مشاہدہ

عفیفہ ارشاد

میں ہمیشہ سے ہوں، شاید میں کہیں بھی نہیں اور ہر جگہ ہوں۔ مجھے دنیا کو دیکھتے ہوئے زمانے بیت گئے ہیں۔ اس کے باوجود مجھ میں پیرانہ سالی کے اثرات دور دور تک ہویدا نہیں۔ میرے سامنے کئی نوخیز شگوفے پھوٹے، بہار کی مستی میں کلیاں اور پھول بن کر مہکے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان پیڑوں کی جڑیں تک دیمک کھا گئی۔ کئی عجائبات ِ عالم نے جنم لیا اور اپنی موت آپ مرگئے۔ میرے بے رحم ہاتھ نے کسی کے ساتھ رو رعایت نہیں برتی۔ میرا ارادہ کوہساروں کی طرح قوی اور حافظہ دریاؤں کی مانند وسیع ہے۔ میرے اصول اٹل ہیں۔ میں مٹنے کے لیے نہیں بنا۔ میں نے مٹانا ہی سیکھا ہے۔ میں خود سر ہوں اور میرا خیال تھا کہ غرور خدا کے بعد صرف مجھے ہی زیبا ہے۔ مگر یہ میری خام خیالی تھی۔ اب تو زمانے کا رنگ دیکھ کر میںنے اپنی رفتار کو تیز تر کردیا ہے اور کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ گویا میری مثال چراغ سحری کی سی ہے جو آخری بار زور سے بھڑک رہا ہو۔ زمانے کے روز افزوں بدلتے رنگ اور بڑھتی ہوئی ’’ڈراؤنی مخلوق‘‘ دیکھ کر مجھے اپنی کمر میں خم محسوس ہوتا ہے۔ میں گواہ ہوں کہ تہذیب نے غار سے لے کر ایٹم کے زمانے، بندر سے انسان بننے، جنت سے نکلنے اور دنیا کو دوزخ بنانے میں کیا کیا رخ بدلے، زمین کتنی دفعہ سرخ ہوئی اور فلک کتنی دفعہ سرخ آندھی سے لالہ زار ہوا۔ کنوؤں کا پانی کتنی مرتبہ کڑوا ہوا اور فاختائیں اب خاموش کیوں ہیں؟ زیتون کیوں مرجھا گیا اور سفید جھنڈوں کا کال کیوں پڑ گیا ہے؟ میں عینی شاہد ہوں کہ کس طرح زمین اپنی کوکھ سے اناج کے ڈھیر اپنے رکھوالوں کو دیتی تھی اور اب بھی دیکھتا ہوں کہ وہ کس طرح اپنی بے عزتی کا انتقام ببول کے کانٹے اگا کر لے رہی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ دریا اب کیوں خاموش نہیں رہتے، وہ یکایک چنگھاڑتے ہوئے وحشی جانور کیوں بن گئے ہیں۔ یہ بھی مجھ سے چھپا ہوا نہیں کہ پھولوں سے باس اور پرندوں سے ان کے نغمے کون چھین کر لے گیا ہے۔ مجھے تو یہ بھی علم ہے کہ اب انسان نہیں ملتے، آدمی نہیں ملتے، ’’ڈراؤنی مخلوق‘‘ کی ارزاں ترین قسم اپنی مکروہ ترین صورت میں ملتی ہے۔ اس بات سے میری کیا مراد ہے اس کے لیے میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں۔

…………

تھل پنجاب کے شمال مشرق میں ایک نیم ریگستانی علاقہ ہے۔ حکومت کی آباد کاری کی اسکیم سے پہلے یہ علاقہ جنگلی جانوروں اور پرندوں کا مسکن تھا۔ رات تو رات یہاں تو دن کو بھی جانوروں کا راج ہوا کرتا تھا۔ یہاں اب جانور نہیں رہتے مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چولے بدلنے سے بھی کبھی فرق پڑا ہے؟

کچھ ہی عرصے کی بات ہے کہ قفس، ہما، سیمرغ یہاں پر کثرت سے پائے جاتے تھے، پھر اچانک ہی — غائب ہوگئے۔ ان کی تلاش میں جنگل کے بادشاہ نے ایک کمیٹی بنائی کیوں کہ ان پرندوں کا جنگل کے باقی باسیوں پر کافی اثر تھا۔ سب ان کی عزت کرتے تھے مگر کمیٹی کی سرتوڑ کوششوں کے بعد بہت ساری ہڈیوں اور جلے ہوئے پروں کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ ’’گوہ‘‘ کی اطلاع کے مطابق جنگل میں اچانک ہی سوؤروں کی تعداد نہ صرف یہ کہ کچھ بڑھ گئی تھی، بلکہ ان کو ایک عجیب و غریب بیماری بھی لاحق ہوگئی تھی کہ وہ جگہ جگہ قے کرتے پھرتے تھے، مگر کچھ عرصہ بعد وہ ٹھیک بھی ہوگئے اور لومڑیوں کے خاندان سے ان کی دوستی بھی بڑھ گئی پورا جنگل ششدر تھا کیونکہ نیلی چڑیا اور ’’بھگیاڑ‘‘ بھی اکثر ان کے ساتھ دیکھے جاتے تھے اور تو اور بلبل کے نغمے بھی بدل گئے تھے وہ بھی نفع و نقصان کے راگ الاپنے لگی تھی۔

جنگل میں بہار کا موسم اپنے پورے شباب پر تھا اور دوسرے علاقوں کے درندے اور پرندے یہاں آئے ہوئے تھے۔ قاز بگلے کے یہاں ٹھہری تھی، پدی نے سارس کے یہاں ڈیرا جمایا تھا۔ بی فاختہ کے یہاں چیل، کوے اور عقاب مہمان بنے بیٹھے تھے۔ شیر کی کچھار میں گائیں اور بکریاں براجمان تھیں۔ نیولا سانپ کے ساتھ گھومنے گیا تھا۔ ریچھ کی رانی مکھی کے ساتھ گہری چھنتی تھی۔ غرض جنگل میں جشنِ بہاراں منایا جارہا تھا۔ انگور کی بیلیں واقعی رس چواتی تھیں اور چاندنی دیوانگی پیدا کرتی تھی۔ پرندوں کے چہکنے اور درندوں کی پرشور مگر مسرت آمیز آوازوں سے جنگل میں منگل تھا۔ جشن میں دو جانور سب سے جدا اور الگ تھلگ نظر آتے تھے۔ ایک تو مغرب سے آیا ہوا پریشان حال ’’چغد‘‘ اور دوسرا پرستان سے نکالا ہوا معزول راجہ ’’گدھ‘‘ جنگل کے باسیوں نے ان کا غم غلط کرنے کی کوشش کی اور آدھی دیتے دیتے پوری دے بیٹھے۔ اسی ہمدردی میں انہیں پتہ بھی نہ چلا کہ درختوں کے پتے اچانک زرد پڑنے لگے ہیں، پھول مرجھا گئے ہیں، ندی کا پانی گدلا ہورہا ہے۔ فضا میں ناگوار سی بو بڑھتی جارہی ہے، ہر کوئی اس دور دیس کے جنگل کے قصے سن کر مبہوت تھا۔ اسی سحر میں انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب سانپ اور نیولے کی دوستی ٹوٹی، اور دشمنی شروع ہوئی، کب شیر نے مہمان بکریوں کو لقمہ بنالیا، کب ریچھ نے شہد کی مکھیوں کی کمائی لوٹ لی، کب کونجیں ندی کے پانی پر نفرت کی نگاہ ڈال کر اڑگئیں۔ انہیںتو اس وقت خبر ہوئی جب فاختہ خون میں لت پت اچانک پنڈال میں آگری۔

فاختہ نے اپنی جاں کنی کی کیفیت میں پرندوں کو نصیحت کی کہ وہ دور دیس کے سپنے بننے کے بجائے اس اَن دیکھے جال کو توڑنے کی کوشش کریں جو کسی نادیدہ قوت نے ان کے گرد بن دیا ہے۔ سب پرندے، درندے ایک دفعہ تو بوکھلائے مگر پھر ’’دانا چغد‘‘ کے پاس گئے جس نے انہیں کسی بھی طریقے سے اپنے اپنے گھر مضبوط کرنے کو کہا۔ شام ہوئی تو ہر ایک نے اپنے گھر کو زیادہ مضبوط کرنے کے ارادے سے دوسرے کے گھر کی بنیاد کھرچنی شروع کردی۔ اپنا اپنا گھر مضبوط کرنے کے زعم میں انھوں نے جنگل کو کھوکھلا کرنا شروع کردیا۔ رات آئی جو ظلم کی طرح بے حد سیاہ تھی۔ یوں لگتا گویا خود بھی ماتم کررہی ہے۔ اب راتیں بے حد خوفناک ہوگئی تھیں۔ جنگل سے جانور روز بروز کم ہورہے تھے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی جانور غائب ہوجاتا اور خوف و ہراس میں دوگنا اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اس سارے قصے کے باوجود جانور مل کر نہ رہنا چاہتے تھے، وہ ایک دوسرے سے خوف زدہ تھے۔ مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ خود سے بھی خوفزدہ ہوگئے۔

کوّے نے ایک دوپہر اپنے گھونسلے سے یہ نظارہ دیکھا کہ دانا چغد اور معزول راجہ گدھ بیٹھے ہیں۔ چغد نے گدھ کے کان میں کوئی سرگوشی کی۔ گدھ یہ سن کی ایک ایسی ہنسی ہنسا کوّے کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ مگر تجسس کے ہاتھوں مجبور وہ دیکھتا رہا کہ کیا ہورہا ہے۔ گدھ اونچے ٹیلے سے نیچے اتر ا اس نے بیمار بھیڑ کی گردن میں چونچ گاڑ دی اور ایک بوٹی نوچ لی۔ کوّے نے اپنی آنکھیں بند کرلیں مگر اپنی فطرت کے مطابق کائیں کائیں کرکے اپنے ہم جنسوں کو اکٹھا نہ کیا۔ چند لمحوں میں نیم مردہ بھیڑ کی آنکھیں بھی راجا صاحب کے تنورِ شکم میں بھسم ہوچکی تھیں۔ دوچار بوٹیاں نوچ کر وہ چغد کی خدمت میں لے گیا اور دونوں نے ٹیلے کی طرف رخ موڑ لیا۔ کوّا دم بخود بیٹھا ساری کارروائی دیکھتا رہا اور پھر بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ اس پر یہ راز اچھی طرح افشا ہوگیا تھا کہ جنگل کیوں ویران ہورہا ہے؟ پرندے کیوں ختم ہوتے جارہے ہیں اور فضا میں خون کی بو کیوں محسوس ہورہی ہے۔ راجہ اور وزیر کیوں روز بروز کریہہ ہوتے جارہے ہیں۔

اس رات بہت تیز آندھی چلی، گھونسلے اجڑگئے۔ درخت ٹوٹ کر گرے، ندی کا پانی نامعلوم کیوں سرخ ہوگیا۔ ریت کے بگولوں کی وجہ سے پرند اندھے ہوگئے اور اتنی خوفناک آوازیں آتی رہیں کہ بہت سے نازک دل پرندوں کے دل پھٹ گئے۔ صبح کے وقت جب آندھی تھمی تو پورا جنگل ایک قبرستان بن چکا تھا۔ جانور زخموں سے چور نظر آرہے تھے۔ کوّا بھی زخمی حالت میں کچھ کھانے کی تلاش میں نکلا۔ جگہ جگہ پھرا مگر کچھ نہ ملا۔ ناگاہ اس کی نگاہ ایک زخمی کوّے پر پڑی اور دوسرے ہی لمحے اس کے دل کی جگہ پتھر آگیا اس نے مرتے ہوئے کوّے پر چونچ گاڑدی۔ اسی طرح کے عمل جگہ جگہ ہورہے تھے۔ شکار اپنے ہی ہم جنس تھے اور کہیں دوسروں پر دانت جمے ہوئے تھے۔ یہ لہو اور گوشت اندر جاتے ہی کوّے کی ماہیئت بدل گئی۔ اس نے دیکھا کہ اس کی گردن اچانک لمبی ہوگئی ہے اور آنکھیں چھوٹی اور کریہہ ہوگئی ہیں۔ ان آنکھوں نے اسے دکھایا کہ جنگل کے باقی جانوروں کا حال بھی یہی ہے ، کہیں اپنا چہرہ نہیں ہے، کہیں بازو، کہیں پر، کہیں دماغ، کہیں سوچیں، کہیں خیال، غرض کوئی بھی مکمل نہیں سب کا کوئی نہ کوئی عضو مختلف ہے اور جنگل کی یہ مخلوق سب سے زیادہ ہے مگر وہ اپنے سمیت اس مخلوق کو پہچان نہ سکا جس میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہورہا تھا۔

……………

یہ چہرے اور یہ جانور نما مخلوق تو محض علامتیں ہیں۔ وہ اس مخلوق سے واقف نہ تھا۔ مگر میں تو اس سے واقف ہوں کیوںکہ میں تو ازلی و ابدی ’’وقت‘‘ ہوں۔ دنیا کا یہ حال دیکھ کر میں کبھی کبھی خود کو تھکتا ہوا محسوس کرتا ہوں مگر انہی بے چہرہ مخلوقات میں ایک چہرہ ایسا بھی ہے جو اپنی اصل شکل میں پڑا اپنے آخری سانس گن رہا ہے ان مکروہ اور نامکمل ’’اجسام اور اشیاء‘‘ میں ایک ننھی منی فاختہ ابھی تک جاں کنی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ اس کا چہرہ، سوچیں، پر،سب کچھ اپنے ہیں وہ اڑ بھی سکتی ہے مگر اس کی نسل میں اضافہ فی الحال منقطع ہے۔ ایک آس کی ڈور سے میں اور وہ دونوں بندھے ہیں۔ ہم دل ہی دل میں اپنے خالق سے اپنی تعداد میں اضافے اور اپنی بقا کے لیے دعا مانگ رہے ہیں۔ میرا حوصلہ اس کی ننھی سی جان کو لڑتا دیکھ کر بڑھ جاتا ہے اور میری رگوں میں ایک بار پھر تازہ خون جوش مارنے لگتا ہے مگر اس کے باوجود فاختہ اور میں دونوں پریشان ہیں اور پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اس بے چہرہ نسل میں مسلسل اضافے کو دیکھ رہے ہیں، جس کی عادات اور شکل گدھ سے بہت مماثل ہیں۔ ہم فکر مند ہیں کیونکہ راجہ گدھ کی برادری بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146