کسی مفکر کا قول ہے: ’’علم کے بغیر کوئی آدمی مکمل نہیں۔‘‘ علم کی شمع انسان کے دل ودماغ کو منور کرتی ہے ذہن اور روح کو اطمینان بخشنے کے ساتھ ساتھ انسان کو اس کی اپنی حیثیت اور ذات کی پہچان کے علاوہ اس کے حقوق و فرائض سے روشناس کراتی ہے۔
کچھ جاننے اور سمجھنے کے لیے مطالعہ کرنا شرط ہے اور علم حاصل کرنے کے لیے پڑھنے اورمطالعے کی خواہش کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے غارِ حرا میں آنحضورﷺ کے ذریعے سے علم کو قرآن کی صورت میں رہتی دنیا تک پہنچایا اور یہ علم تا قیامت محفوظ کردیا گیا۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ موجودہ دور میں کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ اور اہمیت کے پیش نظر کتاب کی اہمیت ختم ہوچکی ہے اور جلد ہی لائبریریاں بند ہوجائیں گی اور ان کی جگہ سائبر کیفے چلیں گے۔ لیکن تاحال یہ حقیقت ثابت شدہ نہ ہوسکی کیوںکہ دنیا میں کتابوں کی اشاعت کا تناسب مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بنیادی علم کتاب سے ہی حاصل ہوتا ہے، کتاب ہی فکر فراہم کرتی ہے۔ آپ کی شخصیت میں نکھار پیدا کرنے کے لیے کتاب کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے۔ کہتے ہیں کہ علم کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتا ہے اور اسے کتاب کے ذریعہ ہی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد کے لوگ غیر سماجی اور فضول مشغولیات میں مصروف ہیں تو صرف کتابوں کا مطالعہ ہی انہیں فضول مشغولیات سے نجات دلاسکتا ہے۔
بحیثیت ایک مسلمان ہمارا رشتہ تو کتاب (قرآن مجید) سے ازل سے ابد تک کا رشتہ ہے۔ اور اسی رشتے کی وجہ سے ہی ہم پہچانے جاتے ہیں اور ہمارے ہاں تو دوسروں کے مقابلے میں کتاب کی اہمیت اس لحاظ سے اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔
کتاب صرف معلومات فراہم کرنے کا باعث ہی نہیں بنتی بلکہ آپ کے ذہنی افق کو وسیع سے وسیع تر کرتی ہے۔ آپ کے ذہن اور شخصیت کی تہذیب اور اس میں تہذیب پیدا کرتی ہے اور جب دماغ کی تہذیب ہو جاتی ہے تو پھر زندگی میں ہر قسم کی تربیت و تہذیب کی راہ آسان ہوجاتی ہے۔ کتاب آپ کو انسانی رویوں کے قریب کرتی اور مسائل زندگی میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ کتاب کے ذریعہ سے ہی اجتماعی و قومی نفسیات میں وہ وسعت، گہرائی اور گیرائی پیدا ہوتی ہے جو عصری رجحانات کا شعور اور اپنی فکری و نظریاتی اساس پر استواری سے جمے رہنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ کتب بینی کی اہمیت بتاتے ہوئے حکیم محمد سعیدؒ اپنی کتاب ’’جاگواور جگاؤ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’علم حاصل کرنا ایک نیکی ہے اور علم کو پھیلانا اس سے بھی بڑی نیکی ہے۔ کیونکہ علم کے بغیر اندھیرا رہتا ہے اور انسان کو کچھ بھی نظر نہیں آتا اور نہ وہ اچھے برے میں تمیز کرسکتا ہے۔ علم روشنی ہے جس کے ذریعہ انسان بھلائی، برائی میں فرق کرسکتا ہے غلط اور صحیح کو الگ کرسکتا ہے۔ اس روشنی کو خود بھی حاصل کرنا چاہیے اور دوسروں تک بھی پہنچانا چاہیے۔ علم کی اشاعت وہی انسان کرسکتا ہے جس نے علم حاصل کیا ہو علم میں اضافے کے لیے کتابوں اور رسالوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ مطالعہ کے ذریعہ علم بہت آسانی سے اور بہت جلدی بڑھتا ہے۔ جو باتیں لوگ بہت تجربے کرنے اور لمبی عمر صرف کرنے کے بعد سیکھتے اور سمجھتے ہیں مطالعے سے وہ باتیں گھنٹوں اور دنوں میں معلوم ہوجاتی ہیں۔ مطالعے کی عادت بڑی اچھی اور فائدہ مند عادت ہے جن لوگوں کو بچپن ہی سے مطالعے کی عادت پڑجاتی ہے وہ بہت جلد علم حاصل کرکے باکمال بن جاتے ہیں۔‘‘
ایک دوسرے مفکر کے خیال میں:
’’مہذب افراد کی پہچان یہ ہے کہ ان کے مطالعہ میں ہر وقت کوئی اچھی کتاب رہتی ہے۔‘‘
علامہ شبلی نعمانیؒ نے اپنے سفر نامے میں نقل کیا ہے ۔ مسٹر آرنلڈ جو علامہ شبلیؒ اور علامہ اقبالؒ کے استاد علی گڑھ میں فلسفہ کے پروفیسر تھے ساتھ ساتھ سفر کررہے تھے۔ بمبئی سے پانی کے جہاز میں سوار ہوئے جب جہاز عدن پہنچ کر آگے بڑھا تو دس مئی کو جہاز کا انجن خراب ہوگیا، جہاز کے ملازمین اور کپتان گھبرائے گھبرائے تدبیریں کرتے تھے انجن بالکل بے کار ہوچکا تھا اور جہاز سست ہوگیا شبلی فرماتے ہیں کہ عین اسی حالت میں بصدِ اضطراب دوڑتا ہوا مسٹر موصوف کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ نہایت اطمینان سے کتاب کا مطالعہ کررہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو کچھ خبر بھی ہے؟ بولے کہ ہاں انجن خراب ہوگیا ہے۔ میں نے کہا: ایسی حالت میں یہ کتاب دیکھنے کا موقع ہے؟ فرمایا: جہاز کو برباد ہی ہونا ہے تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے۔
اگر تاریخ کو بنظرِ غائر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ یہ کتابیں ہی تھیں جو وقت کے ساتھ ساتھ انسانی افکار، خیالات اور اعمال پر مسلسل گہرے اثرات ڈال کر اپنے نقوش چھوڑتی رہیں۔ کتاب نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر جو پختہ اثرات مرتب کیے ہیں ان اثرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اثرات ادب، فلسفہ اور تاریخ کے علاوہ زندگی کے ہر پہلو پر آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ تاریخ اس حقیقت سے انکار نہیںکررہی ہے کہ کتابیں کسی دور میں بھی بے کار، بے حیثیت اور بے اثر ہوئی ہوں بلکہ کتاب تو اکثر متحرک اور زندہ قوت کے طور پر اس طرح سامنے آتی رہی ہے کہ اس نے حالات کا دھارا بدل کے رکھ دیا تھا۔
کتاب اپنے اندر جو ایک خاص قسم کی قوت یا اثر رکھتی ہے ہر بندہ اسے محسوس نہیں کرسکتا اور یہ قوت کتاب کے اندر بند ہوتی ہے جسے مطالعے کے ذریعہ سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے دوسرے کئی المیوں کی طرح ایک المیہ یہ بھی رہا ہے کہ ہم کتاب کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے مناسب حق دینے سے قاصر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں علم صرف اداروں میں قید ہوکر رہ گیا ہے۔ معاشرے میں نظر نہیں آتا جبکہ مفید علم وہ ہوتا ہے جو اداروں سے نکل کر پورے معاشرے میں حرکت پذیر ہو۔ مطالعہ کتب ذہنی افق کی نشوو نما اور ذہنی وسعت کے لیے بہت ضروری ہے۔
یہ بات تو عام ہے کہ جب تک خود مطالعہ نہ کیا جائے صرف سننے پر ہی اکتفا کیا جائے تو وہ نتائج برآمد نہیں ہوتے جو مطالعہ کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں۔
مطالعہ کرنے سے فرد کی ذہنی استعداد، سماجی حیثیت، اخلاقی پہلو اور فکر کی صحیح سمت میں نشوو نما ہوتی ہے۔ مطالعہ کرنے کے بعد انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق رائے دے سکے اور اپنے ذاتی خیالات کا اظہار اعتماد کے ساتھ کرسکے۔ مطالعہ کرنے سے انسان کی سوچ اور فکر ترقی کرتی ہے۔ اور انسان خود سے مختلف چیزوں کے بارے میں سوچتا ہے۔ دوسری صورت میں اگر وہ مطالعہ کی عادت نہیں ڈالتا تو اسے ہمیشہ دوسروں کی سوچ اور خیالات کا قیدی بن کے رہنا پڑتا ہے اور اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی۔
اگر ہم اپنے ارد گرد غور کریں تو بہت سارے ایسے افراد ہوں گے اور کئی ایسی قد آور شخصیات نظر آئیں گی جنھوں نے زیادہ تعلیم حاصل نہ کی مگر بعد میں انھوں نے اپنے مطالعہ کو وسعت دی اور اہم مقام پر پہنچ کر حکیم محمد سعید کے الفاظ میں ’’باکمال‘‘ بن گئے۔
مطالعہ ایک عادت ہے اور اس عادت کو اپنانے کے لیے جذبے کا ہونا ضروری ہے اور اگر یہ جذبہ یہ شوق یہ عادت اوائل عمری سے ہی شروع کردی جائے تو مثبت نتائج نکلیں گے۔ بچے میں ’’سیکھنے کا عمل‘‘ صرف اداروں یا کمرہ جماعت تک ہی محدود نہ رہے گا۔ ہمارے ہاں اساتذہ کرام اور والدین اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر ان دونوں طبقوں کو مطالعہ کا شوق ہو تو وہ اولاد اور طلبہ کی بہتر انداز میں رہنمائی کرکے علم کو عمل تک پہنچانے کا فریضہ سر انجام دے سکتے ہیں۔
مگر یہ بھی افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے کی مائیں اور اسکولوں کے اساتذہ کرام جو نسلوں کی تعمیر کرتے ہیں اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں اور بچوں میں مطالعہ کی عادت پختہ نہیں ہوپاتی اور اگر وہ مطالعہ کرتے بھی ہیں تو بس کورس کی کتابوں تک ہی محدود ہوتے ہیں۔ بلکہ بعض طلبہ تو گائیڈ بکس کے ذریعہ ہی امتحان پاس کرلیتے ہیں۔ اضافی کتب کے مطالعہ کا جذبہ ناپید ہے۔ یہ صورت حال سماج کی ماؤں کے لیے بھی قابلِ غور ہے اور ہمارے اسکولوں اور تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور معلمین کے لیے بھی قابلِ توجہ ہے۔
بعض لوگ کتاب،ا س کے صفحات اور ضخامت کو دیکھ کر پہلے ہی گھبرا اٹھتے ہیں کہ اتنی سست رفتار کے ساتھ وہ اس کتاب کا مطالعہ کس طرح مکمل کرسکیں گے۔ ان کا یہی احساس انہیں ذہنی طور پر بوریت کا شکار بنادیتا ہے اور وہ کتاب کو مکمل کیے بغیر ہی الماری میں رکھ دیتے ہیں۔ اس کے لیے جہاں مطالعہ کی رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے وہیں اس گھبراہٹ کے احساس سے خود کو بچانے کی ضرورت ہے۔ تنویر ظہیر مطالعہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’کتابوں کے مطالعہ سے کبھی نہیں گھبرانا چاہیے لفظوں کے ساتھ دوستی پیدا کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ جیسے ہی لفظ مطالعہ کے ذریعے قریب آتے جائیں گے اسی قدر ان کے ساتھ دوستی پکی ہوتی جائے گی۔ اور نئے نئے خیالات ذہن میں ظاہر ہوکر زندگی کا مقصد نظر آنے لگے گا۔ آنے والے زمانے دکھائی دیں گے اور زندگی خوشنما محسوس ہوگی۔ مطالعہ کے بغیر ایسا منظر بہت کم دکھائی دیتا ہے زندگی کو اچھے طریقے سے بسر کرنے کے لیے اچھی کتابیں پڑھنا ضروری ہیں۔ کتابیں انسانی زندگی کو خوبصورت بناتی ہیں۔‘‘
اگر آپ روزانہ مطالعہ کی عادت ڈال لیں گے تو آپ چند ہی مہینوں میں محسوس کریں گے کہ اس کے متعلق آپ کے اندر اعتماد پیدا ہورہا ہے اور رفتار بھی بڑھ رہی ہے۔ آپ اپنے لیے ایک وقت مقرر کرلیں جس میں آپ کو ہر حال میں مطالعہ کرنا چاہیے آپ ایک ٹائم ٹیبل کے تحت مطالعہ کریں اور پھر باقاعدگی سے اس پر عمل کرتے ہوئے روزانہ مطالعہ کے ساتھ ساتھ آپ ہفتہ وار اپنے مطالعہ کا جائزہ لیں۔
مطالعے کے اصول و تجاویز
محمد بشیر جمعہ ’’تعلیمی زاویے اپریل ۲۰۰۴ء‘‘ میں لکھتے ہیں:
۱- آپ اپنے اندر ایک والہانہ شوق پیدا کیجیے کہ جس ٹاپک کا آپ مطالعہ کررہے ہیں اس میں آپ کو مہارت حاصل ہوجائے۔ آپ کے دل میں تڑپ ہو کہ جس چیز کو آپ پڑھیں اس پر آپ کو کامل عبور ہو جائے اور پھر آپ اس کا عزم مصمم کرلیں کہ جو آپ پڑھیں گے اس میں ضرور مہارت حاصل کریں گے۔ آپ کا ارادہ مضبوط اور آپ کا عزم غیر متزلزل ہو جو آپ پڑھیں اس کے ماہر بھی ہوتے چلے جائیں۔
۲- اپنے کام کو ہر وقت دھیان میں رکھیں اور اسے بھول کر بھی پس پشت نہ ڈالیں۔
۳- کام شروع کریں پھر ترتیب کا خیال رکھیں اور اس کے بعد اس کام میں منہمک ہوجائیں۔
۴- ذہن کو ایک مرکز پر جمانے کی عادت ڈالیں اور کوشش کریں کہ ادھر ادھر نہ بھٹکیں۔
۵- آپ اپنی تمام رکاوٹوں کو اپنے راستے سے عقلمندی اور دانشمندی سے ہٹا دیں جو آپ کے مطالعہ میں حائل ہورہی ہیں اور بھول کر بھی عذرِ لنگ کے وقت اپنے مطالعہ کے اوقات برباد نہ کریں۔
۶- مطالعہ کے ٹاپک میں دل لگائیں اور بے دلی یا خوف ہرگز پیدا نہ ہونے دیں۔
۷- آپ مطالعہ میں سرگرمی سے مستعدی پیدا کریں اور اس کی معلومات سے مستفید ہوں۔ ان معلومات پر غوروفکر کریں اور انہیں آپس میں بات چیت اور تحریر و تقریر میں استعمال کریں۔ روز مرہ زندگی میں جہاں کہیں بھی ان معلومات سے مدد حاصل کی جاسکتی ہے آپ پوری پوری مدد حاصل کریں تاکہ آپ کی دانش و فہم و ادراک بیکار ثابت نہ ہو۔
۸- مطالعہ کے لیے آپ اپنے اندر دلچسپی پیدا کریں۔
۹- آپ مناسب ماحول تلاش کریں اگر کسی وجہ سے آپ کی مرضی کا ماحول آپ کو میسر نہیں ہوسکتا تو ہر قسم کے ماحول میں مطالعہ کی عادت ڈالیں۔
۱۰- مطالعہ کے لیے منصوبہ بندی بے حد ضروری ہے منصوبہ بندی کا فقدان ناکامی کا سبب بنتا ہے۔
۱۱- مطالعہ کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اوپر اعتماد کیا جائے اور خود اعتمادی کی صفت پیدا کی جائے۔ مثبت سوچ، خود اعتمادی اور مثبت رویے سے زندگی میں حیرت انگیز کام سرانجام دیے جاسکتے ہیں۔
۱۲- مطالعہ کے لیے وقت کی پابندی کی عادت ڈالنی چاہیے اور اس مقررہ وقت کو کسی دوسرے کام میں صرف کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
۱۳- مطالعہ کے لیے توجہ کا ارتکاز بے حد ضروری ہے، بے توجہی سے چار گھنٹے پڑھنا پندرہ منٹ توجہ کے ساتھ پڑھنے کے برابر بھی نتائج پیدا نہیں کرتا۔
۱۴- مطالعہ کا مقصد کچھ عرصہ تک کتاب پر نظر دوڑانا نہیں ہے بلکہ جو کچھ پڑھا جائے اسے سمجھنا، نئی باتیں جانناء ان پرغوروفکر کرنا اور ان پر عبور حاصل کرنا ہے۔ مطالعہ کے دوران جگہ جگہ رک کر جائزہ لینا چاہیے کہ جو کچھ آپ پڑھ رہے ہیں آیا وہ بات آپ پر واضح ہوئی ہے یا نہیں۔
۱۵- مطالعہ کے دوران ہر بات کا تنقیدی جائزہ مطالعہ کے فوائد میں گراں بہا اضافہ کرتا ہے دوسرے مقامات اور دوسری کتابوں میں بیان کردہ باتوں سے موازنہ کرنے کے بعد اس کا ناقدانہ جائزہ لینے کی عادت ڈالنے سے زیر مطالعہ بات صحیح سمجھ میں آجاتی ہے۔
انتخابِ کتب
اس سلسلہ میں حکیم محمد سعیدؒ نے بڑے پتے کی بات کہہ کر اس مسئلہ کو آسان کردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ :
’’ہمیشہ اچھے آدمی کو دوست بنانا چاہیے اور اچھی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے جس طرح برے آدمی کو دوست بنانے سے نقصان پہنچتا ہے اسی طرح بری کتابوں کے پڑھنے سے بھی نقصان پہنچتا ہے۔ دوستوں کی طرح کتابوں کا انتخاب بھی پوری احتیاط اور توجہ سے کرنا چاہیے اور ہمیشہ اچھی کتابیں پڑھنی چاہئیں۔ انسان کے بہت اچھے رفیقوں میں سے ایک کتاب بھی ہے۔ سچا دوست وہ ہوتا ہے، جو برے وقت میں کام آئے، کتاب ہر وقت اور ہر موقع پر کام دیتی ہے۔ کتابیں پڑھ کر ہم دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کتابیں ہمیں نہ صرف زندگی کی سیر کراتی ہیں بلکہ گزری ہوئی باتیں بھی بتاتی ہیں۔ بزرگوں سے ملاتی ہیں نیک و بد کی تمیز سکھاتی ہیں، عقل کو جلا دیتی ہیں اور دماغ کو روشنی عطا کرتی ہیں۔‘‘