میری شادی کو چھ سال ہوچکے ہیں اور میرے دو بیٹے ہیں۔ ایک بچہ نارمل ہے اور دوسرا معذور اور ذھنی پسماندہ ہے۔ اس بچے کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔ دونوں بچوں میں توازن بھی نہیں رکھ سکتی۔ کہیں گھومنے پھرنے جاتی ہوں تو بچے کی وجہ سے مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔ گھر میں مہمان آتے ہیں، تب میں بچے کی وجہ سے بور ہو جاتی ہوں۔ میرے ذہن پر یہ بچہ ہر وقت سوار رہتا ہے۔ کسی کام میں دلچسپی نہیں لے سکتی۔ مجھے کیا کرنا چاہیے۔
٭ آپ کاخط پڑھ کر میںحیران رہ گئی۔ بچے تو عطیہ خداوندی ہیں۔ بچے کی معذوری میں اس بے چارے کا کوئی قصور نہیں۔ ماں ہونے کے ناتے آپ کو بچے سے زیادہ پیار ہونا چاہیے۔ آپ گھر سے باہر دونوں بچوں کو ساتھ لے کر جاتی ہیں تو بڑا بچہ ظاہر ہے اچھلتا کودتا ساتھ چلے گا جب کہ اس سے ایک سال چھوٹا بچہ ٹانگ کی کمزوری یا معذوری کی وجہ سے اس کا ساتھ نہیں دے سکے گا بلکہ آہستہ آہستہ لنگڑا کر چلے گا۔ اس وقت آپ کا برتاؤ پیار بھرا ہو نا چاہیے۔ آپ یہ نہ کہیں: ’’تم نے میری زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ میں، تمہارے ساتھ آئندہ نہیں آؤںگی۔ تم ہو ہی نرا مصیبت خانہ۔ بڑے بھائی کو دیکھو کیسے بھاگ رہا ہے۔ بس تھک گئے! ٓنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
بلکہ آپ اسے یوں حوصلہ دیجئے، ’’سیر کا مزہ تو آہستہ آہستہ چلنے میں آتا ہے۔ اب دیکھو بڑا بھائی جلدی تھک جائے گا او رتم بالکل نہیں تھکوگے۔ آہستہ آہستہ چلنے سے تھکن نہیں ہوتی۔ تم تو بہادر بچے ہو۔ تھک جاؤگے تو میں اٹھالوں گی۔‘‘
آپ بڑے بچے سے بھی کہیے: ’’تم تیز بھاگے تھے اس لیے تھک گئے۔ اب تم کو بھی تھوڑی دیر کے لیے مجھے گود میں اٹھانا پڑے گا۔‘‘
یہ کہنے سے آپ دونوں بچوںمیں برابری کا احساس اجاگر کریںگی ورنہ آپ کا بڑا بچہ بات بات میں چھوٹے بھائی سے کہے گا: ’’تمہاری تو ٹانگ ہی خراب ہے۔ تم کیسے کھیلوگے؟ تم تو بھاگ بھی نہیں سکتے، تم تو ہو ہی نکمّے۔‘‘
آپ بچوں کو پیار سے رکھئے۔ بڑے بچے کو سائیکل لے کر دیں تو اس سے کہیں ’’چھوٹے بھائی کو ساتھ بٹھاکر سیر کرائے۔ یہ بڑے بھائی ہمیشہ چھوٹے بھائی سے محبت کرتے ہیں اور ان کے کام بھی کرتے ہیں۔‘‘ یہ چند سال آپ کے بچے کے لیے بہت ہی اہم ہیں۔ اگر یہ وقت احساسِ کمتری اور نفرت، حسد کے بغیر گزر جاتا ہے تو پھر آپ کا بچہ اپنی معذوری کو محرومی نہیں بنائے گا بلکہ بڑے حوصلے سے زندگی گزارنے کا عزم کرے گا۔ آپ کا رویہ اسے مضبوط بنا سکتا ہے۔ معذور بچوں کے والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھائیں۔ ان میں زندگی کی امنگ پیدا کریں۔ دوسروں کے رویے سے دل برداشتہ ہونے کے بجائے انہیں اپنے طرزِ عمل سے یقین دلائیں کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے انسان ہیں اور زندگی بھرپور طریقے سے گزار سکتے ہیں۔ اب تو ایسے بچوں کے لیے اسکول بھی کھل گئے ہیں۔ ماؤں کے لیے آسانی ہے۔ بچوں کو خاص تربیت دی جاتی ہے، جس سے معذور بچے بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے معذور لوگوں نے ایسے ایسے کام سر انجام دیے ہیں جو عام لوگ نہیں کرسکے۔ آپ بچوں کو ایسے لوگوں کی کہانیاں سنائیے۔
گھر میںمہمان آئیں تو آپ پریشان نہ ہوں بلکہ بچے سے کہیں کہ وہ مہمانون کا حال چال پوچھے۔ ان کے پاس بیٹھے۔ اسے علیحدہ نہ کیجئے بلکہ اسے حقیقت کا سامنا کرنے دیجئے۔ بچے کو قاعدہ، کوئی کتاب یا کھلونا دے کر مہمانوں کے بچوں کے ساتھ گھلنے ملنے دیجئے۔ دراصل آپ خود پریشان ہوگئی ہیں۔ آپ ماں ہیں۔ جتنی اچھی تربیت آپ کر سکتی ہیں، کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ بچے کی غذا میں پروٹین، نمکیات اور وٹامن زیادہ کیجیے۔ ڈاکٹر سے مشورہ کر کے اس کی غذا کا خاص خیال رکھئے تاکہ بچے کی صحت ٹھیک رہے۔
کپڑے دھونے سے میرے ہاتھوں میں جلن ہو جاتی ہے۔ بعض دفعہ ہاتھ سرخ ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہیَ میںنے مختلف قسم کے واشنگ پاؤڈر بھی استعمال کیے ہیں مگر جب بھی میں کپڑے دھوتی ہوں، دو تین دن میرے ہاتھوں میں جلن اور درد رہتا ہے۔ کپڑے دھونے بھی ضروری ہیں۔ اس کا کوئی علاج بتائیے؟
آپ کی جلد زیادہ حساس ہے۔ اس لیے کپڑے دھونے سے اس میں جلن ہو جاتی ہے۔ آج کل نت نئے واشنگ پاؤڈر آرہے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے کیمیائی اجزاء شامل ہیں جو حساس جلد کے لیے مضر ہیں۔ بعض خواتین کے ہاتھ سرخ ہوکر سوج جاتے ہیں اور ان کی جلد بھی اکھڑنے لگتی ہے۔ بعض دفعہ انفیکشن اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ایگزیما کی بیماری تنگ کرنے لگتی ہے۔
پچھلے دنوں ایک واشنگ پاؤڈر اسٹور پر نظر آیا تھا جو خاص طور پر ایسی خواتین کے لیے تھا جن کی جلد حساس ہو، مگر وہ مارکیٹ سے جلد ہی غائب ہوگیا۔ صابن اور واشنگ پاؤڈر ایسے کیمیکل سے تیار کیے جاتے ہیں جو کپڑے کے اندر سے میل کچیل نکال دیں اور اندر تک جاکر صفائی کرسکیں۔ اگر اس میں انگلی کی مقدار ضرورت سے زیادہ ڈال دی جائے تو ہاتھ کی جلد متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ کپڑے کی عمر بھی کم ہوجاتی ہے۔
آپ اچھی قسم کا ڈیٹر جنٹ یا صابن خریدیے تاکہ آپ کے ہاتھ خراب نہ ہوں۔ ایک دو قسم کے صابن بدل کر دیکھئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کپڑوں کی دھلائی ایک وقت میں نہ کیجئے بلکہ تھوڑے تھوڑے کپڑے دھوئیے۔ روزانہ استعمال کے کپڑے اگر روز دھوئیں تو کپڑوں کا ڈھیر نہیں لگے گا، آپ آسانی سے دھوسکیںگی۔ کپڑوں کو ہاتھ سے دھوئیں تو ان کو پہلے صابن لگا کر ایک گھنٹے کے لیے رکھ دیں۔ اس کے بعد دھوئیں، کپڑے جلدی صاف ہوں گے، دستانے پہن کر زیادہ کپڑے نہیں دھوئے جاتے۔ آج کل گرمی کا موسم ہے۔ ہاتھ جلدی پسیج جاتے ہیں، لہٰذا کپڑے دھونے کے بعد آپ تھوڑا سا زیتون کا تیل یا کوئی بھی کریم ہاتھوں پر مل لیا کیجئے تاکہ ہاتھ نرم رہیں اور آپ کی شکایت دور ہوگی۔
گری کا موسم شروع ہے۔ میرے اور بچوں کے گرمی کے موسم میں گرمی دانے نکل آتے ہیں۔ کبھی کبھی چھپاکی بھی نکل آتی ہے۔ مصفی خون چیزیںکیا ہیں؟ جن سے خون صاف ہو اور گری کے موسم میں یہ تکلیف نہ ہو۔
گرمی کے موسم میں عموماً گرمی دانے، پت، پھنسیاں اور چھپاکی کی شکایت ہو جاتی ہے۔ پہلے زمانے میں خواتین بہار کے موسم ہی سے اس کا سد باب گھریلو طور پر کرلیتی تھیں۔ نیم کی کونپل (چھوٹے چھوٹے نرم پتے) لے کر تھوڑی سی کالی مرچ کے ساتھ پیس کر صبح پلانے سے خون صاف ہوتا تھا۔ نیم کی کڑواہٹ سے بچے اور بڑے گھبراتے ہیں۔ آپ یوں کریں گیارہ بارہ دانے عناب کے اور تیس دانے منڈی کے لے کررات کو ایک پیالے میں بھگو دیں۔ صبح مل چھان کر بچوں کو تھوڑا تھوڑا پلا دیجئے۔ دس بارہ دن پلائیے۔ عناب کاشربت کسی اچھے دوا خانے سے خریدیے۔ چھوٹے بچوں کو عناب کا شربت پانی میںملا کر پلائیے۔
پودینہ کا موسم ہے۔ آپ ایک مٹھی بھر پودینے کے پتے رات کو ہلکے گرم پانی میں بھگودیں۔ اور سوتے وقت پودینے کا پیالہ کپڑے یا چھلنی سے ڈھانک کر اوس میں رکھ دیں۔ صبح نہار منہ اسے چھان کر پی لیجیے۔ اس سے رنگت صاف ہوگی، جگر خون کو صاف کرے گا اور دانے نہیںنکلیں گے۔
ہرا دھنیا، پودینہ اور لہسن ملا کر چٹنی پیس لیجیے۔ یہ چٹنی کھانے کے ساتھ رکھیے۔ اس کے استعمال سے خون صاف ہوگا۔ اسی طرح آپ صبح ایک گلاس نیم گرم پانی میں شہد ایک چمچہ اور آدھا لیموں کا رس ملا کر پی لیا کیجئے، بہت مفید ہے۔ شیشم کادرخت گھر کے آس پاس لگا ہو تو آپ آٹھ دس پتے لے کر دھو لیجیے۔ رات کو بھگو دیجئے، صبح اس پانی میں ایک چمچ شہد ڈال کر پی لیجیے۔ ایک ڈیڑہ ہفتہ پینے سے خون صاف ہو جائے گا۔ عناب کا شربت بچوں کے لیے ازحد مفید ہے۔ گرمی کے موسم میں دہی استعمال کیجیے۔آلو کا رائتہ، گھیا کدو کا رائتہ یا کھیرے ککڑی کا رائتہ بنائیے، اس میں زیرہ، نمک، مرچ، پودینہ ڈالیے۔ بچے شوق سے کھاتے ہیں۔ زیادہ گوشت کھانے سے بھی جسم میں حدت ہو جاتی ہے۔ کریلے ہفتے میں ایک دو بار پکاکر کھائیے۔ جو کے ستو بچوں کو پلائیے۔ یہ ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ لیموں کا شربت استعمال کیجیے۔ تخم ریحان یا تخم ملنگا منگا کر گھر میں رکھیں۔ ایک چمچ پانی میں بھگو دیا کیجیے۔ ایک گھنٹہ بعد اس میں دودھ اور چینی ملا کر آپ خود بھی پیجئے، بچوں کو پلائیے۔
املی اور آلو بخارے کا شربت بھی بہت مفید ہے۔ گھریلو طور پر آپ یہ چیزیں استعمال کیجیے اور گرمی کی شدت سے بچئے۔
گرمی سے بچاؤ کے لیے کئی چیزیں لکھ دی ہیں، آپ ان میں سے اپنے لیے جو بھی مناسب سمجھتی ہیں، استعمال کیجیے۔ نیم، شیشم، عناب، منڈی، پودینہ وغیرہ میں سے کوئی بھی چیز ایک ہفتہ استعمال کر کے دیکھئے۔ گرمی کے موسم میں بھی یہ مصفی خون ادویہ ہیں جن کو گھریلو طو رپر دوسری خواتین بھی استعمال کرسکتی ہیں۔
گنے کا رس دوسرے مشروب کی نسبت بہتر ہے۔ اس کا ایک گلاس پینے سے معدے کی تیزابیت میں کمی ہوتی ہے۔ بدن کا تناؤ اور قبض دو رہوتا ہے۔ پیشاب کھل کر آنے سے خون کا دباؤ بھی گھٹ جاتا ہے۔ تھوڑی سی گنڈیریاں صبح شام چوسنے سے جگر کی گرمی، ہاتھ پاؤں کا جلنا اور مزاج کا چڑچڑا پن دور ہو جاتا ہے۔ بچوں کو پیپسی اور کوکا کولا کے بجائے اگر گنے کا رس پلانے کی عادت ڈالیں تو ان کی صحت بہتر ہوسکتی ہے۔ بیماری کے بعد کی نقاہت دور کرنے کے لیے گرمی کے موسم میں گنے کی گنڈیریاں اور گنے کا رس سب سے بہتر مشروب ہے۔ گرمی سے سر چکرائے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا آجائے اور اعصابی تھکن ہو تو گنڈیریاں صبح و شام کھانے سے طبیعت سنبھل جاتی ہے۔
گرمی کے موسم میں املی کا پتا کھانے سے گرمی کی حدت دور ہوکر دل کو فرحت ملتی ہے۔ پیاس بجھ جاتی ہے۔ املی ۵۰ گرام پکی ہوئی خریدیے اور صاف کر کے تھوڑے سے پانی میں بھگو دیجئے۔ املی پھول جائے تو ہاتھ سے مل کر ریشے اور بیج نکال دیجئے۔ اس میں تھوڑی چینی یا گڑ شکر ملائیے۔ نمک مرچ ذائقہ کے لیے ملا کر استعمال کیجیے۔ گرمی کے موسم میں املی کا شربت پینے سے متلی اور قے رک جاتی ہے۔ صفراوی بخار میں یہ شربت پیا جائے تو بخار ٹوٹ جاتا ہے۔ چالیس گرام املی ایک بڑے شیشے کے گلاس میں ڈال کر پانی ملا دیجیے۔ تین گھنٹے بعد پانی نتھار کر چینی یا مصری یا شکر ملا کر شربت پیجئے۔ گرمی کی شدت سے دل کی دھڑکن بڑھ جائے تو وہ بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔