مصر میں جمہوریت اور عوام کاقتل عام

شمشاد حسین فلاحی

جمہوری یا ڈیما کریٹک نظام حکومت پوری دنیا کی پہلی پسند اور عالم مغرب کی ترجیح اول ہے۔ عالمی طاقتیں پوری دنیا میں جمہوری نظام کی مبلغ ہی نہیں خادم بھی ہیں۔ وہ دنیا بھر کے عوام کو حق رائے دہی کے ہتھیار سے لیس کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ مگر ان طاقتوں کی جمہوریت پسندی اور عوامی نمائندگی کی جدوجہد کی سطحیں اور پیمانے الگ الگ ہیں۔ خاص طور پر جمہوریت اور عوام کے حق رائے دہی کا اطلاق عالم عرب اور مسلم دنیا پر نہیں ہوتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے عوام امریکہ اور استعماریت مخالف ہوسکتے ہیں۔ جب کہ حکمراں ان کے اشاروں پر ناچنے والے ہیں۔ اس لیے وہاں جمہوریت اور ڈیما کریسی کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ عراق میں صدام حسین کی فوجی آمریت سے عراقی عوام کو نجات دلانے کے لیے ایک طویل جنگ لڑی گئی اور اب بھی جاری ہے مگر سیریا میں جہاں بشار الاسد نے دس لاکھ عوام کا اب تک قتل کر ڈالا ہے وہاں ان طاقتوں کو نہ تو عوام کے لیے جمہوری حقوق کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ بشار الاسد کا قتل عام عوام مخالف نظر آتا ہے۔

۲۰۱۱ میں عالم عرب میں جمہوری حقوق کی بازیابی کے لیے تانا شاہوں اور فوجی آمروں کے خلاف جب تحریک شروع ہوئی توعالمی طاقتوں کا خون خشک ہونے لگا اور انہوں نے اس جمہوری تحریک کی حمایت کے بجائے اسے سبوتاز کرنے کی پوری کوشش کی مگر عرب عوام کی جدوجہد، صبر و ثبات اور عزم و حوصلے کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اور دیکھتے ہی دیکھتے تیونس، یمن، لیبیا اور مصر کے حکمراں رخصت ہوگئے۔ تیونس میں انتخابی عمل کے نتیجے میں نئی جمہوری حکومت بنی، مصر میں عوامی انتخاب کے ذریعہ ڈاکٹر محمد مرسی کی قیادت میں فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی بھاری اکثریت سے برسرِ اقتدار آئی۔ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ عالمی قوتیں جن کی قیادت اس وقت امریکہ کے ہاتھ میں ہے عالم عرب کو جمہوریت کے حصول پر مبارک باد دیتیں اور عالم عرب کے ساتھ نئے رشتوں کی شروعات کرتے ہوئے نئے عوامی روابط استوار ہوتے اور مشرق و مغرب اور عرب وعجم کے مل بیٹھنے کے نئے امکانات روشن ہوتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بجائے ان ممالک کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بنے جانے لگے۔

ان سازشوں میں جہاں یوروپ اور امریکہ شامل ہیں وہیں عالم عرب کی کئی سرکردہ حکومتیں بھی برابر کی شریک ہیں۔

چناں چہ ان دنوں تیونس، ترکی اور سوڈان میں عالمی طاقتوں کے ایجنٹ ریالوں کے ذریعے خرید کر پلانٹ کردیے گئے ہیں اور یہ عناصر ان ممالک میں بے چینی اور بدامنی پھیلانے کی ’خدمت‘ حرمین کے ’خادموں‘ کی ایما پر بلکہ ان کے خرچ پر انجام دے رہے ہیں۔

عالمی طاقتوں کی سازشیں تو اس لیے قابل فہم ہیں کہ ان کے تجارتی و اقتصادی مفادات کے لیے عالم عرب کی وہی اہمیت ہے جو ایک درخت کے لیے زمین کی۔ مگر دنیا کے سامنے اسلامی ممالک ہونے اور حرمین شریفین کی خدمت کا شرف رکھنے والے ان حکمرانوں کو آخر ان ممالک میں جمہوریت اور منتخب حکومت کے خلاف سازشوں کا حصہ بننے کی کون سی مجبوری ہے۔ بات واضح اور صاف ہے کہ موجودہ عرب حکومتیں اپنی پالیسی سازی میں اس حد تک امریکہ کی غلام اور اس کے احکام پابند ہیں کہ کسی کی حمایت یا مخالفت کرنا ان کا کام نہیں بلکہ عالمی قیادت جو بات انہیں املاء کراتی ہے وہ اسی کی رٹ لگانے سے زیادہ اور کچھ نہیں کرسکتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کی اسلام پسندی صرف ان کا ایک لبادہ ہے جو انہوں نے اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے اور عالم اسلام کی جذباتی حمایت کے لیے اوڑھ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان طاقتوں کو نہ تو تیونس کی جمہوریت پسند آئی نہ یمن کے عوام کی جدوجہد اچھی لگی، نہ انہیں مصر میں مرسی کی قیادت والی جمہوریت سے ہی خوشی ہوئی بلکہ اس کے برعکس حسنی مبارک کے زوال کی صورت میں اپنے اقتدار کا تخت ڈانوا ڈول ہوتا نظر آیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دو سال سے زیدہ مدت سے سیریا کے عوام خون میں ڈبکیاں نہ لگا رہے ہوتے اور مصر کے خائن اور غدار فوجی حکمراں عبد الفتاح سیسی کو عوامی حکومت کا تختہ پلٹنے پر مبارک باد نہ دے رہے ہوتے۔

یہی وجہ ہے کہ ۱۴ اگست کو جنرل سیسی نے قاہرہ میں فوجی انقلاب کے مخالف امن پسند عوام پر گولی چلا کر دو ہزار سے زیادہ انسانوں کو چند گھنٹوں میں شہید کر ڈالا۔ آزادانہ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے جو خبریں آئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ دو ہزار سے زیادہ قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ایک ہزار سے زیادہ لوگ موت و زیست کی کشمکش میں ہیں جب کہ دسیوں ہزار لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ ایک عرب ملک میں اتنے بڑے حادثہ اور اس قدر ہلاکتوں پر عرب حکمرانوں کی خاموشی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ مصری عوام کے قتل عام اور ان کی حکومت کے خلاف سازش میں اسی طرح شریک ہیں جس طرح اسرائیل اور امریکہ۔

مغربی طاقتوں کا موقف تو بالکل صاف اور واضح ہے کہ ان کے لیے جمہوریت کی ’’اہمیت و فضیلت‘‘ صرف اس حد تک ہے کہ وہ ان کے مفادات کے حق میں ہو۔ ہاں اگر ان کے مفادات خلاف نہ ہو تب بھی چلے گی لیکن اگر اس جمہوریت سے اسلام پسند طاقتیں اقتدار میں آتی ہوں تو یہ انہیں کسی صورت قبول نہیں۔

کیوں دو دہائی قبل جب الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ اسی جمہوری انتخابات کے ذریعے برسر اقتدار آیا تھا تو ٹھیک یہی فارمولہ اختیار کیا گیا تھا جو مصر میں اختیار کیا گیا۔ اور ایسا صرف اس لیے کیا گیا کہ عالمی طاقتوں کوگمان تھا کہ یہ برسر اقتدار آنے والے لوگ اسلام پسند ہیں۔

اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ جمہوریت اور عوامی حکومت اسی صورت میں قابل قبول ہوگی جب وہ اسلام مخالف اور مغربی مفادات کی حامی ہو۔ اس کے علاوہ جمہوری انتخابات کے کوئی اور نتائج قبول نہیں کیے جائیں گے۔ خواہ ان کو کسی بھی طرح رد کرنا پڑے۔ مصر کے حالات نے امریکہ اور اسرائیل کی سازشوں کو تو بے نقاب کیا ہی ہے ساتھ ہی عالم عرب کے نام نہاد ’مسلمان‘ حکمرانوں کے مکھوٹے بھی اتار پھینکے ہیں۔ اور ان کی اقتدار کی ہوس اور عملی اسلام دشمنی کو لوگوں کے سامنے واضح کردیا ہے۔

مصر میں ہزاروں افراد کے قتل کی ذمے داری صرف وہاں کے فوجی آمر عبد الفتاح سیسی پر نہیں وہ تو صرف آلہ کار تھا اور جب تک رہے گا آلہ کار ہی رہے گا۔ اس سے زیادہ کچھ نہ ہوگا اس کے اصل ذمے دار تو امریکہ اور اسرائیل ہیں اور سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک اس گھناؤنی سازش میں ان کے ساتھ برابر سے بھی زیادہ کے شریک ہیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں