مضبوط تعلق

عرشیہ شیخ

کوئی ضرورت نہیں ہے تائی کے پاس جانے کی، بس اپنے کمرے میں بیٹھو چپ کرکے۔‘‘
’’اماں… ں ں ں… جانے دیں نا۔ سومی میرا انتظار کر رہی ہوگی۔‘‘ ایشا مچل کر بولی۔
’’ہاں جانے دوں تاکہ اس کی اماں پھر تمہیں دو تھپڑ رسید کر دیں۔‘‘
’’اماں انہوں نے مارا تھوڑی تھا ، وہ تو بس لگ گیا تھا۔ میں نے بھی تو ان کا پسندیدہ پرفیوم اتنا سارا ضائع کیا تھا۔‘‘
’’اچھا بس…‘‘
اکثر خاندانوں میں بچوں کی لڑائیاں بچوں سے شروع ہوتی اور بڑوں تک جا پہنچتی ہیں، جس کی وجہ سے دلوں میں فرق آجاتا ہے اور بات بڑھتے بڑھتے خاندان ٹوٹنے کا سبب بن جاتی ہے۔ بات شروع کہاں سے ہوئی تھی اور وجہ کیا تھی یہ کسی کو یاد بھی نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب بہت کم خاندان مل جل کر رہتے ہیں ورنہ اکثریت الگ الگ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے ہیں۔
جب میاں بیوی اپنی نئی زندگی شروع کرتے ہیں اور دو سے تین، تین سے چار اور پھر پانچ ، چھ ، سات ، آٹھ تک فیملی ممبر ہوجاتے ہیں تب بچوں کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ ماں باپ کی ذمہ داریاں بھی بڑھتی جاتی ہیں اور وہ بہت جانفشانی سے اپنے بچوں میں محبت قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض گھروں میں ’’کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ سے۔‘‘ کا فارمولا چلتا ہے، تو کچھ گھرانوں میں انتہائی دوستانہ ماحول ہوتا ہے مگر ہر صورت ماں باپ کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کو کسی چیز کی کمی نہ ہو۔ پھر یہی ماں باپ ہوتے ہیں کہ جو اپنے بچوں کے لیے گھر بناتے ہیں تاکہ سب مل جل کر رہیں۔
مگر… مل جل کر کیسے رہنا ہے؟ یا کیسے رہنا چاہیے؟ یہ صرف سوچنا ہی نہیں بلکہ سمجھنا بھی بہت مشکل ہے کیوں کہ مضبوط گھر اور خاندان ایسے ہی نہیں بن جایا کرتے بلکہ بہت کچھ برداشت اور نظر انداز کرکے ہی بنا کرتے ہیں۔ عدم برداشت، رویوں کی خرابی، بے جا شکایتیں، ہر جھگڑے میں مردوں کو شامل کرنا فساد کا باعث بنتے ہیں کیونکہ جب مرد روزگار سے تھکے ماندے گھر آئیں اور ان کے آگے بچے اور بیوی جھگڑے سنانے بیٹھ جائیں تو وہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ مرد کی آنکھیں نہیں ہوتیں صرف کان ہوتے ہیں اور ان میں جو انڈیلا جاتا ہے اس کا ہی وہ ری ایکشن کرتے ہیں۔
اگر خاندان کو مضبوط اور دوستانہ ماحول فراہم کرنا ہے تو گھر کی عورتوں کو برداشت اور عقل مندی سے کام لینا چاہیے۔ کوشش یہ ہی ہونی چاہیے کہ بچے اپنے معاملات خود نمٹائیں، بڑوں تک نہ پہنچنے دیں اور اگر بالفرض ماؤں تک شکایت پہنچ بھی رہی ہے تو بچوں کو نظر انداز کرنا سکھائیں اور خود بھی تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں اور گھر کے مردوں کا سکون برباد نہ کریں کیوں کہ عورت ہی گھر بناتی اور بساتی ہے۔ لیکن گھروں میں عورتوں کا ہی سارا قصور نہیں ہوتا۔ اکثر مردوں کو آزاد زندگی کا شوق ہوتا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ بس وہ اور ان کے بیوی بچے ہوں تیسرا کوئی درمیان میں نہ بولے، چاہے وہ اپنے ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں۔یہ سوچ درست اور اعلیٰ اخلاق پر مبنی نہیں۔ اگر وہ الگ رہائش کر بھی لیں تب بھی ان کو اپنے خاندان کو تو یکجا رکھنا ہے کیوں کہ الگ رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کا سب سے تعلق ختم ہوگیا بلکہ اب ذمہ داریاں اور بڑھ گئی ہیں۔ پہلے ایک ہی گھر تھا، اب دونوں گھروں کو آپ کو دیکھنا ہے۔ ماں باپ کی ضروریات کو بھی ان کے بغیر کہے پورا کرنا ہے کیوں کہ ماں باپ نے مل جل کر رہنے کے لیے آپ کے لیے گھر بنایا تھا۔ آخر میں سب بچوں کو ہنسی خوشی الگ گھر لے کر رہنے میں ان کو کوئی تکلیف نہیں ہے مگر وہ بالکل اکیلے ہی ہوجائیں ، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارا دین اور معاشرتی اخلاقیات دونوں ہی ہمیں مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ صلہ رحمی اور حقوق کی ادائیگی کی تعلیم دیتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے بھی ہم ان اخلاقیات اور دین کی تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہیں تو یہ سماجی و معاشرتی اعتبارسے بھی اور دین کے نظریے سے بھی نقصان کا سبب ہوگا۔
جدا جدا رہتے ہوئے بھی ساتھ رہنا بہت کمال کی بات ہے اوریہی مطلوب بھی ہے۔ اس کی بنیاد ماں باپ کی تربیت سے ہی ہوتی ہے۔ کسی بچے کو دوسرے بچے پر نہ برتری دی جانی چاہیے نہ ہی کسی کو کمتر سمجھنا چاہیے، سب کو برابری کا درجہ دینا انتہائی ضروری ہے چاہے وہ مالی طور پر کمزور ہوں یا تعلیمی یا کسی اور وجہ سے، کبھی بھائی کی وجہ سے بہن کو یا بہن کی وجہ سے بھائی بھابی کو نظروں سے نہیں گرانا چاہیے اور نہ ہی کسی کو کسی بھی عمل یا زبان سے یہ احساس دلانا کہ دوسرا تم سے برتر یا کمتر ہے ، بہت غلط رویہ ہے۔ دلوں میں فرق نہیں آنا چاہیے اور یہ ہی خاندان کی مضبوطی کی اساس ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کومل جل کر رہنے کی تعلیم دیں اور انہیں آپس میں میل محبت کے گر سکھائیں ساتھ ہی انہیں یہ بھی سکھائیں کہ اسلام ہمیں میل محبت اور صلہ رحمت کی تاکید کرتا ہے اور صلہ رحمی کے لیے ایک دوسرے کی باتوں کو برداشت کرنا عظمت اور بلندی ہے نہ کہ کمزوری۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146