونکہ کائنات اور انسان کا خالق، مالک، حاکم، مدبر، منتظم اور مقتدرِ اعلیٰ تمام اسباب و وسائل پر غالب و قادر، حامی و ناصر اور فریاد رس صرف وہی ہے۔
(۱۰) محبت رسول کا صحیح مفہوم اور تقاضا سمجھ میں آتا ہے اور اس پر عمل کی توفیق ملتی ہے کہ اطاعت خدا کی عملی شکل اتباع رسولؐ ہی ہے اور رسول اللہ ﷺ اللہ کے بندے ہی تھے۔ اس لیے زندگی کے تمام معاملات میں اللہ ہی سے دعائیں مانگتے تھے اور اس کے سامنے گڑگڑاتے تھے۔ اس طرح آپؐ اپنی بندگی، بے چارگی اور محتاجگی کا برملا اظہار کرتے تھے۔ اس لیے ہمیں بھی اس کا پورا اہتمام کرنا چاہیے کہ اللہ کے رسول کو اللہ کا بندہ اور رسول ہی جانیں اور مانیں، اور ان کے اندر خدائی کا شائبہ تک بھی فرض نہ کریں۔
خواتین جب ہر صبح بیدار ہوتی ہیں اور اپنے گھر والوں کو اور خصوصاً اپنے بچوں کو اٹھاتی ہیں تو سب سے پہلے بیدار ہوتے وقت کی مسنون دعا پڑھتی ہیں اور بچوں سے بھی پڑھنے کو کہتی ہیں:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَ اِلَیْہِ النُّشُوْرُ۔ (بخاری و مسلم)
’’ساری تعریفیں اور تمام شکریے اللہ کے لیے ہیں، جس نے ہم کو موت دینے کے بعد زندہ کیا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر ہمیں اسی کے دربار میں پہنچنا اور حاضر ہونا ہے۔‘‘
اسلامی تہذیب یہ ہے کہ مسلمان خواتین، مرد، بچے، بوڑھے، جوان لڑکے اور نوخیز لڑکیاں بیدا ہونے پر پہلے تو مسنون دعا پڑھیں، پھر ایک دوسرے کو سلام کریں اور ہمہ پہلو سلامتی کی دعا دیں اور جواب میں بھی ایک دوسرے کو سلامتی کی دعا دیں، اگر یہ سلام اور جوابِ سلام شعور کے ساتھ ہو اور خلوص و للہیت کے ساتھ ایک دوسرے کو دعا دی جائے تو سوچیے کہ اس کی برکتیں کس قدر عام ہوں گی اور کس قدر ایک دوسرے کے لیے دل میں محبت کے سوتے پھوٹیں گے ا ور ایک دوسرے کے لیے ہمدردی، خیر خواہی اور غم خواری کے جذبات امڈیں گے۔
بیدار ہوتے ہی مسلمان خواتین اور مردوں کو نماز کے لیے طہارت حاصل کرنے کی فکر لاحق ہوتی ہے اور وہ بستر سے اٹھ کر بیت الخلاء جاتے ہیں۔ بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت مرد اور خواتین بایاں پیر رکھتی ہیں اور یہ دعا پڑھتی ہیں اور بچوں کو بھی اسی کی تعلیم دیتی ہیں :
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ۔ (بخاری و مسلم)
’’اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتی ہوں، گندگیوں سے، شیطانوں سے اور خبیثوں سے۔‘‘ (یعنی اے اللہ تو مجھے ہر قسم کے نرومادہ شیطانوں کے وسوسوں سے بچالے۔)
طبعی حاجات سے فارغ ہوکر بیت الخلاء سے باہر نکلتے وقت خواتین اور بچے اور ہر مسلمان، مرداور خواتین پہلے دایاں پیر باہر نکالتی ہیں اور شعور کے ساتھ پڑھتی ہیں: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْہَبَ عَنِّی الْاَذیٰ وَعَافَانِیْ۔ یعنی ’’تمام تعریفیں اور شکریے اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے گندگی اور تکلیف کو دور کردیا اور مجھے عافیت بخشی۔‘‘ یا صرف غُفْرَانَکَ اَللّٰہُمَّ پڑھتی ہیں۔ یعنی ’’اے اللہ میں تیری بخشش چاہتی ہوں۔‘‘ میں تجھ سے التجا کرتی ہوں کہ تو میرے گناہوں ا ور لغزشوں پر پردہ ڈال دے۔
حاجات سے فارغ ہوکر خواتین اور سیانے بچے غسل کی حاجت ہو تو غسل کرتے ہیں ورنہ صرف وضو کا اہتمام کرتے ہیں۔ نماز کے لیے جسم، لباس اور نماز کی جگہ ہر ایک کی طہارت کا اہتمام ضروری ہے۔ غسل کرنا ہو تو مسنون طریقے سے کرتے ہیں اور وضو کرنا ہو تو وہ بھی مسنون طریقے سے کرتے ہیں۔ سنت پر عمل کا اہتمام خواتین خود بھی کرتی ہیں اور بچوں کی تربیت کی غرض سے ان سے بھی مسنون طریقے پر غسل اور وضو کرنے کا اہتمام کراتی ہیں۔ وضو شروع کرتے وقت بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھنا چاہیے۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرِّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کا ترجمہ ہے’’شروع کرتا ہوں (شروع کرتی ہوں) اللہ کے نام سے جو رحیمان اور رحیم ہے۔‘‘ یعنی اللہ کے نام سے شروع کرنے سے برکتیں حاصل ہوںگی۔ کیوںکہ اس کا نام بڑا بابرکت ہے۔ جس نے محض اپنے رحم و کرم سے، محض اپنی رحمانیت اور رحیمیت کے صدقے میں اپنے نبیؐ کے ذریعے سے ہمیں طہارت حاصل کرنے کاطریقہ سکھایا، وضو کی توفیق بخشی اور طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ پانی عطافرمایا۔
وضو کے درمیان کوئی دعا رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں ہے البتہ قرآن اور احادیث سے بعض بزرگوں نے کچھ دعائیں اخذ کرکے وضو میں پڑھنے کا اہتمام کیا ہے۔ اگر کوئی خاتون یا مرد، ان کا اہتمام کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن انہیں سنت نہیں سمجھنا چاہیے۔ وہ دعائیں یہ ہیں: (۱) دونوں ہاتھ دھوتے وقت: بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اِسْمِہٖ شَیٌٔ۔ اللہ کے نام کے ساتھ کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے۔‘‘
(۲) کلی کرتے وقت: اَللّٰہُمَّ اَعِنِیْ عَلیٰ ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ۔ ’’اے اللہ میری مدد فرما میں تیرا ذکر کرسکوں، تیرا شکر ادا کرسکوں اور بہتر طریقے پر تیری عبادت کرسکوں۔‘‘
(۳) ناک میں پانی ڈالتے وقت: اَللّٰہُمَّ اَرِحْنِیْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ وَلَا تَرَحْنِیْ رَائِحَۃَ النَّارِ۔ ’’اے اللہ تو مجھے جنت کی خوشبو سے ہم کنار کر اور دوزخ کی بدبو سے دوچار نہ کر۔‘‘
(۴) چہرہ دھوتے وقت: اَللّٰہُمَّ بَیِّضْ وَجْہِیْ یَوْمَ تَبْیَضُّ الْوُجُوْہُ وَتَسْوَدَّ الْوُجُوْہُ۔ ’’اے اللہ! میرا چہرہ روشن فرما اور روز جس روز بہت سے چہرے روشن ہوں گے اور بہت سے چہرے سیاہ ہوں گے (یعنی قیامت کے روز)۔‘‘
(۵) کہنی تک دایاں ہاتھ دھوتے وقت: اَللّٰہُمَّ اَعْطِنِیْ کِتَابِیْ بِیَمِیْنِیْ وَحَاسِبْنِیْ حِسَاباً یَسِیْراً۔ اللہ اللہ میرا اعمال نامہ مجھے میرے دائیں ہاتھ میں عطا فرما اور مجھ سے آسان حساب لینا۔‘‘
(۶) کہنی تک بایاں ہاتھ دھوتے وقت: اَللّٰہُمَّ لَا تُعْطِنِیْ کِتَابِیْ بِشِمَالِیْ وَلَامِنْ وَّ رَائِ ظَہْرِیْ۔ ’’اے اللہ میرا اعمال نامہ میرے بائیں ہاتھ میں مت دینا اور نہ پیٹھ کے پیچھے سے دینا۔‘‘
(۷) سر کا مسح کرتے وقت: اَللّٰہُمَّ اَظِلِّنِیْ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِکَ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلَّ عَرْشِکَ۔ ’’اے اللہ! تو مجھے اپنے عرش کے سائے میں جگہ دینا اس روز جس روز تیرے عرش کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔‘‘
(۸) کانوں کا مسح کرتے وقت: اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہُ۔ ’’اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں شامل فرمادے جو باتیں سنتے ہیں اور ان میں سے اچھی سچی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔‘‘
(۹) گردن کا مسح کرتے وقت: اَللّٰہُمَّ اَعْتِقْ رَقَبَتِیْ مِنَ النَّارِ۔ ’’اے اللہ! میری گردن کو دوزخ سے نجات دے دے (یعنی دوزخ سے ہمیں آزاد کردے)۔‘‘
(۱۰) دایاں پیر دھوتے وقت: اَللّٰہُمَّ ثَبِتْ قَدَمِیْ عَلیٰ الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ الْاَقْدَامُ۔ ’’اے اللہ! جس روز پل صراط پر لوگوں کے قدم ڈگمگائیں اس روز میرے قدم جمادے اور مجھے ثابت قدمی عطا فرما۔‘‘
(۱۱) بایاں پیر دھوتے وقت: اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ ذَنْبِیْ مَغْفُوْراً وَّسَعْیِیْ مَشْکُوْراً وَّتِجَارَتِیْ لَنْ تَبُوْرُ’’اے اللہ میرے گناہ بخش دے میری سعی و جہد کی قدردانی فرما اور میری تجارت تباہ نہ کر۔‘‘
وضو کے بعد مسنون ہے کہ پہلے اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ پڑھیں (مسلم) یعنی یہ کہیں: ’’میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلا ہے، یگانہ اور یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیںہے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ پھر اس کے بعد پڑھیں : اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ۔ ’’اے اللہ مجھے خوب اور بار بار توبہ کرنے والوں (والیوں) میں اور خوب اچھی طرح طہارت حاصل کرنے والوں (والیوں) میں شامل فرمادے۔‘‘ (ترمذی)
خواتین اپنے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو سکھائیں کہ گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھا کریں: بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلٰی اللّٰہِ۔ ’’میں اللہ کا نام لے کر باہر قدم نکال رہا ہوں (یا باہر قدم نکال رہی ہوں) اور میں نے اللہ ہی پر بھروسہ اور اعتماد کرلیاہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کانام لینے سے ایک تو یہ فائدہ ہوگا کہ عورت اور مرد، لڑکا اور لڑکی، جو بھی گھر سے نکلے گا وہ سوچے گا کہ ہم جس غرض سے گھر سے نکل رہے ہیں وہ مقصد اور غرض یا کام جائز ہے یا نہیں؟ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ نکلتے وقت اللہ تعالیٰ اسے یاد آجائے گا اور جس کام کے لیے بھی اور جہاں بھی جانے کا اس نے ارادہ کیا ہے وہ ہر جگہ اور ہر کام میں اللہ کو اس کی مرضیات اور اس کی شریعت کے مطابق عمل کرنے کو نہیں بھولے گا۔
مسجد میں داخل ہونے کے لیے پہلے دایاں پیر رکھیں اور پڑھیں: اَللّٰہُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ۔ ’’اے اللہ میرے لیے اپنے فضل و کرم کے دروازے کھول دے۔‘‘ اس طرح نمازی، دنیا اور آخرت دونوں کے لیے اللہ کی رحمت کے دروازے کھلنے کی تمنا اور آرزو کا اظہار کرتا ہے اور اللہ کی رحمت کا طلب گار بن کر اس سے اس کی رحمتیں مانگتا ہے۔
مسجد سے نکلتے وقت پہلے بایاں پیر نکالیں اور پڑھیں: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ۔ ’’اے اللہ میں تجھ سے تیرے فضل و کرم اور طیب و حلال روزی کی بھیک مانگتا ہوں۔‘‘ خواتین اگر نماز پڑھنے یا کسی اور ضرورت سے مسجد میں جائیں تو ان کو بھی شعور کے ساتھ مسجد میں داخل ہوتے وقت اور نکلتے وقت یہی دعائیں پڑھنا چاہیے۔
لڑکیاں فجر کی نماز سے فارغ ہوگئیں اور لڑکے بھی مسجد سے گھر آگئے تو مائیں ان کو تلاوت کرنے کو کہیں اور یہ بھی سمجھا دیں کہ بہت سی تلاوت کے بجائے تھوڑی کریں مگر ترجمہ کے ساتھ تلاوت کریں۔ خواتین خود بھی جب تلاوت کریں تو شعوری تلاوت کا اہتمام کریں اور جب ناشتہ تیار ہوجاتا ہے تو خواتین بچوں، لڑکوں اور لڑکیوں کو یاد دلاتی ہیں کہ بسم اللہ کرکے کھانا شروع کریں، دائیں ہاتھ سے کھائیں اور اگر ایک ہی پلیٹ میں دوسرے بھی شریک ہوں تو ہمیشہ اپنے آگے سے کھائیں اور جب کھانا کھاچکیں یا ناشتہ کرچکیں تو پڑھیں:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجْعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔
’’ساری تعریفیں اور سارے شکریے اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم کو کھلایا، پلایا اور اپنے اطاعت گزاروں اور فرماںبرداروں میں شامل فرمایا۔‘‘
مائیں اپنی اولاد کو یہ بھی سمجھائیں کہ کھڑے ہوکر کھانا، چلتے ہوئے کھانا، تکیہ لگاکر کھانا، دنیا پرستوں یا مغروروں کی طرح کھانا یا کھاتے وقت بغیر ضرورت باتیں کرنا، اسلامی تہذیب کے خلاف ہے۔ وہ اپنی اولاد کو بتائیں کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
اِنِّیْ اٰکُلُ کَمَا یَاْکُلُ الْعَبْدُ۔
’’میں اس طرح ادب سے بیٹھ کر کھانا کھاتا ہوں جیسے غلام کھاتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ آقا ہے، اس کا دیا ہوا رزق اس کے سامنے پوری شانِ بندگی کے ساتھ کھاتا ہوں۔‘‘ بندگی، بے چارگی اور عبدیت کا اظہار کھاتے وقت بھی ہونا چاہیے اور تکبر و غرور سے ہر آن اپنے کو محفوظ رکھنا چاہیے۔
خواتین جب کسی سواری سے کہیں جائیںتو اس پر بیٹھتے وقت اللہ اکبر کہیں اور جب وہ چلے یا آپ اسے چلائیں تو کہیں:
بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرِیْہَا وَمُرْسَاہَا۔
’’اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا اور ٹھہرنا۔‘‘
اور پھر پڑھیں:
سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ہٰذَا وَمَاکُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ، وَاِنَا اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ۔
’’پاک ہے وہ ذات اور وہ ہستی جس نے ہمارے لیے اس سواری کو مسخر کردیا۔ حالاںکہ ہم اس کو اللہ کی مدد کے بغیر اپنا تابع نہیں کرسکتے تھے اور ہم یقینا اپنے رب ہی کی طرف پلٹنے والے ہیں۔‘‘
(اس دعا میں بھی کس خوبصورتی سے توحید اور آخرت کی طرف ذہن کو متوجہ کیا گیا ہے)۔
مسلمان خواتین خود بھی مسنون دعاؤں کا اہتمام کرتی ہیں اور اپنے بچوں کو بھی دعائیں یاد کراتی ہیں اور ان کا ترجمہ بھی سکھا دیتی ہیں۔ مثلاً چھینک آئے تو: الحمدللہ کہیں۔ تعجب ہو تو سبحان اللہ کہیں۔ کسی کا کوئی کارنامہ سنیں یا دیکھیں تو ماشاء اللہ کہیں۔ کوئی احسان کرے تو جزاک اللہ کہیں۔ اذان سنیں تو اس کے الفاظ دہرائیں۔ کسی سے ملاقات ہو تو اسے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہیں اور کوئی دوسرا آپ کو سلام کرے تو آپ جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہیں۔ لڑکے اور لڑکیاں بھی اسی طرح سلام کریں اور جواب دیں۔ غیر مسلم کو بھی سلام کریں، مگر بہتر یہ ہے کہ ان کو ہدایت کی دعا دیں اور ہدَاکَ اللّٰہ کہیں۔