اللہ رب العزت نے اس کائنات میں ہزار ہا مخلوقات کے ساتھ انسان کو بھی پیدا کیا اور اسے عقل و خرد سے اشرف المخلوقات بنایا۔ نیز علم کی دولت سے مالا مال کرکے بولنے کی صلاحیت دی۔ انسان نے بھی اللہ تعالیٰ کی اس خصوصی عنایت کواپنی عقل و دانائی سے سچ ثابت کیا۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علوم نے انسان میں تعمیری و مثبت سوچ پیدا کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ علم کی افادیت انسان پر عیاں ہوجانے کے باعث دنیا کا ہر فرد خواہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، اسے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ علم کسی بھی عمر میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ علم کا ذریعہ مطالعہ ہے اس لیے حصولِ علم میں مطالعہ کی بڑی اہمیت و افادیت ہے۔
مطالعہ کے لیے اچھی اور عمدہ کتب کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔ اچھی اور عمدہ کتابوں کا مطالعہ ذہن و فکر کو ترقی دیتا ہے۔ تحقیق کی نئی راہیں کھولتا ہے اور انسانی خیالات و افکار کو متحرک کرکے مختلف علوم و فنون میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ مطالعہ انسان کو دانائی اور شعور عطا کرتا ہے۔ ذہنی پراگندگی اور انتشار کو ختم کرکے اور انسانی خیالات و افکار کو مخصوص سمت عطا کرکے مثبت انداِز فکر پیدا کرتا ہے اور اسے صاحب الرائے بناتا ہے۔ مطالعہ ذہن، قلب و روح کی غذا ہے۔
مطالعہ ہم جب چاہیں، جہاں چاہیں اور جس طرح چاہیں کرسکتے ہیں، لیکن کسی پرسکون جگہ کا انتخاب کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ حصولِ علم انسان کی بنیادی ضرورت ہے، جس کی تکمیل کے لیے ابتدائی سطح سے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ جو لوگ مطالعہ کے بغیر علم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ علم کے کسی بھی شعبے میں مہارت حاصل نہیں کرسکتے۔
علوم و فنون کے ہر شعبے میں مطالعہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں مطالعہ ہی کے ذریعے تحقیقی و تالیفی کام انجام دیا جاتا ہے اور نئی دریافت و ایجادات ہوتی ہیں۔ دنیا میں ادب، سائنس، ریاضی، فلسفہ، طب، منطق، ہیئت، سیاسیات، معاشیات، سماجیات، نفسیات، ارضیات اور فلکیات وغیرہ تمام علوم کی اساس مطالعہ ہی ہے۔ مطالعہ جو کسی ایک مضمون تک محدود نہیں ہے، بلکہ مختلف علوم و فنون میں مہارت کا ذریعہ ہے۔
یوں تومطالعہ کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے، مگر طلبہ کے لیے مطالعہ انتہائی درجہ ضروری ہے۔ ترقی کے اس دور میں مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے طلبہ کو مختلف علوم کا جاننا ضروری ہے۔ مقابلہ جاتی امتحانات میں پوچھے جانے والے معروضی سوالات کے جوابات تقریباً یکساں نظر آتے ہیں۔ ہر جواب صحیح اور مناسب لگتا ہے۔ جس کی وجہ سے طلبہ تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں مگر وہ طلبہ جو گہرا مطالعہ رکھتے ہیں اعتماد کے ساتھ صحیح اور مناسب جواب کا انتخاب کرکے نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
مطالعہ انسان کی ذاتی خوبیوں اور خامیوں سے واقفیت کا بہترین ذریعہ ہے۔ جو شخص دنیا کے مختلف علوم میں دست رس رکھتا ہو اور اپنی ذاتی خوبیوں و خامیوں سے بھی واقف ہو مگر اپنی خوبیوں سے دوسروں کو فیض نہ پہنچاتا ہو نہ ہی اپنی اصلاح کرتا ہو، وہ شخص انتہائی خود فریبی کا شکار ہوتا ہے۔ اس کا علم بے فیض اور اس کی معلومات جو اس کے ذہن میں محفوظ ہیں بے سود و بے کار ہوتی ہیں۔
علمی مہارت کے باوجود مطالعہ کے لیے منصوبہ بندی لازمی ہے۔ کسی بھی کتاب کا انتخاب کرتے وقت قاری کو چاہیے کہ حصولِ علم کا خاکہ ذہن میں رکھیں۔ ذہن کو تناؤ، غصہ اور جھنجھلاہٹ سے پاک رکھیں۔ مستعد اورچاق و چوبند ہوکر مطالعہ کریں اور اکتاہٹ سے بچیں۔ اہم معلومات نکات کو نوٹ کرتے رہیں۔ نوٹ کردہ نکات کو بار بار پڑھیں اور غوروفکر کرتے رہیں تاکہ وہ ازبر ہوجائیں اور تاحیات حافظہ میں محفوظ رہیں۔
علم کے کسی بھی شعبے کے کسی بھی اہم موضوع کا مطالعہ کرتے وقت اس کی گہرائی میں جانا ضروری ہے ۔ دنیا میں تقریباً ہر دن افکار و خیالات میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ مفکرین اپنے خیالات کا اظہار آئے دن اخبارات، رسائل، کتب وجرائد نیز ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے ذریعے کررہے ہیں۔ لہٰذا مفکرین و سائنس دانوں کے جدید خیالات و افکار، سائنسی ایجادات اور مفروضوں سے واقفیت کے لیے مطالعہ نہایت اہم و ضروری ہے۔
طلبہ کو چاہیے کہ اپنے علم میں اضافہ کریں، نیز جدید ایجادات و تحقیق کی معلومات حاصل کریں۔ مختلف علوم میں مہارت حاصل کرنے نیز مقابلہ جاتی امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنی تعلیمی مصروفیات سے وقت نکال کر مطالعہ کرتے رہیں۔ حاصل کردہ معلومات پر دوسرے طلبہ سے تبادلۂ خیال کریں اور بحث و مباحثہ کریں۔ ہم کسی بھی علم کی جتنی زیادہ تفہیم کریں گے اور اس کی باریکیوں پر بحث کریں گے وہ اتنا ہی ہمارے ذہنوں میں محفوظ رہے گا۔
——