مضر مشروبات

ملک محمد اسحاق راہی

میں ۳۵ برس سے کھاد کے کارخانوں میں کام کررہا ہوں، اور یوں میرا شعبہ ریفریکٹری (refractory) ہے اور میں بطور ریفریکٹری ایکسپرٹ کے ہی کام کررہا ہوں۔ واضح رہے کہ ریفریکٹری اور کھاد کے کارخانوں کا کیمکل سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ریفریکٹری کے حوالے سے میں امریکہ، کنیڈا، اٹلی، جرمنی، فرانس، تھائی لینڈ، کوریا، چین، برطانیہ اور جاپان جیسے ممالک کے لوگوں کے ساتھ کام کرتا رہا ہوں۔ گزشتہ دنوںایسی ہی ایک فیکٹری میں کام کررہا تھا، فرانس کا ایک شخص بھی میرے ساتھ کام کررہا تھا۔ میں نے چائے کے وقفے کے دوران اس کے پینے کے لیے پیپسی منگواکر جونہی اس کے سامنے رکھی تو آپ یقین کریں کہ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور اس نے کہا کہ ہم پیپسی یا کوک نہیں پیتے اور اس لیے نہیں پیتے کہ یہ اسرائیل اور امریکہ کی بوتلیں ہیں، اور یہ سخت نقصان دہ ہیں انسان کے لیے۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل ساری دنیا کے مسلمانوں کو ماررہے ہیں اور پھر بھی آپ لوگ پیپسی، کوک یا دیگر سوفٹ ڈرنکس پیتے ہیں۔ آپ کیسے لوگ ہیں! ان بوتلوں کی کمائی سے تیار ہونے والا اسلحہ مسلمانوں پر استعمال ہوتا ہے۔
بازار میں کوکا کولا، پیپسی کولا یا اسی قسم کے دیگر مشروب مل رہے ہیں، یہ نہ صرف مسلمانانِ عالم بلکہ ساری دنیا کے لیے ہی نقصان دہ اور ضرر رساں ہیں۔ آپ لیبارٹری جائیں یا کسی کیمسٹ سے پوچھیں کہ ان سافٹ ڈرنکس کا PHکیا ہے اور یہ کیا کرتا ہے یا کیا کرسکتا ہے؟ ان سوفٹ ڈرنکس کا 3.4PHہے اور یہ مشروبات معدے کے اندر جاکر تیزابیت پیدا کرتے اور دانتوں یا انسانی ہڈیوں کو بھربھرا (خراب یا ریزہ ریزہ) کرکے انسانی جسم کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ انسانی جسم میں ۳۰؍ برس تک ہڈیوں کو بنانے اور انھیں مضبوط کرنے کا عمل جاری رہتا ہے، ۳۰ برس کے بعد جسم ہڈیاں بنانا بند کردیتا ہے اور اس کے بعد جسم سے ۸ سے ۸۸ فیصد تک ہڈیاں گھل کر پیشاب کے راستے بہہ جاتی ہیں۔ یہ عمل آپ کی خوراک سے کم یا زیادہ ہوسکتا ہے۔ یعنی آپ اپنی خوراک میں کیا استعمال کرتے ہیں اور اس میں تیزابیت کی مقدار کتنی ہے؟ اسی پر یہ منحصر ہے کہ پیشاب کے ذریعے آپ کی ہڈیاں کتنی مقدار میں نکل (بہہ) رہی ہیں۔ آپ نے عام بیت الخلاء یا مساجد کے بہت سے بیت الخلاء میں اکثر دیکھا ہوگا کہ وہاں اسی بہنے والی ہڈیوں کی مقدار جمی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور وہ وہاں کافی موٹی تہہ کی بھی صورت اختیا رکرجاتی ہے۔ تیزابیت دراصل کیلشیم کی ازلی دشمن ہے، جبکہ تمام حل شدہ کیلشیم خون کی بڑی شریانوں، نالیوں، نسوں کے ذریعہ جسم کے مختلف اعضاء میں جمع ہوجاتے ہیں۔ آج کل اسپتالوں میں کتنے ایسے مریض دیکھنے کو ملتے ہیں جن کے گردوں، مثانے یا پتے میں پتھری ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ہم خوراک میں کیا لے رہے ہیں، اور کیوں لے رہے ہیں، اور اس کی مقدار کس قدر کھانی ہے اور کیوں؟ سافٹ ڈرنکس انتہائی مہنگا مشروب ہے جبکہ اس میں نہ تو کوئی وٹامن ہوتا ہے اور نہ ہی معدنیات یا غذائیت ہوتی ہے۔
ان بوتلوں میں شوگر، کاربونک ایسڈ اور کیمیکل کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ کچھ حضرات ہر کھانے کے بعد یا دن میں کئی بار ان بوتلوں کے پینے کے عادی ہوتے ہیں۔ اکثر احباب یہ بوتلیں صرف اس لیے پیتے ہیں کہ خوراک آسانی سے ہضم ہوجائے۔ خوراک ہضم کرنے کے لیے جسم کو ایک خاص درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے جس کی مقدار ۳۷ ڈگری سینٹی گریڈ ہے، جبکہ ہم یخ بستہ ٹھنڈی بوتلیں پینے کے عادی ہوتے ہیں۔ جن کا درجہ حرارت صفر ڈگری سینٹی گریڈ اور بعض اوقات اس سے بھی کم یعنی مائنس میں ہوتا ہے۔ اس طرح ہم نے گرما گرم کھانا مزے سے کھایا اور پھر یخ بستہ پیپسی کولا پی لی۔
ایک دن ہمارا ایک چینی دوست بیٹھا ہم پر خوب ہنس رہا تھا، اس نے پوچھا کہ کیا یہا ںکے لوگ ایسے ہی کھانا کھاتے ہیں؟ میں نے جواب دیا: تقریباً اسی طرح کھانا کھاتے ہیں۔ اس نے کہا کہ ہمارے یہاںکھاناگرم گرم نہیں کھایا جاتا، بلکہ نارمل کھاتے ہیں اور کھانے کے بعد قہوہ یا نیم گرم عام پانی پی لیتے ہیں، ہمارے ملک چین میں جگہ جگہ نیم گرم پانی کی سبیلیں لگی ہوتی ہیں۔ میں اپنے اس چینی دوست کی باتیں سن کر حیران رہ گیا۔
ہمارے نبی ﷺ نے ۱۴۰۰ سال پہلے ہی مکمل زندگی گزارنے کا درس دے دیا کہ کھانا گرم گرم نہ کھاؤ، پانی کیسے پینا ہے، کھانا کیسے کھانا ہے۔ ہم قرآن و حدیث پر عمل نہیں کررہے ہیں اور نہ ہی آپ ِ کے اسوئہ حسنہ پر چل رہے ہیں۔ اور یہ سارے غیر مسلم وہ کام کررہے ہیں جو دراصل ہمیں یعنی مسلمانانِ عالم کو کرنا چاہئیں۔ اسی وجہ سے آج ہمارے ہاں اسپتالوں میں کوئی بیڈ خالی نہیں ہے۔ آج ہم شتر بے مہار کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ ہمیں دین کی پروا ہے اور نہ ہی اپنے اللہ اور رسولﷺ کی۔ ہم جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں اور جو چاہتے ہیں کھالیتے ہیں۔
سادی دنیا یہ جانتی ہے کہ ہاضمہ کے لیے جسم کو ایک خاص درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے، اور اگر اس کی جگہ زیادہ سرد یا زیادہ یخ قسم کی کوئی شے اندر انڈیلیں تو ظاہر ہے نتیجہ کچھ بہتر نہیں نکلے گا، اور یوں یا سافٹ ڈرنکس نظامِ ہاضمہ میں بہتری کے بجائے پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیںاور کھانا صحیح طور سے ہضم نہیں ہوتا، جس سے جسم میں زہر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔
دنیا میں کوئی بھی آپ کو کاربن ڈائی آکسائڈ پینے کا مشورہ نہیں دے گا، آپ مختلف فیکٹریوں میں اونچی اونچی چمنیوں سے دھواں نکلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہ کیا ہوتا ہے؟ کچھ عرصہ پہلے دہلی یونیورسٹی میں طلبہ کے درمیان ایک مقابلہ ہوا کہ کون سب سے زیادہ کوک پیئے گا، جو جیتا اس نے ۸ بوتلیں کوک پی لی تھی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا تھا۔ جب اس کا تجزیہ کیا گیا تو یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ خون میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار بڑھنے سے اس کی موت واقع ہوئی تھی۔ اس طرح موت نے یہ ثابت کردیا کہ ان سافٹ ڈرنکس کے پینے سے انسانی خون میں کاربن ڈائی آکسائڈ بڑھتی ہے اور اس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کی بعض ہڈیاں قبر میں پائی جاتی ہیں یا پا جاتی تھیں۔ آج کل یہ ہڈیاں کم ہی پائی جاتی ہیں۔ اور یہ ان بوتلوں کا کمال ہے۔ اگر کسی کو شک ہو تو وہ کوئی بھی چھوٹی سی ہڈی لے کر کسی گلاس میں ڈال دے اور اس گلاس کو پیپسی یا کوک سے بھردے، اور پھر صرف چند روز کے بعد دیکھے یہ ہڈی یا تو اس بوتل کے مشرب میں حل ہوجائے گی یا پھر اسے آپ ہاتھ میں پکڑ نہیں سکیں گے، وہ پاؤڈر کی طرح بھربھری ہوجائے گی۔
ان بوتلوں سے سراسر نقصان ہورہا ہے اور ساتھ ہی صحت برباد ہورہی ہے۔ جبکہ ہمارے سماج میں بہت پہلے سے قسم قسم کے ٹھنڈے اور لذیذ مشروبات رائج تھے۔ مگر فیشن کی دوڑ میں ہم ان سب کا استعمال فرسودہ سمجھتے ہیں اور وہ مشروبات استعمال کرتے ہیں جن کے نقصان دہ ہونے پر موجودہ دور کے ڈاکٹر بھی متفق ہیں۔ پتہ نہیں یہ عقل مندی کب تک جاری رہے گی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں