میرا ضمیر میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔میں سمجھ گیا کہ آج پھر اس پر مشورے کا بھوت سوار ہے, مشورہ دئیے بغیر اب وہ چین سے نہیں بیٹھے گا۔کمبخت کے مشورے بھی بڑے غضب کے ہوتے ہیں۔میں نے پوچھا ’’کیوں بھئی ضمیر صاحب,کوئی خاص بات ؟۔‘‘ہمیشہ کے مقابلے تیور کڑے کر کے اس نے کہا ’’بیوقوف آدمی…یہ جو کپڑے تُو سی رہا ہے, ان کی ضرورت آدمی کو ایک سال میں,ایک یا دو ہی بار پیش آتی ہے۔جبکہ تیرے پیٹ کا جہنم ایک دن میں تین بار دہک جاتا ہے۔تُوتو صرف نام کا دانش ہے۔ گھامڑ کہیں کا۔‘‘
عظیم سبق
غسل کرتے ہوئے مجھ پر بارہا یہ انکشاف ہوا ہے کہ پانی اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے بھلے گندا ہی کیوں نہ ہو جائے ,لیکن اپنے مشن (صفائی)کو پورا کر کے ہی دم لیتا ہے۔ہر آدمی غسل کرتا ہے مگر اس
عظیم سبق کو سمجھ نہیں پاتا ۔
داعی
’’کافی عرصہ سے محنت کر رہے ہو۔محنت بار آور ہوئی بھی کہ نہیں؟‘‘ ’’ ہوئی کیوں نہیں؟ بیشک ہوئی ہے۔ پہلے لوگ میرے سامنے من مانیاں کرتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔مجھ سے خوف کرتے ہیں اور مجھ سے چھپ کر من مانیاں کرنے لگے ہیں۔ لوگوں کو اوپر والے کا خوف نہیں ,میری زبان سے ڈرتے ہیں۔ مجھ سے کترا کر نکل جا تے ہیں۔میں ان کی آنکھوں میں چبھنے لگا ہوں۔ میرے خلاف سازشیں ہونے لگی ہیں۔میرے ہر کام میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ مجھ سے ملنے والوں کو روک رہے ہیں,انہیں بھڑکا رہے ہیں۔میری کردار کشی کی جارہی ہے۔ الزام تراشے جا رہے ہیں۔ ہر طرح سے ستایا جارہا ہے ۔ حتیٰ کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی مجھ سے ملنے سے روک رہے ہیں… افسوس!ایسا لگ رہا ہے کہ میں اپنے مشن میں فیل ہو گیا ہوں…میں ان کے دلوں میں خوفِ خدا پیدا نہیں کر پایا‘‘…’’یہ تو پیغمبرانہ صفت ہے ,میرے بھائی۔ فکر مت کرواور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اللہ نیکیوں کو ضائع نہیں کرتا۔تمہاری نیکیوں کا اجر اس کے پاس محفوظ ہے… ا چھا بتائو آ گے کیا سوچا ہے؟‘‘ ’’نقلِ مکانی کی سوچ رہا تھا محترم آپ کی باتیں سن کر ,میں نے اب ارا دہ بدل دیا ہے۔‘‘
ڈھال
’’سچ سچ بتائورقیہ,کل بازار میں کسی غیر لڑکے کے ساتھ,ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بے حیائی کا مظاہرا کیوں کر رہی تھیں۔تم اتنی بے شرم کب سے ہو گئیں ؟گھر سے کالج کے لئے نکلتی ہو اور پڑھائی کے بہانے گل چھرّے۔۔۔‘‘’نہیں ۔۔نہیں چاچا یہ غلط ہے ۔ الزام ہے سرا سر۔۔‘‘ ’’کیا بکتی ہو؟تم نے کل جو برقع اوڑھ رکھا تھا,وہ میں نے تمہیں سعودی سے خاص طور پر منگوا کرتحفہ میں دیا تھا,کیا میں نہیں پہچا نو نگا؟وہ تم ہی تھیں‘‘۔نہیں چاچا وہ میں نہیں تھی۔میرا یقین کیجئے۔وہ میری سہیلی رمبھاؔتھی ,کمارؔانکل کی بیٹی ۔ اگر آپ چاہیں تو تصدیق کر سکتے ہیں۔رمبھاؔایک ڈرامہ کے لئے کہہ کر برقع مجھ سے مانگ کر لے گئی تھی‘‘
فلسفہ
یونیورسٹی کیمپس پروفیسر صاحب خطاب کر رہے تھے۔’’تعلیم کے میدان میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام نا پختہ اور نا قص ہے۔ مثلاً:معمولی حساب کتاب کو چھوڑ کرمیتھس کے نام پر جو کچھ بھی سکھایا جا رہا ہے،وہ ایک عام آدمی کو زندگی بھر کسی کام نہیں آتا۔
تاریخ کے نام پر جو بھی پڑھایا جا رہا ہے, وہ یاد تک نہیں رہتا۔عورتوں اور مردوں کو ایک ہی طرح کی تعلیم دی جاتی ہے۔حالانکہ عورتوں اور مردوں کے میدانِ عمل، ضرورتیں،عادتیں فطرتیں بالکل الگ ہیں۔اس کے باوجود ان دونوں اصناف کو ایک ہی طرح کی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کر ناکہاں کا انصاف ہے؟
تعلیم حاصل کرنے کے بعد مرد بیکار ہوئے جا رہے ہیں۔ اور عورتیں کمائی کر نے لگی ہیں۔مجمع میں سے کسی نے پوچھا ’’آپ کون صاحب ہیں؟‘‘ پروفیسر صاحب نے بڑے طمطراق سے سینہ تان کر جواب دیا ’’میں اسی یونیورسٹی کا پروفیسر ہوں۔ میرے ساتھی پروفیسرس میری، مبنی بر حق باتوں کو میرا پاگل پن گردانتے ہیں۔ مجھے پاگل سمجھ کر,ظالموں نے پاگل خانے میں شریک کروادیا ہے۔ بڑی مشکلوں سے پاگل خانے سے فرارہوکر آیا ہوں…ہا ہا ہا ہا۔‘‘اتنے میں پاگل خانے کی گاڑی قریب آکر رکی اور پاگل پروفیسربھاگ کھڑا ہوا۔lll