دانت قدرت کا انمول عطیہ ہیں، ان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ تمام مشروبات اور غذائیں منہ ہی کے راستے ہمارے معدے میں پہنچتی ہیں۔ تقریباً تمام بنی نوع انسان دانتوں کی افادیت سے واقف ہیں اور اپنے اپنے طریقہ کار کے مطابق دانتوں کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں لیکن ان تمام افراد میں بہت کم لوگ ہیں جو دانتوں کے علاوہ مسوڑھوں کی موزوں صحت پر بھی توجہ دیتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے ایک تجزیے کے مطابق انسانوں میں دانتوں کی بیماریاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ دنیا کا کوئی حصہ بھی دانتوں کے امراض سے محفوظ نہیں ہے۔ بہت سے علاقے ایسے بھی ہیں جہاں بچوں کی آدھی آبادی اور بڑوں کی پوری آبادی دانتوں کی بیماریوں سے دوچار ہے۔ لیکن مسوڑھوں کی عام بیماری جوانی میں دانتوں کے گرنے کے بجائے دانتوں کے نقصان کا باعث ہوتی ہے۔ اس کا خاتمہ بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے معدے میں پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
دانتوں کی صفائی کی طرح مسوڑھوں کی حفاظت بھی ضروری ہے اور ان کا روزانہ خیال رکھنا چاہیے۔ صحت مند دانت مسوڑھوں کی بافتوں کے ذریعہ جبڑے کے ساتھ مضبوطی سے جڑے رہتے ہیں۔ ناخنوں کی اندرونی سطح کی مانند دانتوں کے نوکیلے سرے بھی مسوڑھوں کے اندر نصب ہوتے ہیں۔ دانتوں کے سرے آپس میں بہت قریب قریب ہوتے ہیں تاکہ غذا بیکٹیریا اور خاک کے ذرات دانتوں کے درمیان پھنسنے نہ پائیں لیکن ان کے باوجود دانتوں کے درمیان خوراک کے ذرات رہ جاتے ہیں، جن سے مسوڑھے خراب ہوسکتے ہیں۔ اس لیے دانتوں کی حفاظت کے ساتھ مسوڑھوں کی روزانہ صفائی پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ جب مسوڑھے خراب ہوتے ہیں تو ان میں کمزوری کے باعث خلا پیدا ہوجاتا ہے۔ جس میں غدا کے مزید ٹھہرنے کے باعث زیادہ نقصان کا خطرہ ہوتا ہے اور ان خلاؤں میں بیکٹیریا کی نشو و نما بہت تیزی سے ہوتی ہے۔ مسوڑھوں کے انفیکشن کی دوسری قسم پائیوریا ہے جس کے معنی مسوڑھوں میں پیپ کا پڑجانا ہے۔ مسوڑھوں کے اس انفیکشن کا بروقت علاج نہ کروانے سے تمام دانت گربھی سکتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دانت لمبے نظر آنے لگتے ہیں جس کی وجہ یقینا دانتوں کی نشو ونما نہیں ہے۔ دانتوں کے ارد گرد کے امراض کی وجہ سے مسوڑھے پیچھے ہوجاتے ہیں۔ جس سے دانت بڑے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ کسان بھی گھوڑے کی عمر کا تعین دانت کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی کشت زاروں کے مالکان بھی اپنے غلاموں کی صحت کا جائزہ ان کے منہ میں جھانک کر کیا کرتے تھے۔ وہ اکثر انہیں مسوڑھوں کی صحت کے متعلق نصیحت کرتے تھے۔ ایک جدید تحقیق کے مطابق منہ میں دانتوں کے باعث یا کسی اور وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریاں منہ میں ہی ختم نہیں ہوتیں بلکہ مسوڑھوں کی بافتوں کی تباہی اور بیکٹیریا سے پیدا ہونے والے زہر معدے اور آنتوں کے راستے میں جذب ہوکر ان اعضاء کی خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ ایسی بیماریاں منہ میں پیدا تو ہوتی ہیں، لیکن منہ میں ہرگز ختم نہیں ہوتیں۔
مسوڑھوں کی خرابی کی بڑی وجہ غذا کے ذرات کا دانتوں کے درمیان پھنسا رہنا ہے۔ ان ذرات کے باعث دانتوں اور مسوڑھوں کے درمیان سخت میل جم جاتا ہے جو مسوڑھوں کو خراب کرتا ہے اوران میں سوجن کا باعث بنتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ دانتوں کی خرابی کی پہلی وجہ ہے۔ دانتوں پر میل کے جمنے سے بچاؤ کے لیے روزانہ دانتوں کی دو وقت صفائی ضروری ہے۔ دانتوں کا میل یا پلاک دیر تک جما رہے تو کیلشیم اور دوسرے معدنیات نمکیات کے باعث ٹار ٹاربن جاتا ہے۔ جسے اتارنے کے لیے کسی ماہر دنداں ساز کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں۔ کیونکہ خود ٹار ٹار کو کھرچنے سے مسوڑھے زخمی ہوسکتے ہیں۔ اس کی اہمیت کو لوگ نو سو سال سے سمجھتے آرہے ہیں اور یہ ایک آزمودہ اور تسلیم شدہ طریقہ کار ہے۔ لیکن اس کا استعمال بہت کم کیا جاتا ہے۔ ایک عرب سرجن (۱۰۵۰-۱۱۲۲ء) البیوکس نے اپنی کتاب De Chirugiaمیں دانتوں کے اندر اور باہر تین قسم کے پلاک کی پپڑیوں کے جمنے کا ذکر کیا، یعنی سبز پیلی اور کالی پپڑی، البیوکس نے اپنی کتاب میں دانتوں کو کھرچنے والے چودہ مختلف آلات کا بھی تذکرہ کیا ہے اور اس نے برملا کہا ہے کہ دانتوں پر جمنے والے ٹار ٹار اور پلاک کو اتارنے کے لیے اسے کھرچنے سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اگر انہیں دانتوں پر جما رہنے دیا جائے تو اس سے مسوڑھے خراب ہوسکتے ہیں۔ البیوکس کے مطابق دانتوں کی کھرچ کر صفائی سال میں دو دفعہ ضروری ہے اور یہی پلاک اور ٹار ٹار سے بچاؤ کا بہترین طریقہ ہے۔
مسوڑھوں کی حفاظت کا ایک اور بہترین طریقہ مسوڑھوں کی مالش ہے۔ جانور عموماً پھل، سبزیاں اور کچا گوشت کھاتے ہیں۔ ان سخت اور نرم اشیاء سے جانوروں کے دانتوں کی ورزش ہوتی رہتی ہے اور ان کے دانت مضبوط ہوتے ہیں۔ انسان چونکہ تہذیب یافتہ حیوان ہے، اس لیے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ پھل اور سبزیاں پکی ہوئی کھائی جائیں اور گوشت کو اچھی طرح گلا کر کھایا جائے۔ اچھی طرح گلی ہوئی خوراک اس قدر نرم ہوتی ہے کہ اس سے دانتوں اور مسوڑھوں کی پوری طرح ورزش نہیں ہوپاتی۔ مسوڑھوں کی ورزش کے لیے ان پر آہستگی اور نرمی سے برش کریں۔ اس کے علاوہ کھردرے کپڑے یا نمک سے مسوڑھوں کی بہت اچھی مالش کی جاسکتی ہے۔ مسوڑھوں کی ورزش کے یہ طریقے قدیم ترین ہیں اور ان کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی مسوڑھوں کی ورزش کا یہی طریقہ کار ہے کہ انہیں کھردرے کپڑے، نرم برش یا نمک کو انگلی پر لگا کر مالش کی جائے۔ خلال سے بھی مسوڑھوں کی صفائی کی جاسکتی ہے لیکن اس میں احتیاط بہت ضروری ہے تاکہ مسوڑھے زخمی نہ ہوجائیں۔ سوجھے ہوئے اور خراب مسوڑھے انگلی پر نمک لگا کر مالش کرنے سے بہتر ہوجاتے ہیں۔ تاہم پھر بھی دانتوں کے معالج سے مشورہ ضروری ہے۔
دانتوں کی بیماریوں کا ایک اور علاج انہیں جڑ سے نکلوا دینا ہے، لیکن ڈاکٹر تھیوڈر روز بیری جو واشنگٹن یونیورسٹی کے بیکٹیریالوجی کے پروفیسر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ تو اس بات کے مترادف ہے کہ سر درد کے مریض کو یہ کہا جائے کہ وہ سر درد سے نجات کے لیے اپنی گردن ہی کٹوادے۔‘‘