دنیامیں ہر سال ہزاروں انسان کوئی اہم عضو مثلاً دل، گردہ اور جگر وغیرہ خراب ہونے سے موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں کیونکہ متبادل عضو کا انتظام نہیں ہو پاتا۔ لیکن اب مغربی ماہرین کی ایک اہم ایجاد یہ صورتِ حال بدل سکتی ہے۔ یہ ایجاد اِس امر کی شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی ذہین ترین مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا اور وہ محیر العقول کارنامے انجام دینے پر قادر ہے۔
ہوا یہ کہ۲۰۰۸ئمیں اریٹیریا کا ایک ۳۶؍سالہ طالب عالم، اندی ماریان آئس لینڈ کے دارالحکومت، رایکجاوک میں یونیورسٹی آف آئس لینڈمیں زیر تعلیم تھا۔ ایک دن اْس پر یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ اِس کا نرخرا (Wind Pipe) سرطان کا شکار ہو چکا۔ اِس نے پھر کیمیوتھراپی، شعاع ریزی اور سرجری پر مشتمل روایتی علاج کرائے مگر کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ نرخرے کے کینسری خلیے بدستور نشوونما پاتے رہے۔
جولائی۲۰۱۱ء تک نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اْس کا نرخرا گولف کی گیند جتنا پھول گیا اور اْسے بولنے و کھانے پینے میں تکلیف ہونے لگی۔ اب اندی کا نرخرا بدلا نہ جاتا، تو اْس کی موت یقینی تھی۔ اِس کٹھن مرحلے میں اندی کے ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ اْسے تالیفی (Synthetic) نرخرا لگا دیا جائے۔
چناچہ اندی کو اسٹاک ہوم، ہالینڈ کے کارولنسکا یونیورسٹی ہسپتال پہنچا دیا گیا جو بافتی (ٹشو) انجینئرنگ پر تحقیق کے سلسلے میں عالمی شہرت رکھتا ہے۔ وہاں اریٹیرین نوجوان پروفیسر پاؤلو مشیریانی کے زیر علاج آیا۔ پروفیسر پاؤ عطیے میں ملنے والے آٹھ نرخرے مختلف لوگوں میں لگانے کے کامیاب آپریشن کر چکے تھے۔ لیکن یہ پیچیدہ معاملہ تھا کیونکہ کہیں سے عطیے میں نرخرا دستیاب نہ ہوا۔ اِسی لیے تالیفی طور پر نرخرہ تیار کرنے کا فیصلہ ہوا۔
اب سب سے پہلے ماہرین کی ایک ٹیم نے تھری ڈی کمپیوٹرائزڈ ٹوموگرافی( سی ٹی) اسکین کے ذریعے اندی کے نرخرے کا کامل نمونہ تیار کیا۔ یہ کمپیوٹری نمونہ پھر رائل فری ہسپتال میں پروفیسر الیگزینڈر سیفلیان کو بھجوا دیا گیا۔ پروفیسر صاحب نینو ٹیکنالوجی اور حیاتِ نو (Regenerative) طب کے ماہر ہیں۔
پروفیسر سیفلیان نے پھر ایک گلاس ساز کی خدمات حاصل کیں۔ اِس نے کمپیوٹری نمونے کی مدد سے گلاس سے بنا نرخرے کا ہو بہو نمونہ بنا دیا۔ اِس نمونے کو پھر مائع پلاسٹک کی خاص قسم، پولیمر میں ڈبویا گیا۔ اِس مائع پلاسٹک کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہماری جلد جیسی تمام خصوصیات رکھتا ہے۔ جب یہ سخت ہو جائے، تو اِس میں اربوں ننھے منے سوراخ جنم لیتے ہیں۔ یوں اندی کے نرخرے سے ملتا جلتا مصنوعی نرخرہ تیار ہو گیا۔
یہ پولیمر پلاسٹک انتہائی باریک مواد سے بنتا ہے، اِتنا باریک کہ اِس کے بعض حصے محض۱۰۰ نینو میٹر چوڑے ہوتے ہیں۔ اِس جسامت کا اندازہ کچھ یوں لگائیے کہ ہمارا ایک بال.06ہزار نینو میٹر موٹا ہوتا ہے۔ پروفیسر سیفلیان کا ایجاد کردہ یہ نینو پولیمر کئی خصوصیات رکھتا ہے۔ مثلاً یہ انسانی جسم میں کٹتا پھٹتا نہیں اور ہمارا بدن اْسے بآسانی قبول کر لیتا ہے۔ یہ مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ لچک دار بھی ہے تاکہ اِس میں خلیوں کی نشوونما بخوبی ہو سکے۔
جب لندن میں مصنوعی نرخرہ تیار ہو رہا تھا، تو اسٹاک ہوم میں پروفیسر مشریانی نے اندی کی ہڈیوں سے بنیادی (Stem) خلیوں کی ایک خاص قسم، مونو نیوکلوسائٹس حاصل کر لیے۔ یہی خصوصی بنیادی خلیے نرخرے میں مخصوص چھلے پیدا کرتے ہیں۔ جب مطلوبہ بنیادی خلیے حاصل ہو چکے اور مصنوعی نرخرا بھی تیار ہو کر ہالینڈ پہنچ گیا، تو اب امریکی ماہرین میدان میں اْترے۔
امریکی ریاست میساچوسٹس کے شہر، ہولیسٹون میں ہارورڈ بائیو سائنسز نامی ایک ادارہ جدید ترین سائنسی مشینیں و آلات بناتا ہے۔ اِسی ادارے سے ڈاکٹر ڈیوڈ گرین اپنی ٹیم کے ہمراہ ایک خاص مشین ’’بائیو ریکٹر‘‘ لیے اسٹاک ہوم پہنچ گئے۔ بائیو ریکٹر کی خصوصیت یہ ہے کہ اِس مشین میں وہ خاص درجہ حرارت پیدا کرنا ممکن ہے جس میں خلیے اور بافتیں قدرتی انداز میں پلتی بڑھتی ہیں۔
اب بائیو ریکٹر کے درمیان میں لگی سلاخ میں مصنوعی نرخرہ پرو دیا گیا۔ نیچے مونو نیوکلیو سائٹس اور ان غذائیات (Nutrients) کا آمیزہ رکھا گیا جو خلیوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ سلاخ پھر ہر منٹ بعد نرخرے کو گھمانے لگی، جیسے بروسٹ مشین میں مرغ گھومتا ہے۔ ہر چکر میں خلیوں کا آمیزہ نرخرے کے کچھ حصے میں لگ جاتا۔ یوں پولیمر کے اربوں سوراخوں میں خلیے پرورش پا کر اْسے گوشت جیسے نرخرے کی حیثیت دینے لگے۔ دو دن تک مسلسل نرخرہ آمیزے میں لت پت ہوتا رہا۔ آخر سارا آمیزہ مصنوعی عضو میں جذب ہوگیا…لیجئے! دْنیا کا پہلا تالیفی عضو، ایک حقیقی نرخرہ وجود میں آ گیا۔ یہ قدرتی نرخرے کی تمام خصوصیات کا حامل تھا۔
اب بارہ گھنٹوں تک اندی کا آپریشن ہوا۔ پہلے اِس کا سرطانی نرخرہ اْتارا گیا، پھر تالیفی نرخرہ لگا دیا گیا۔ یہ تاریخی آپریشن کامیاب رہا اور اندی کے جسم نے تالیف نرخرہ قبول کر لیا۔تین ماہ بیت چکے اور اندی پوری طرح صحت یاب ہو گیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اْسے طاقتور ادویہ کھانی نہیں پڑیں تاکہ اِس کا بدن تالیفی نرخرہ قبول کر لے۔ وجہ یہ ہے کہ عضو تو خود اِس کے جسمانی خلیوں سے بنایا گیا۔
واضح رہے ، پروفیسر مشریانی نے پہلے بھی ایک تالیفی نرخرہ تیار کیا تھا۔ لیکن اِس کا ڈھانچہ قدرتی نرخرے کا تھا جو ایک مردہ عورت سے بطور عطیہ ملا تھا۔ پروفیسر نے پہلے تو اِس نرخرے کے حقیقی خلیے ختم کیے۔ پھر اِس مریض کے بنیادی خلیے نرخرے میں جذب کیے جس میں عضو لگنا تھا۔ لیکن اندی کے معاملے میں یہ پہلا موقع تھا کہ مصنوعی اجزا کی مدد سے فطری نرخرے جیسا عضو بنایا گیا۔
تالیفی جسمانی اعضا بنانے والا خصوصی پولیمر بے پناہ خصوصیات رکھنے کے باوجود بہت سستا ہے۔ اندی
کا تالیفی نرخرہ صرف ۵۳۰۰؍ روپے میں تیار ہو گیا۔ اِسی پولیمر کی مدد سے کئی دوسرے جسمانی اعضا مثلاً دِل، پتہ، جگر ، ناک ، کان وغیرہ تالیفی طور پر بنائے جا سکتے ہیں۔ گویا اِس پلاسٹک نما مادے کی ایجاد دْنیائے طب میں انتہائی اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں کئی جسمانی اعضا اِسی پولیمر سے بنیں گے۔ یوں دْنیا بھر میں پھر ہزاروں انسانوں کو عطیے میں ملنے والے اعضا مثلاً گردے، آنکھیں، جگر کا بے رحم انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ بس مطلوبہ عضو کا تالیفی نمونہ تیار کر کے مریض کو نئی زندگی بخش دی جائے گی۔
——