مشترکہ خاندانی نظام

تمنا مبین اعظمی

اس میں کو ئی شک نہیں کہ اسلام نے نکاح کی ترغیب و حوصلہ افزائی کی ہے اور شریک سفر کے طور پر نیک و صالح بیوی اور شوہر کے انتخاب کو ترجیح دی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

عورت کا نکاح چار باتوں کے پیش نظر کیا جاتا ہے۔ عورت کی دولت، اس کے حسب و نسب، اس کے حسن و جمال ور اس کی دینداری۔ تو تم دیندار خاتون کو منتخب کر لے جائو ، تمھارے دونوں ہاتھ تر رہیں گے۔(بخاری)

دینداری کو ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ اسی رشتے سے ایک خاندان وجود میں آتا ہے،خاندان، جہاں ایک نئی نسل پرورش پاتی ہے،جہاں کے سکون پر انسان کی تمام تر دینی اور دنیاوی کار گزاری اورفلاح و کامیابی کا دارومدار ہوتا ہے۔اسلام ایک دیندار اور صالح خاندان کی تشکیل کرنا چاہتا کیونکہ خاندان سماج کی ایک یونٹ ہوتا ہے اسلامی معاشرہ تبھی وجود میں آسکتا ہے جب سب سے پہلے اسلامی خاندان وجود میں لانے کی تگ و دو کی جائے۔

کچھ اہم مقاصد یہاں بیان کیے جاتے ہیں:

نکاح کے اہم مقاصد میں عفت و عصمت کی حفاظت، مودت و رحمت اور سکون کا حصول، جائز طریقے سے جنسی خواہشات کی تکمیل اور یقینا نسل انسانی کی بقاء و پرورش ہیں۔یہ سارے مقاصد ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی اگر حاصل نہ ہو تو ازدواجی مسرت میں دراڑ پڑ سکتی ہے ۔

انسان کی ایک اہم خصوصیت اجتماعیت ہے۔ وہ خاندان، معاشرہ اور سماج سے کٹ کر تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ وہ قدم قدم پے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا محتاج ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپسی تعاون انسانی زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ پھر خونی اعتبار سے جس سے جتنا گہرا تعلق ہوتا ہے انسان اس کا اتناہی زیادہ محتاج ہوتا ہے۔ اسی سے خاندانی زندگی کی اہمیت واضح ہوتی ہے کیو نکہ خاندان سے وابستگی انسان کی ایک فطری ضرورت ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام خاندانی استحکام ، رشتوں کے لحاظ اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک پر زور دیتا ہے۔ قرآن میں قرابت داری کا پاس و لحاظ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا و بالوالدین احسانا و بذی القربی والیتامی و المساکین ( نساء: ۶۳)۔ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس کی خواہش ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور موت کو موخر کیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ رشتوں کو جوڑے (بخاری و مسلم)۔

خاندان کی قسمیں

۱۔ مختصر خاندان یا جسے Nuclear Family System کہا جاتا ہے ۔ یہ خاندان بیوی، بچوں اور ماں باپ پر مشتمل ہوتا ہے۔

۲۔ مشترکہ خاندان جو Joint Family System کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہندوستانی سماج میں یہ خاندان کی قدیم شکل ہے۔مشترکہ خاندان میں سارے بھائی اپنے بیوی بچوں اور ماں باپ کے ساتھ ایک ہی جگہ مل جل کر رہتے ، اس میں اکثر خاندان کے دوسرے لوگ خاص طور پر وہ بہنیںاور ان کے بچے بھی شامل ہوتیں جو کسی وجہ سے شوہر کے ساتھ نہیں رہتیں، پھر بھایئوں کی بہوئیں اور پوتے پوتیاں بھی شامل ہوتے۔اس قسم کے خاندانی نظام میں مشترکہ طور پر معاشی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے، سب کے کھانے، پینے اور رہنے کا انتظام ایک گھر میں ہوتا۔مشترکہ خاندانی نظام کے اگرچہ کچھ فوائد ہیں لیکن نقصانات کا دائرہ زیادہ وسیع ہے۔ ہندو نظام زندگی کا یہ پسندیدہ طرز معاشرت ہے کیونکہ سمرتیوں میں باپ کی وفات کے بعد بڑے بیٹے کو جائداد کا تنہا وارث قرار دے کر چھوٹے بھائیوں کو اس پر منحصر کر دیا جاتا۔ سب سے پہلے مشترکہ خاندانی نظام کے فوائد کا ایک جائزہ لینا ضروری ہے۔

مشترکہ خاندان کے فوائد

۱ اتحاد و اجتماعیت۔ اسلام میں اتحاد و اجتماعیت کی جو اہمیت ہے وہ اظہر من الشمش ہے خود ارکان اسلام جس پر اسلام کی عمارت قائم ہے اتحاد کا مظہر ہیں۔ مردوں کے لیے نماز باجماعت کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا، زکوۃ کے ذریعے امراء و فقراء کے درمیان کی تفریق مٹانے کی کوشش کی گئی، ایک ہی مہینے دنیا بھر کے مسلمانوں پر روزہ فرض کرکے اجتماعیت کی تعلیم دی گئی، حج تو ملت اسلامیہ کی عالمی وحدت کا مظہر ہے۔ جس طرح اسلام پوری ملت کے اتحاد پر زور دیتا ہے ، اسی طرح ایک خاندان کے افراد کو بھی مل جل کر رہنے کی تاکید کرتا ہے۔ چنانچہ خاندانی استحکام و اتحاد کے لیے مشترکہ خاندان موزوں تر ہے۔ ایک ہی ساتھ رہنے، سہنے ، کھانے پینے اور دکھ سکھ بانٹنے سے یہ تعلق اور مستحکم ہو جاتا ہے۔خاندان کا یہ اتفاق مخالفین کے لیے رعب و دبدبے کا باعث ہوگا۔

۲- مالی استحکام۔ مشترکہ خاندانی نظام کا ایک فائدہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایک ساتھ کاروبار کرنے سے آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور دولت کا ارتکاز ہوتا ہے، خاص طور پر زراعت پیشہ اور کاروباری خاندان میں زمین و جائداد بٹوارے سے بچ جاتی ہیں۔

۳ بوڑھے والدین اور خاندان کے کمزور افراد کی نگہداشت۔ اسلام میں والدین کی خدمت کی جو اہمیت ہے وہ اس بات سے ثابت ہوتی ہے کہ قرآن میں بارہ مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید وارد ہوئی ہے، حدیث میں بھی والدین کی نگہداشت کرنے کا حکم ملتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ماں باپ کی دیکھ بھال اور نگہداشت بہت اچھے سے ہو جاتی ہے کیونکہ ساری اولاد ایک ہی چھت کے نیچے ہوتے ہیں اور والدین بھی سارے بچوں کے ساتھ رہنے سے سکون محسوس کرتے ہیں۔

اسلام یتیم، بیوہ اور خاندان و سماج کے کمزور لوگوں کی دیکھ بھال کا حکم دیتا ہے اور اسے اجر و ثواب کا باعث بتاتا ہے۔ مشترکہ خاندان میں یہ دیکھ بھال بہت اچھے سے ہو جاتی ہے اور جو لوگ معاشی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں ان کی بھی گزر بسرباآسانی ہو جاتی ہے۔

۴ بچوں کی تعلیم و تربیت: مشترکہ خاندان میں چھوٹے بچوں کی تربیت دادا،دادی اپنی کہانیوں اور دوسرے طریقوں سے کردیتے جس سے بچے اپنے خاندان کی روایت،بڑوںچھوٹوں کا احترام کرنا سیکھ لیتے، ساتھ ہی بچوں کو پالنے میں بھی آسانی رہتی اور ماں باپ بہت سی ذمہ داریوں سے بچے رہتے۔

مشترکہ خاندان کے نقصانات

یہ تو وہ فوائد ہیں جو مشترکہ خاندانی نظام سے منسوب کیے جاتے ہیں لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ مشترکہ خاندان کی ناہمواریاں اور نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ شرعی نقطہ نظر سے اس نظام میں بڑی بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں، ساتھ ہی اس میں بہت سے نفسیاتی، معاشرتی، جنسی اور معاشی مفاسد بھی شامل ہیں۔

نفسیاتی نقصان

مشترکہ خاندانی نظام میں عموما بڑے بھائی کی حکمرانی ہوتی ہے ، بڑے بھائی کی حکمرانی کی وجہ سے اس کی بیوی اور بچوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی جس کی وجہ سے دوسرے بھایئوں اور دیورانی جٹھانی کے درمیان نفرت پیدا ہونے لگتی جو بہت سے نفسیاتی نقصانات کا سبب بننے لگتی ہے۔ اس نظام خاندان کے نفسیاتی نقصان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ نجی زندگی کا تحفظ اور پرائیویسی نہ ہونے کی وجہ سے افراد بے اطمینانی کی کیفیت سے دوچار ہو جاتے کیونکہ انسان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسی جگہ ہو جہاں وہ آزادی سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہ سکے۔اس کے ساتھ ہی مشترکہ خاندانی نظام عدم تسکین کے اعتبار سے بھی نفسیاتی نقصان کا باعث ہو تا ہے۔ بہت سارے لوگوں کے ہر وقت آمد و رفت سے میاں بیوی کو ساتھ رہنے کے مواقع کم ہی مل پاتے جس سے رشتوں میں دوری رہتی اور شرم و حیا کا نام دے کر ان کے گھلنے ملنے پر پابندی عائد کر دی جاتی۔

معاشرتی نقصان

معاشرتی اعتبار سے مشترکہ خاندان اپنے اندر بڑی نا ہمواریاں رکھتا ہے۔ کھانے پینے کے معاملات میں اپنی پسند اور ترجیحات سے دستربردار ہونا پڑتا ہے، مائیں اپنے بچوں کی پسندیدہ چیزیں نہیں بنا سکتیں، افراد خانہ کے درمیان تعلقات کے خراب ہونے کے امکان زیادہ بڑھ جاتے۔ ان سب کے ساتھ جھوٹ، فریب، چوری، غیبت، ٹوہ میں لگے رہناوغیرہ وغیرہ کے لیے یہاں فضا زیادہ سازگار ہوتی۔کیونکہ اکیلے سامان منگوا کر کھانا اس نظام میں سخت ناپسندیدہ سمجھا جاتا اس لیے چوری چھپے اس کا انتظام کیا جاتا جس سے افراد کے درمیان عجیب طرح کی خودغرضی کی فضا قائم ہونے لگتی۔ عورتیں ایک دوسرے کی برائیوںاور شکایتوں میں لگی رہتیں۔ کام کاج کو لے کر کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا، کوئی دن بھر کام کرتا رہتا اور کوئی فرصت میں رہتا ہے۔

معاشی نقصان

اگرچہ مشترک خاندان میں میں کمزور افراد کی بھی پرورش ہوجاتی لیکن اس نظام میں گھر کے بہت سارے لوگ نااہل اور کاہل بن جاتے کیونکہ ان کی ضروریات زندگی کی تکمیل ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ ایسے گھروں میں کمانے والے کم اور کھانے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ کمزوروں اور مجبوروں کے ساتھ تعاون کرنے کو اسلام مستحن قرار دیتا ہے لیکن اگر یہ صحت مند اور ہٹے کٹے لوگوں کو نااہل بنا دے تو یہ اسلام کے رویے کے منافی ہے۔ اس کے علاوہ مشترک خاندان میں چونکہ مال کو مشترکہ طور پر خرچ کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہر شخص اسے غیر کا مال تصور کرکے بے دردی سے استعما ل کرتا ہے۔ چنانچہ سامان کا ضیاع زیادہ ہوتا ہے اور سامان جلدی خراب بھی ہو جاتا ہے۔

دینی نقصان

اس نظام خاندان سے مربوط افراد کے لئے بعض دینی تقاضوں کی تکمیل مشکل ہو جاتی جیسے فرض نمازوں کی قضاء خاص طور پر فجر کی نماز میاں بیوی کے لئے انجام دینا مشکل ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی پردہ کے احکام پر عمل آوری ممکن نہیں ہو پاتی کیونکہ بہت سے غیر محرموں کا ہر وقت گھر میں آنا جانا رہتا جو بہت سے مفاسد کی وجہ بن سکتا ہے خاص طور پر نوجوان کزن کی ایک دوسرے سے بے تکلفی برائی کا باعث بن سکتی ہے۔

مشترکہ خاندان کے دینی نقصان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مختلف افراد کی کمائی کا میعار الگ الگ ہوتا ہے لیکن مشترکہ کمائی سے جب کوئی جائداد لی جاتی ہے تو بعد میں تقسیم جائداد کے وقت سب کو برابر ملتی۔ جس میں ممکن ہے کہ زیادہ کمائی والے کو کم ملے اور کم کمائی والے کو زیادہ جو انصاف کے خلاف ہے اور ناحق طریقے سے غیر کا مال کھانے کے مترادف ہے۔

تربیتی نقصان

اپنے گھر میں والدین اپنے طریقے سے بچے کی تربیت کرنا چاہتے ہیں ان کے کھانے پینے، سونے، پڑھنے ، لکھنے اور کھیلنے کا وقت متعین کرنا چاہتے ہیں جو مشترکہ خاندان میں ممکن نہیں ہو پاتا اور خاص طور پر تعلیم یافتہ والدین کے لیے کوفت کا باعث ہوتا۔

اسلام کا مطلوبہ خاندانی نظام

قرآن و سنت اور عمل نبی اکرمﷺ سے جداگانہ خاندانی نظام کی تائید ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی تمام بیویوں کے حجرات الگ الگ تھے۔ حضرت علیؓ کی شادی جب فاطمہؓ سے ہوئی تو وہ رخصت ہو کر الگ گھر میں گئیں باوجود اس کے کہ علیؓ آپﷺ کی کفالت میں بچپن سے تھے اور فاطمہؓ آپﷺ کی چہیتی بیٹی تھیں لیکن ان کے رہنے کے لیے الگ رہائش کا انتظام کیا گیا۔ اسلام کا مطلوبہ پردہ جداگانہ خاندانی نظام میں ہی ممکن ہے۔ بیوی کے حق سکنی کے تعلق سے فقہاء نے جو وضاحتیں کی ہیں ان سے بھی جداگانہ خاندان کی تائید ہوتی ہے۔

جہاں تک والدین کی نگہداشت، کمزوروں کی دیکھ بھال اور چھوٹے بھائی بہنوں کی کفالت کا مسئلہ ہے تو وہ مسلمان کی ذمہ داری ہے اور والدین کی ذمہ داری تو فرض ہے جس سے کسی بھی حال میں منھ نہیں موڑا جا سکتا۔معاشی مشکلات کا جو مسئلہ ہے اس کا بھی حل اسلام کے نظام نفقات اور نظام وراثت میں ہے ضرورت اس کو سمجھنے اور لاگو کر نے کی ہے کیونکہ اسلام کا ہر نظام ایک دوسرے سے مربوط ہے ایک کو نظر انداز کرکے دوسرے کا حل نہیں نکالا جا سکتا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146