مطالعے میں کامیابی کے لیے مناسب ماحول ہونا ضروری ہے۔ ماحول بنانے کے لیے سب سے پہلے یکسوئی حاصل ہو اور یہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتی ہے جب کہ آپ مطالعے کو دوسرے کاموں پر برتری دیتے ہوں۔ پہلے جو کام کرنے ہیں وہ نمٹا لیں۔ پھر دلجمعی کے ساتھ مطالعہ کریں۔
یکسوئی کے حصول کے لیے گھر کے دوسرے لوگوں کا تعاون بھی درکار ہوتا ہے۔ اگر پڑھائی کے دوران بار بار اٹھنا پڑے تو مطالعے میں خلل پڑتا ہے اور توجہ منتشر ہوتی ہے۔ لہٰذا کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ کچھ حد تک اوروں کا تعاون حاصل ہو۔
مطالعے کی ابتدا سے قبل یہ طے کریں کہ آپ کو اس سے حاصل کیا کرنا ہے۔ مثلاً اخبار وغیرہ کا مطالعہ تیز رفتاری سے کیا جاتا ہے کیونکہ اس کا مقصد وقت گزاری ہوتا ہے یا یہ کام مشغلے میں داخل ہوتا ہے۔ لیکن نصابی کتب بھر پور توجہ چاہتی ہیں کیوں کہ ہمیں واقعی کچھ سیکھنا ہوتا ہے۔ اگر آپ نے یہ فیصلہ کرلیا کہ مطالعے کے ذریعے کیا چیز حاصل کرنی ہے تو آپ بہتر طور پر مطالعے سے مستفید ہوسکیں گے۔
لگاتار پوری تحریر پڑھنے کے بجائے ایک پیراگراف سمجھ لینے کے بعد ہی آگے چلیں۔ ہر پیراگراف کا مرکزی خیال سمجھتے جائیں۔ یہ عموماً پہلے جملے میں ہوتا ہے، کیونکہ مصنف اسی کی بنیاد پر آگے آنے والی باتیں کہتا ہے۔
مطالعہ غور وفکر کا نام ہے۔ لہٰذا اس کے دوران اپنے آپ سے سوالات کیجیے۔ جو سوال چاہیں پوچھئے۔ مثلاً مصنف نے کیا مرکزی خیال پیش کیا ہے؟ کیا میں اس کے دلائل سے متفق ہوں؟ کیا اس موضوع پر مجھے اس کے خیالات اور رائے سے اتفاق کرلینا چاہیے؟ یا ابھی دوسرے مصنّفین کی تحریروں سے ان کی تصدیق ضروری ہے؟
اس طرح کے سوالات کرنے سے تین فائدے حاصل ہوسکتے ہیں: (۱) یہ مطالعے میں آپ کی دلچسپی برقرار رکھتے ہیں۔ (۲) معلومات میں اضافے کا جو کام جاری ہے، یہ اس میں آپ کو عملی طور پر شریک رکھتے ہیں۔ (۳) ان کے ذریعے پڑھی گئی بات بآسانی ذہن نشین کی جاسکتی ہے۔
مختصر یہ کہ ان فوائد کی بدولت یہ سوالات آپ کی توجہ مطالعے کی جانب مبذول رکھتے ہیں۔
مطالعے کے تین اصول
(۱) آپ ایک طالب علم ہیں لہٰذا مطالعے کو فرض کی طرح اہمیت دیتے ہوئے جاری رکھیے۔ دماغ حاضر رکھتے ہوئے موضوع کے ساتھ مقابلہ کیجیے۔ دماغ ایسے مقابلوں میں دلچسپی لیتا ہے۔
(۲) مطالعے کے اختتام پر حاصل ہونے والی معلومات کو فوراً دوہرائیے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے آپ کو سنائیں یا پھر کسی دوسرے کو سنائیں۔ اگر فوری طور پر یہ ممکن نہیں ہے تو لکھ ڈالیے۔ چوں کہ صرف مطالعہ یادداشت کو بہتر نہیں بناتا، لہٰذا معلومات کو ذہن نشین کرنے کے لیے بہتر ہے کہ اسے زبانی یا تحریری طور پر دوہرابھی لیا جائے۔
(۳) نظر ثانی بھی ضروری ہے۔ اس کا بہترین وقت مطالعے کے فوراً بعد ہوتا ہے۔ لیکن بعد میں یہ کام وقتاً فوقتاً جاری رہنا چاہیے۔ ہر بار آپ کو ایک نیا پہلو ملے گا۔ ہر مرتبہ نئی بات علم میں آئے گی جو پچھلے مطالعے میں پوشیدہ رہ گئی تھی۔ اس طرح آپ کی یادداشت کی صلاحیت میں اضافہ ہوسکتا ہے اور نفسِ مضمون بھی اچھی طرح ذہن نشین کیا جاسکتا ہے۔
——