مصطفی کمال صاحب کا ۱۴؍جولائی کی صبح فجر کی نماز کے بعد انتقال ہوگیا۔ وہ تہجد کی نماز سے فارغ ہوئے، تھوڑی دیر لیٹے اور پھر فجر کی نماز پڑھ کر واپس ہوئے ہی تھے کہ طبیعت میں کمزوری محسوس ہوئی، بستر پر لیٹے اور چند منٹ کے بعد اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مصطفی کمال تحریک اسلام کے اچھے رکن، ممتاز ادیب اور اچھے افسانہ نگار تھے۔ وہ ۱۹۹۸ء میں گورکھپور یونیورسٹی کے اسسٹنٹ لائبریرین کے عہدے سے رٹائرڈ ہوئے تھے۔ ان کی شناخت اردو داں حلقہ میں ایک اچھے افسانہ نگار کی تھی۔ ملک کے درجنوں اردو اخبارات اور رسالوں میں ان کے افسانے شائع ہوا کرتے تھے۔
۱۹۷۹ء میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ، ’’انمول بے مول‘‘ شائع ہوا اور تعمیری ادب کے حلقہ میں سراہا گیا۔ اس کے بعد ان کا ناول ’’حوصلہ‘‘ بھی شائع ہوا جو کافی پسند کیا گیا۔ مرحوم مصطفی کمال تحریک اسلامی کے ایک فعال اور ثابت قدم کارکن رہے۔ ایمرجنسی کے دوران انہیں بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ۲۲ ماہ کا عرصہ گزارنا پڑا۔
مصطفی کمال مرحوم کا حجاب سے تعلق بہت قدیم اور مضبوط رہا۔ وہ مرحوم مائل خیر آبادی کے زمانے سے لے کر ابن فرید صاحب مرحوم تک خوب لکھتے رہے۔ ان کے کئی ناول حجاب میں قسط وار بھی شائع ہوئے۔ دہلی سے حجاب اسلامی کی اشاعت پر انھوں نے ایک خط میں خوشی کا اظہار کیا اور اپنی نگارشات ارسال کیں۔ انتقال سے دو ہفتہ قبل انھوں نے تازہ ترین کہانی لکھ کر بھیجی جو شاید ان کی آخری کہانی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی نیکیوں پر انہیں عظیم اجر سے نوازے، ان کی کوتاہیوں سے صرف نظر فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے۔ آمین