ہر فرد کے گرد تعلق کے دو دائرے ہوتے ہیں ایک دائرہ اس کے اپنے گھر اور خاندان کا جو اس سے قریب تر اور چھوٹا ہوتا ہے، جب کہ دوسرا دائرہ دوستوں پاس پڑوس اور ہم خیال لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ دائرہ پہلے دائرے کی نسبت بڑا اور دور ہوتا ہے۔ پہلے دائرے کو ہم خاندان کا دائرہ جب کہ دوسرے دائرے کو ہم احباب کا دائرہ کہتے ہیں۔
پہلے دائرہ یعنی بیوی بچے بہن بھائی جن پر ہم براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں ان لوگوں سے ہمارا روز کا واسطہ ہوتاہے لہٰذا بہ وقت ضرورت ہم ان سے حکماً اپنی بات منوا سکتے ہیں جب کہ دوسرا دائرہ احباب کا ہے جو ہم سے متعلق ضرور ہوتا لیکن نہ ان سے روز کا واسطہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی ضروریات ہم سے وابستہ ہوتی ہیں۔ لہٰذا اس دائرے میں آنے والوں سے ہم اپنی بات حکماً نہیں منوا سکتے۔
تعلق کے اس فرق کی وجہ سے جب ہم چھوٹے دائرے میں اصلاح اور تعلیم وتربیت کا کام کرتے ہیں تو ہمارا کام زیادہ آسان اور زیادہ اثر انگیز ہوتا ہے اور کام کے اثرات کی لمحہ لمحہ خبر ملتی رہتی ہے۔ اس چھوٹے دائرے کی کوئی بھی چیز ہم سے چھپی ہوئی نہیں ہوتی۔ اس دائرے میں کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور جب چھوٹا دائرہ یعنی ہمارا گھر اور خاندان ہماری دعوت کے مطابق ہوجائے تو ایک مثال بن جاتا ہے اور معاشرے میں آپ اپنے گھر اور خاندان کے لیے ہی جواب دہ ہوتے ہیں۔ اس دائرے میں کامیابی آپ کو ہمت و حوصلہ دیتی ہے اور اس کامیابی کی وجہ سے بڑے دائرے میں بھی آپ کی بات سنے جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ہمیں ان کے دین و اخلاق کی حفاظت اور انہیں جہنم کے عذاب سے بچانے کی تلقین کی ہے اور اسے ہر فرد کی ذمہ داری ٹھہرایا ہے، اللہ کا ارشاد ہے ’’اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ عذاب سے ڈراؤ۔‘‘ اسی طرح اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: نہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے۔ عورت نگراں ہے اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی اور مرد نگراں اپنے گھر والوں کا۔ تم میں سے ہر ایک نگراں اور ذمہ دار ہے اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں سوال ہوگا جو اس کی نگرانی میں تھے۔‘‘
لہٰذا اپنے گھر کو اہمیت دیں۔ جب آپ کا گھر اور خاندان مثالی ہوگا تو آپ مضبوط قدموں کا ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ لہٰذا پہلے اپنے قلعے کو مضبوط بنائیں، محفوظ پناہ گاہ اور مورچہ بندی کے بغیر پیش قدمی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کامیابی کا امکان ہوتا۔ اگر ہم معاشرے کو عمارت سے تعبیر کرتے ہیں تو خاندان اس عمارت بنیاد ہے، خاندانوں کی بنیاد پر ہی معاشرے کی عمارت بنتی ہے۔
جب کہ خاندان کی ابتداء شوہر اور بیوی کے رشتے سے ہوئی ہے، دنیا کے سارے رشتوں نے شوہر اور بیوی کے تعلق سے جنم لیا ہے، عورت ماں، بیٹی، بہن بعد میں بنی ہے لیکن اپنی اولین شکل میں عورت پہلے بیوی تھی، اسی طرح مرد باپ، بیٹا، بھائی بعد میں بنا ہے مرد کا پہلا روپ شوہر کا تھا، لہٰذا شوہر اور بیوی کا تعلق جتنا اچھا ہوگا خاندان بھی اتنا ہی اچھا ہوگا اور خاندان میں جتنی اچھائیاں ہوں گی معاشرہ بھی اتنا ہی اچھا ہوگا اسی طرح اپنے دائرے کو بڑا کرتے جائیے۔
ہم اچھا خاندان کیسے بنا سکتے ہیں، خاندان کو کیسے جوڑ کر رکھ سکتے ہیں، خاندان کی نشو و نما کیسے کرسکتے ہیں آج ہم ان نکات پر بات کرتے ہیں۔
٭ خاندان کا ہر فرد اپنی ذمہ داری محسوس کرے، اپنے گھر اور خاندان کو دیگر تمام مصروفیتوں پر ترجیح دے۔ ہمارے دین اسلام نے بھی اہل خانہ کا خیال رکھنے، ان پر خرچ کرنے، اچھا سلوک کرنے میں اپنے گھر، اپنے خاندان، اپنے پڑوس کو ترجیح دینے کی ترغیب دی ہے، آپ کے مال اور آپ کے اچھے سلوک کے سب سے زیادہ حق دار آپ کے قریبی لوگ ہیں۔
٭ اللہ کے رسول محمد نے بھی بلا ضرورت گھر سے باہر رہنے ک ومنع فرمایا ہے، یہ بات اہم نہیں ہے کہ ہم ایک ساتھ کس طرح وقت گزاریں، بلکہ یہ بات اہم ہے کہ ہم ایک ساتھ وقت گزارتے ہیں، ہمارے گھروں میں ایک مسئلہ رہتا ہے کہ ہم ایک ساتھ بیٹھ کر کیا باتیں کریں، کیا کام کریں، آپ خود تجربہ کر کے دیکھیں کہ ایک ملاقات دوسری ملاقات کا سبب بنتی ہے، ساتھ کیا جانے والا ایک کام اگلے کام کا سبب بنتا ہے، لہٰذا اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ ہم ایک ساتھ بیٹھ کر کیا بات کریں گے، کیا کام کریں گے، اہم نہیں ہے۔ ابتداء میں محض ایک ساتھ وقت گزارنے کا اہتمام کریں، آپ کا پہلا قدم مستقبل کے راستے کشادہ کردے گا۔
ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کیجئے
اپنے بچوں، بہن بھائیوں کو لعن طعن کرنے کے بجائے ان کی ہمت بندھائیں، ان کے کاموں کو بے وقعت کرنے کے بجائے اپنے بچوں اور دیگر اہل خانہ کے کاموں کی قدر کریں، ان کے کاموں میں اگر کوئی خامی نظر آئے تو اس کی نشان دہی ضرور کریں لیکن خوئے دل نوازی کے ساتھ، اللہ اپنے نبی محمدؐ کی خصوصیت بیان کرتا ہے کہ ’’اے نبی ہم نے تمہیں نرم خوبنایا ہے‘‘ اپنے متعلقین کے کاموں کو گھٹیا ثابت کرنے سے منفی اور مجرمانہ رجحانات جنم لیتے ہیں۔
٭ اپنی اور اپنے خاندان کی کامیابیوں کو یاد رکھیں اور ناکامیوں سے صرف سیکھیں۔ ناکامیوں کو اپنے سر پر سوار نہ کریں۔ اپنی ناکامیوں کو بار بار یاد کرنے سے ڈپریشن ہوتا ہے جس سے پست ہمتی پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا اپنی کامیابیوں کو یاد رکھیں۔ اپنے بچوں اور اہل خانہ کے اچھے اور کامیاب کاموں کا بار بار تذکرہ کریں اور ناکامیوں کے بار بار ذکر سے اجتناب کریں۔ اسی طرح جو آپ کو میسر ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور جس چیز سے محروم ہیں اسے اپنی حسرت نہ بنائیں۔ جو آپ کے پاس ہے وہی کافی اور اچھا ہے، جس گھر میں آپ رہتے ہیں وہی اچھا ہے، قناعت میں ہی سکون ہے۔
٭ اپنے بچوں اور خاندان والوں سے اپنے خیالات کا اظہا رکریں، آپ کیا سوچتے ہیں، آپ کے بچے اور خاندان کے لوگ کیا سوچتے ہیں، اس سے آپ اسی وقت واقف ہوسکتے ہیں جب آپ اپنے خیالات کو ایک دوسرے سے شیئر کریں گے۔ جب تک آپ عام موضوعات پر اپنے اہل خانہ سے گفتگو نہیں کریں گے تو خاص موضوعات پر کیسے بات کریں گے؟ جب آپ اپنے بیٹے کے کپڑے، ہیر اسٹائل اس کی پسند و ناپسند پر بات نہیں کریں گے تو زندگی کے بڑے بڑے انتخاب اور اہم معاملات پر آپ کیسے بات کریں گے۔ لہٰذا چھوٹے چھوٹے موضوعات کو غیر اہم نہ سمجھیں۔ اپنے بچوں اور خاندان سے ہر طرح کے موضوعات پر تبادلہ خیالات کریں۔
٭ اپنے کاروباری، سماجی، رفاہی اور دعوتی کاموں میں اپنے بچوں اور اہل خانہ کو شریک رکھیں، آپ گھر سے باہر دنیا جہان کا کام کرتے پھریں اور آپ کے اہل خانہ آپ کے کاموں سے بے خبر ہوں تو ایسا ہونا ممکن ہے کہ آپ کے بچے آپ کے کاموں کو وقت کا زیاں سمجھیں گے۔
٭ اپنے بچوں سے اظہار محبت کیجئے۔ ان سے اس طرح کے جملے کہیں، ہم تم سے محبت کرتے ہیں، تم ہمارے لیے اہم ہو۔ تم سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں۔ میرے ایک دوست اپنے بچوں سے کہتے ہیں ’’مسلمانوں کو اچھے قائد کی ضرورت ہے لہٰذا میں تمہیں امیر المومنین دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ آپ اپنے حالات کے مطابق جو بھی طریقہ اختیار کرنا چاہیں کیجئے بنیادی مقصد یہ ہے اپنے جذبات کو چھپا کر نہ رکھیں۔
٭ اپنے اہل خانہ کی روحانی فلاح اور تربیت کا اہتمام کریں، ان میں اللہ خوفی، نیکی، اچھائی، انصاف، مساوات، ہمدردی خیر خواہی، شراکت، نرمی اور مفاہمت کی عادتیں پیدا کریں۔ دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی عادت ڈالیں۔ جب بہت سے آدمی کنبے کی صورت میں ساتھ رہتے ہیں تو اختلاف ہونا اور ایک دوسرے سے ایذا پہنچنا لازمی ہے۔ دنیا میں مکمل عدل ہونا ناممکن ہے، لہٰذا خاندان کو جوڑے رکھنے کا کام در گزر اور برداشت کے علاوہ کسی اور طریقہ سے ممکن نہیں ہے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے رحمی رشتوں سے جڑ کر رہو تو اللہ تمہیں ایسے راستوں سے رزق دے گا کہ جس کا تمہیں تصور بھی نہیں ہوگا، صلاحیت بھی رزق ہے، پیسہ بھی رزق ہے، اچھا کاروبار بھی رزق ہے۔ لہٰذا خاندان کی مضبوطی کو اہمیت دیں، اس طرح مضبوط خاندان، مضبوط معاشرہ، مضبوط قوم، مضبوط ملک تشکیل پاسکتا ہے۔lll