کسی بھی ملک میں استحکام کے لیے صالح معاشرے کا ہونا ناگزیر ہے اور ایک صالح معاشرہ تب ہی وجود میں آ سکتا ہے جب اس میںـ’ صالح خاندان‘ موجود ہوںاور ان میں رہنے والے ایک دوسرے کے حقوق و فرائض سے واقف ہوں ۔ قرآن و حدیث میں اس کی طرف مکمل طور سے رہنمائی کی گئی ہے مگر ہم نے ان کو نظر انداز کر دیا ہے جس کی وجہ سے آج سماج میں بے شمار مسائل کھڑے ہوگئے ہیں۔ ایک طرف جہاں مغربی تہذیب و تمدن اور جدید ٹکنالوجی اس پر اثرانداز ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف مسلمان بذاتِ خود اس سلسلے میں اسلامی احکام و ہدایات سے غفلت برت رہے ہیں۔
اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک نعمت خاندان کا ہوناہے ۔یہ انسان کے لیے لطف و محبت ،شناخت اور پشت پناہی کا ذریعہ بھی ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں شعبِ ابی طالب میں آپؐ کے ساتھ آپؐ کا پورا خاندان موجود تھا، اگرچہ یہ لوگ ایمان نہیں لائے تھے مگر انھوں نے آپ ؐکا ساتھ چھوڑنا گوارا نہیں کیا۔ (سیرتِ ابن ِہشام:۱؍۲۲۱)۔ اس کا مطلب ہے کہ خاندان فرد کے لیے ایک ڈھال ہے، ایک مضبوط دفاعی قوت ہے جو کسی بھی ضرورت کے وقت کام آتی ہے۔
خاندان ’نکاح‘ کے ذریعے وجود میں آتا ہے۔ اس کو مستحکم اور پائیدار بنانے کے لیے شریعت نے کچھ اصول و قواعد بتائے ہیں اور خاندان کے ہر فرد کے لیے کچھ حقوق متعین کیے ہیں۔ایک خاندانی نظام کیسا ہونا چاہیے؟اس کا نمونہ خود آپؐ نے لوگوں کے سامنے پیش کردیا۔آپ نے اپنی تمام ازواجِ مطہرات کو الگ الگ مکان رہنے کے لیے دیے۔ حتی کہ کچن کے معاملات کو بھی علیحدہ رکھا جب کہ اگر سب کا کھانا ایک جگہ بنتا تو جدا جداکھانا پکنے کی بہ نسبت کم خرچ آتا۔
آپؐ نے تمام ازواجِ مطہرات کا نفقہ بھی الگ الگ متعین کر دیا تھا۔جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے :
’’ حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ بنی نضیر کے باغ کی کھجوریں بیچ کر اپنے گھر والوں کے لیے سال بھر کی روزی جمع کر دیا کرتے تھے ‘‘(صحیح بخاری:۷۵۳۵)۔
حضرت فاطمہؓ آپؐ کی سب سے چہیتی بیٹی تھیں ان کی شادی آپؐ نے حضرت علیؓ سے کی جو آپؐ کو بہت عزیز تھے ،اس کے باوجود شادی کے بعدان کو الگ مکان دیا۔آپؐ نے ان کو اپنے ساتھ نہیں رکھا جب کہ حضرت علیؓ کی پرورش بھی آپؐ نے ہی کی تھی۔
اگر صحابہ کرام کے طور طریقوں پر نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی اکثریت مشترکہ خاندانی نظام کے بجائے جداگانہ نظام کے تحت رہا کرتی تھی۔قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ اسی طرف اشارہ کرتی ہے:
’ ’اندھے پر،لنگڑے پر،بیمار پر اور خود تم پر کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے گھروں سے کھا لو یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی مائوں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچائوں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنی خالائوں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی کنجیوں کے تم مالک ہو یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ تم پر اس میں بھی کوئی گناہ نہیں کہ تم سب ساتھ بیٹھ کر کھائو یا الگ الگ۔پس جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کر لیا کرو۔ یہ دعائے خیر ہے جو با برکت اور پاکیزہ ہے اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ،یوں ہی اللہ تعالی کھول کھول کر تم سے احکام بیان فرما رہا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔‘‘(النور:۱۶)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں والدین، اولاد اور دوسرے رشتہ دار الگ الگ گھروں میں رہا کرتے تھے۔حضرت عبدالرحمان بن ابوبکرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ نہیں رہا کرتے تھے اس کے باوجود والدین کی خدمت کا پورا خیال رکھتے تھے اور اس سلسلے میں ان کی ناراضی بھی برداشت کیا کرتے تھے۔
عہدِ حاضر میں مشترکہ خاندانی نظام کو بہتر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ خصوصا برِ صغیر میں الگ الگ گھروں میں رہنے کوناپسند کیا جاتاہے۔مگر کیاواقعی یہ نظام صحیح ہے؟ اسلام اس کے بارے میں کیا تعلیم دیتا ہے اور اس میں کیا فوائد و نقصانات ہیں ؟ اس پر عموما توجہ نہیں دی جاتی ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام سے مراد وہ گھر ہے جہاں ساس ،سسر ،بیٹے ،بیٹیاں اور بہویں وغیرہ ایک ساتھ رہتے ہوں۔ممکن ہے بعض لوگوں کو مشترکہ خاندانی نظام میں بہت سے فوائد نظر آئیں جیسے آپسی تعاون کا فروغ، خاندانی رشتوں کی پاسداری ، بزرگوں سے بچوں کا استفادہ اور تربیت ، لوگوں کا دکھ سکھ کے موقع پر کام آنا وغیرہ۔لیکن یہ ساری چیزیں الگ رہ کر بھی انجام دی جا سکتی ہیں۔ویسے بھی اسلام میں کسی چیز کے بارے میں ا س کی اچھائی یا برائی کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اس کے صحیح یا غلط ہونے کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے ۔ ورنہ شراب میں بھی کچھ نہ کچھ فوائد ہیںمگر اس سے شراب حلال نہیں ہو جائے گی۔کیوں کہ مجموعی طور پر اس کے نقصانات زیادہ اور فوائد کم ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ اس کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا مسلم معاشرے کو کرنا پڑ رہا ہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں ۔
بے پردگی اور نامحرموں سے اختلاط
اسلام نے انسانی زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی کی ہے۔اس نے معاشرتی زندگی کے لیے واضح ہدایات دی۔ ہیں ان میں سے ایک پردہ اور نامحرم سے اختلاط کو روکنا بھی ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’اے نبی! اپنی بیویوں،بیٹیوںاور مومنوںکی عورتوںسے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادر ڈال لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں پریشان نہ کیا جا سکے‘‘(الاحزاب:۹۵) اسی طرح کے احکام سورۃ النور آیت ۱۳ میں بھی آئے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے یہاں پردے کا تصور عورتوں اور لڑکیوں کو تعلیم اور نوکری سے روکنا ، زبردستی شادی کرانا اور اجنبیوں سے پردہ کرانے تک محدود ہے۔ نامحرم قریبی رشتے داروں،دیور ،جیٹھ ، کزنس، اور دوستوں وغیرہ سے پردہ کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں اس طرح کے رشتہ دار عموما ساتھ رہا کرتے ہیں۔ ایک لڑکے کا پورا خاندان اس کے لیے تو محرم ہے لیکن اس کی بیوی کے لئے شوہر کے خاندان کے زیادہ تر لوگ نامحرم ہیں، اب اگر وہ سارے وقت پردے میں رہے تو خود اس کو مشکل ہو گی اور سسرال والے بھی ناراض ہو جائیں گے کہ’ دلہن‘ نامعقول لگتی ہے۔۔۔گھلتی ملتی نہیں ہے۔۔۔ مغرور ہے یا ملانی ہے وغیرہ وغیرہ۔اس لیے کسی انسان کو حق نہیں کہ بیوی کو ایسے گھر میں رہنے پر مجبور کرے جہاں غیر محرم رہتے ہوں، چاہے وہ اس کے کزنس یا بھتیجے بھانجے ہی کیوں نہ ہوں۔حدیث ِ نبوی ہے:
’’رسولﷺ نے فرمایا!اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو،ایک انصاری نے عرض کیا:یا رسول اللہ حمو کے بارے میں آپؐ کا کیا حکم ہے؟آپؐ نے فرمایا کہ حمو تو موت ہے۔‘‘(صحیح بخاری:۲۳۲۵)
حمو سے مراد شوہر کے وہ عزیز و اقارب ہیں جن سے عورت کا نکاح ہو سکتا ہے۔شوہر کے رشتے داروں سے خلوت نشینی،اجنبیوں کے ساتھ خلوت میں رہنے سے کہیں زیادہ خطر ناک ہے اور اسی وجہ سے مشترکہ خاندانی نظام میں اس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اسی وجہ سے آپؐ نے اس پر اتنی تاکید کی ہے جیسا کہ اس حدیثِ نبوی سے معلوم ہوتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا :
’’جن عورتوں کے شوہر گھر پر موجود نہ ہوں،ان کے یہاں مت جائو کیوں کہ شیطان تمہارے اندر خون کی طرح رواں رہتا ہے۔‘‘(ترمذی)
خلوت کا خاتمہ
مشترکہ خاندانی نظام میں خلوت کے ان اصولوں کو اپنانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے جس کی قرآن و حدیث میں تعلیم دی گئی ہے ۔ارشادِ ربانی ہے:
’’اے ایمان والو!تمہارے غلام اور وہ لڑکے جو حدِ بلوغ کو نہیں پہنچے ہوں،تین وقت میں تم سے (تخلیہ میں آنے کی) اجازت حاصل کر لیں۔ایک نمازِ فجر سے پہلے ، دوسرے ظہر کے وقت جب تم آرام کے لئے کپڑے اتار لیتے ہو اور عشاء کے بعد،تین وقت تمہارے پردے کے ہیں۔ان کے علاوہ نہ تم پر کوئی الزام ہے نہ ہی ان پر۔تم سب آپس میں ایک دوسرے کے پاس بہ کثرت آنے جانے والے ہو، اللہ اس طرح کھول کھول کر اپنے احکام تم سے بیان فرما رہا ہے۔اللہ تعالی پورے علم اور کامل حکمت والا ہے۔ ‘‘(النور:۵۸)
جب کہ مشترکہ خاندانی نظام میں صورتِ حال عموما یہ ہوتی ہے کہ ایک ہی کمرے میں میاں بیوی،بچے اور بسا اوقات دوسرے لوگ بھی رہتے اورسوتے ہیں۔جس کے نتیجے میں کتنے مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ اس طرح کے گھروں میں شرم و حیاکی وجہ سے نمازیں یا تو چھوڑ دی جاتی ہیں یا قضا ہو جایا کرتی ہیں۔لیکن اگر الگ گھر یا کمرے ہوں تو ان تمام مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔اسی وجہ سے شریعت نے بیوی کو یہ حق دیا ہے کہ وہ الگ رہائش کا مطالبہ کر سکتی ہے ۔ارشادِ ربانی ہے:
’’اور عورتوں کو رہائش فراہم کرو جو تمہاری حیثیت کے مطابق ہو اور ان کو تکلیف نہ پہنچائو کہ وہ تنگ آجائیں۔‘‘(الطلاق:۶)
مفسرین اور فقہائے کرام نے اس سے مراد صرف ایک کمرے کی چھت کو نہیں لیا ہے بلکہ اس سے مراد ایک الگ گھر ہے جس میں عورت آزادی سے رہ سکے اور اپنی نجی زندگی گزار سکے۔
باہمی سوچ کا مختلف ہونا
اللہ تعالی نے انسانوں کو ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے اور سب کو الگ الگ مقاصد اور صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’اللہ تعالی ہی نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور باہم فرق مراتب رکھا تا کہ تم کو عطا کردہ چیز کے بارے میں آزمائے،بے شک تیرا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور وہ یقینا بخشنے والا اور مہربان بھی ہے۔‘‘ (الانعام:۱۶۶)
پھرمشترکہ خاندانی نظام میں یہ کیسے ممکن ہے کہ سب کا مقصد اور سب کی پسند ایک ہو ؟ہر ایک اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق کھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا چاہتا ہے اور یہ اس کا بنیادی حق ہے ۔اب اگر اس کو اپنا بنیادی حق ہی نہ ملے تو گھر میں سکون اور خوشی کیسے میسر ہوسکتی ہے؟ایک گھر میں بیس پچیس افراد ہوں اور کئی بہویں مل کرساس کی نگرانی میں کھانا پکاتی،صفائی کرتی ہوںاور کیا مجال کہ بیٹا یا بہو منہ کھول سکے؟ تو اس کا نتیجہ عموما یہ ہو تا ہے کہ دلوں میں کینہ و بغض بھرا ہوتا ہے اور ایک دوسرے پر اعتراضات،لعن طعن،تنقیدیں کی جاتی ہیں۔اس طرح گھر کا سکون درہم برہم ہوجاتا ہے۔پھر یہ بھی کہ مشترکہ خاندانی نظام میںعموماسارے فیصلے بڑے کرتے ہیں۔اس سے دوسروں کے حقوق کی حق تلفی ہوسکتی ہے اور رشتوں میں دوریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
باہمی تعلق پر منفی اثر
ہمارے یہاں ایک بڑے طبقہ میں لڑکوں کی شادی ہی اس غرض سے کی جاتی ہے کہ کوئی گھر چلانے والی آجائے جوسب کی خدمت کرے،ساس سسر کا دھیان رکھے۔اب اگر بہو تعلیم حاصل کرناچاہے یا کوئی کتاب ہی پڑھنے لگے تو گھر میں طوفان برپا ہو جاتا ہے ۔آج کا دور کمپیوٹر،انٹرنیٹ کا دور ہے۔گھر کے تمام افرادکمپیوٹر چلا سکتے ہیں،حتی کہ بچے بچیاں اس پر گیم کھیل سکتے ہیں مگر بہو صرف کمپیوٹر’پوچھنے‘ کے لیے ہوتی ہے۔
بہوپر ساس سسر کی خدمت کے لیے زور دیا جاتا ہے ۔ مگر خدمت و اطاعت کا حکم ماں باپ اور شوہر کے لئے ہے نہ کہ ساس سسر کے لیے۔ان کی خدمت بیٹوںکی ذمہ داری ہے۔ مگر انھیں بہوئوں سے ہی خدمت کرانے کا شوق ہوتا ہے ۔یہ تو تب ہی ممکن ہوگا جب ساس سسر بہو کو بیٹی کا درجہ دیں اور کسی خدمت کی توقع نہ کریں۔کیوں کہ اولاد سے تو کوئی زیادتی نہیں کرتا ہے اور نہ ہی امید رکھتا ہے کہ بیٹے، بیٹیاں خدمت کے لیے ایک ٹانگ پر کھڑے رہیں۔جب بہو کو بیٹی کا درجہ ملے گا تو وہ بھی بے لوث محبت کے ساتھ ساس سسر کو والدین کا درجہ دے گی ا ور خوشی خوشی خدمت کرے گی۔
بہت سے’ نیک لوگ‘ بھی اپنی بیوی کو ماں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں اورخود ایک طرف ہوجاتے ہیں۔پھر ساس کو بھی حکومت کرنے میں مزا آتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کا بتنگڑبنا لیتی ہیں۔اپنی بیٹی وہی غلطی کرے تو نظر انداز کر جاتی ہیںاور بہو نے اس سے کم درجہ کی ہی غلطی کر دی تو شہر بھر کا موضوعِ گفتگو بنا دیتی ہیں۔جس سے ساس بہو میں سرد جنگ چھڑ جاتی ہے اور گھر کا ماحول خراب ہوجاتا ہے۔
بدگمانی کی کثرت
مشترکہ خاندانی نظام میں اکثر ساس بہو اور نند کے درمیان بدگمانی،غیبت اور تجسس وغیرہ کی فضا چھائی رہتی ہے اورہر آنے جانے والوں سے ایک دوسرے کی شکایت اور لگائی بجھائی کا کام ہوا کرتا ہے۔ اس سے میاں بیوی کے رشتے میں دراڑ آجاتی ہے اور کبھی کبھی پورا خاندان متاثر ہو جاتا ہے اور یہ کہ گھریلو معاملات یا باتوں سے باہر کے لوگ یا رشتے دار وغیرہ واقف ہو جاتے ہیں جس کے بسا اوقات خطرناک نتائج نکلتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں جو رہنمائی کی ہے، وہ صرف مردوں کے لیے نہیں ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :
’’اے ایمان والو !بہت بدگمانیوں سے بچو۔ یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔ اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو،بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والامہربان ہے۔‘‘(الحجرات:۱۲)
خاندان کا ایک ذات پر منحصر رہنا
عموما مشترکہ خاندانی نظام میں ایک کمانے والا ہوتا ہے اور دس بیٹھ کر مفت کی روٹیاں توڑتے ہیں۔ان گھروں میں ایسے افراد ہوتے ہیں جو کام کر سکتے ہیں مگر کرنا نہیں چاہتے۔مغربی ترقی یافتہ ممالک میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔ایسے خاندانوں میں ایک عجیب و غریب مفروضہ ہوتا ہے کہ کسی بے کار آدمی کی شادی کر دو تو وہ خود ہی ’سیٹ ‘ہو جائے گا لیکن اگر اس میں ناکامی ملی تو خاندان کے دوسرے لوگوں کو اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
ورنہ جب تک والد زندہ رہتے ہیں خرچ برداشت کرتے ہیں کیوں کہ ان کو بہر حال اولاد سے محبت ہوتی ہے۔ پھر ان کے انتقال کے بعد بھائیوں میں بٹوارا ہو جاتا ہے اور لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔آپسی تعلقات ختم ہو جاتے ہیںکیوں کہ بڑا بھائی تمام افراد کا خرچ اٹھانا نہیں چاہتا اور گھر والوں سے الگ ہونے کی کوشش کرتا ہے۔
بعض دفعہ مالی تنگی کی وجہ سے لوگ دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں اور سالہا سال باہر رہتے ہیں،بیوی کو دیور یا قریبی رشتے داروں کے رحم و کرم پر چھوڑ جاتے ہیں۔ جس سے معاشرے میں سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں پھر گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ آج کل اس طرح کی مثالیں کثیر تعداد میں نظر آتی ہیں۔ اسی وجہ سے حضرت عمرؓ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہؓ سے پوچھ کر چار مہینہ سے زائد کسی کو جہاد جیسے عظیم فریضے میںجانے سے ممانعت کردی تھی۔
جائیداد اور ترکہ کی عدمِ تقسیم
مشترکہ خاندانی نظام میںایک خرابی یہ ہے کہ اس میں جائیداد یا ترکہ اور ذرائع آمدنی کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی،بلکہ بسا اوقات تو تقسیم ہی نہیں ہوتی ہے پھر جب سالوں بعد تقسیم کا عمل ہوتا ہے تو ایک دوسرے سے بغض و عداوت،دشمنی،حسد،تہمت اور الزام تراشی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اور ساری خیر سگالی،تعاون اور ایک دوسرے سے ہمدردی کے جذبہ کی ہوا نکل جاتی ہے۔
اللہ تعالی نے میراث کا نظام اپنے علم و حکمت کی بنیاد پر نافذ کیا ہے اور لوگوں کو اس میںاحکامِ الٰہی اور شریعت کے احکام کی پابندی کرنے کا حکم دیا ہے۔ تاکہ تمام حق داروں کو ان کا حق مل جائے۔ وصیت کے سلسلے میں ارشادِ ربانی ہے :
’’یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘(النساء:۱۳،۱۴)
بچوں پر منفی اثرات
مندرجہ بالا تمام باتوں کا بچوں پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ان کی تعلیم و تربیت صحیح ڈھنگ سے نہیں ہو پاتی ہے کیوں کہ جب ایک ہی گھر میں مختلف سوچ رکھنے والے ہوتے ہیں تو بچے کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیںکہ کس کی بات صحیح ہے اور کس کی غلط؟اس سے ان کی خود اعتمادی مجروح ہوتی ہے اور آگے کی زندگی میں ان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ بعض دفعہ بچوں کے بگڑنے میں وجہ یہ رہتی ہے کہ گھرکے بزرگ مرد یا خواتین، بچوں کو ڈانٹنے یا مارنے نہیں دیتے اور ان کی غلطیوں کی چشم پوشی کرتے ہیں،اس سے بچے بگڑ جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس طرح کے خاندانی نظام میں بچوں،بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملات زیادہ ہوتے ہیں اور اس میں قریبی رشتے داروں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے جو ان کے درمیان رہا کرتے ہیں کیوں کہ بچے،بچیاں اجنبی لوگوں کے مقابلے میں مانوس لوگوں سے زیادہ گھلتے ملتے ہیں۔ماں باپ بھی ساتھ رہنے والوں پر اندھا اعتماد کرکے انھیں ان کے پاس چھوڑ دیا کرتے ہیں جس کا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑتا ہے۔
ایک مسئلہ اس طرح کے نظام میں بھی یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی کمائی کم ہوتی ہے ،خودان کے لیے اور ان کی بیوی بچوں کے لیے بھی مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ وہ اپنے ہی گھر میں اجنبی بن جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ زیادہ کمائو پوت کی مان جان بھی زیادہ ہوگی۔اس سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں کہ ان کی اہمیت یا قدر صرف اس وجہ سے نہیں ہوتی ہے کہ ان کے والد نہیں کما رہے ہیںیاکم کما رہے ہیں۔ اس وجہ سے ان میں دوسروں سے حسد، بغض اور نفرت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔
اسلام نے ان وجوہ کی بنا پر مشترکہ خاندانی نظام کی حوصلہ شکنی کی ہے اور آسان طرزِ زندگی اپنانے پر زور دیا ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب خاندان چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی شکل میں رہیں، چاہے یہ حجرہ(فلیٹ) کی شکل ہی میں کیوں نہ ہو جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا۔
بہت ممکن ہے کہ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ خیال آئے اگر مشترکہ خاندانی نظام کو نہ اپنایا جائے تو والدین کہاں جائیں گے؟ ان کے حقوق کی ادائیگی کیسے ہوگی؟کیوںکہ ایسا کرنے سے وہ بالکل تنہا اور بے سہاراہو جائیں گے؟والدین یہ سوچیں گے کہ’’ بیٹا تو ہمارے ہاتھ سے نکل گیا‘‘مگر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ والدین کے حقوق کو ادا کرنے کا مشترکہ اور غیر مشترکہ خاندانی نظام سے تعلق نہیں ہو تا ہے،بلکہ اس کا تعلق خوفِ خدا اور اللہ اس کے رسول کی اطاعت و فرمابرداری سے ہے۔یہ لازمی نہیں ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام ہی میں اولاد اپنے والدین کا حق ادا کر سکتی ہے اور جداگانہ نظام میں نہیں۔
آج کل بآسانی ایسے فلیٹ بنائے جا سکتے ہیں جن میں سب کے لیے الگ الگ یونٹ ہوں۔ ایسے میں والدین اور دوسرے رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی بھی ہو جائے گی اور مشترکہ خاندانی نظام کے مضر اثرات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ورنہ عموما دیکھا یہ جاتا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں والدین ایک کونے میں پڑے رہتے ہیں اور سب لوگ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالے مگن رہتے ہیںیا پھر باری لگا دی جاتی ہے کہ اتنے سے اتنے دن ایک بہو سنبھالے گی اور بقیہ دن دوسری بہو۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہویں بس کام ٹھکانے لگاتی ہیں جس سے حساس طبیعت والے والدین ایک الگ ہی کرب سے گزرتے ہیں۔ ویسے بھی آج کے دور میں عموما بچے جہاں بڑے ہوئے اور نوکری مل گئی تو ماں باپ کو تنہا چھوڑ کر چل دیتے ہیں اور بیوی کو بھی پاس بلا لیتے ہیں۔ مروتا ً والدین کوپوچھ بھی لیا تووہ حالات کو سمجھتے ہوئے اجنبی جگہ یا اپنے گھر کی یادوں کا بہانا کرکے ٹال دیا کرتے ہیں۔جب کہ اولاد کا والدین پر یہ حق ہے کہ وہ ان کے ساتھ نیک اور اچھا سلوک کریں۔ ان کی اطاعت کریں اور ان کا احترام کریں۔ ارشادِ ربانی ہے:
’’ہم نے انسان کو ہدایت دی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتائو کرے۔‘‘(الاحقاف:۵۱)
آپؐنے والدین کے ساتھ بدسلوکی کو کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے اور جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اس وقت ان کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے کیوں کہ اس وقت ان کو سہارے کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔
توضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن مجید ، سیرتِ رسول اور صحابہ کرام کی زندگی کے حوالے سے اسلامی خاندانی نظام کے تصور کو دنیا کے سامنے عملی شکل میں پیش کیا جائے ۔ اس لیے کہ اس وقت دنیا کو اسی کی ضرورت ہے۔lll