کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا، جو انتہائی ظالم تھا۔ اس کے تین بیٹے تھے جو کہ بہت ہی محنتی اور دیانت دار تھے۔ اس کے باوجود وہ سب کے سب بے روزگار تھے۔ بڑی محنت اور مشقت سے ان کے باپ نے انہیں پڑھایا لکھایا اور اس قابل بنایا کہ وہ خوشحال زندگی بسر کرسکیں، لیکن نوکری نہ ملنے کے سبب وہ اپنے باپ کے لیے بے کار ثابت ہوئے، ویسے بھی اب تو نوکریاں ملتی کہاں ہیں! ان کی بے روزگاری دیکھ کر کسان سے رہا نہ گیا اور بالآخر غصے میں آکر اس نے اپنے بیٹوں کو بے کار کہہ کر گھر سے نکال دیا۔ بیٹوں کے جانے کے بعد کسان اور اس کی بیوی اکیلے رہ گئے۔ کسان پر مالی بوجھ کم ہوگیا جس پر وہ سکون محسوس کرتا کہ وہ اب اپنا اور بیوی کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ لیکن کسان کی بیوی اپنے بچوں کو نہ پاکر پریشان رہنے لگی۔ ادھر کسان کے بیٹوں نے گھر سے نکل کر ہمت نہ ہاری، انھوں نے دوسرے شہر جانے کا بندوبست کیا اور وہاں جاکر روزگار کی تلاش میں لگ گئے۔ کافی بھاگ دوڑ کے بعد انھوں نے ایک چھوٹا سا کلینک کھول لیا۔ قسمت نے ان کا ساتھ دیا اور کلینک گاؤں میں خوب مشہور ہوگیا اور لوگ علاج کرانے اس کلینک میں آنے لگے۔ اس طرح ان کی آمدنی میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔یہاں تک کہ کلینک ایک بڑا نرسنگ ہوم بن گیا۔ کسان کے بچوں نے ان پیسوں کو جمع کرکے اسی گاؤں میں ایک مکان خرید لیا اور سکون سے رہنے لگے۔ ادھر کسان اپنے کمرے میں سورہاتھا، صبح ہونے کو تھی، چڑیوں کی چہچہاہٹ نے اس کی نیند خراب کردی۔ کسان نے غصے میںآکر چڑیوں کا گھونسلا توڑ دیا جس پر چڑیاں بے گھر ہوگئیں، انہیں اپنا گھونسلا ٹوٹنے کا اتنا دکھ ہوا کہ انھوں نے کسان کو بددعا دی کہ تجھے زندگی میں کبھی چین وسکون نہ ملے، جس طرح تو نے ہمیں دربدر کیا ہے تو بھی اسی طرح دربدر ہو اور کوئی تیرا پرسانِ حال نہ ہو۔ چڑیوں کی اس بددعا کے بعد رفتہ رفتہ کسان بے چین رہنے لگا۔ اسے کہیں سکون نہ ملتا، اسی وجہ سے وہ بیمار ہوگیا۔ بیماری اس حد تک بڑھ گئی کہ اسے غشی کے دورے پڑنے لگے۔ گاؤں میں کافی علاج کرایا لیکن اس کی طبیعت سنبھل نہ سکی، اس کے ایک ہمسائے نے مشورہ دیا کہ فلاں گاؤں میں کلینک بہت مشہور ہے تم اسے وہاں لے جاؤ۔ کسان کی بیوی اکیلی تھی، وہ اسے کس طرح لے جاسکتی تھی! ادھر گاؤں میں کسان کے بیٹوں کو خبر ملی کہ ان کا باپ بہت بیمار ہے اس کا کافی علاج کرایا گیا ہے مگر افاقہ نہیں ہوا۔ یہ سن کر وہ بہت پریشان ہوئے اور فوراً اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوگئے۔ گاؤں میں پہنچنے کے بعد انھوں نے اپنے باپ کا علاج کیا اور دعا بھی کرتے رہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ کسان کی طبیعت بحال ہوئی اور کچھ دنوں کے بعد وہ ٹھیک ہوگیا۔ کسان بہت شرمندہ تھا اپنے کیے پر، لیکن بچوں نے اپنے باپ کو معاف کردیا اور کسان کو اندازہ ہوگیا کہ اولاد کتنی بڑی نعمت ہے۔ اسے یہ بھی احساس ہوا کہ ظلم کرنے والے کبھی خوش نہیں رہ سکتے، اس لیے ہمیشہ بددعا سے بچتے رہنا چاہیے۔ اس کے سب بیٹوں نے اسے معاف کردیا اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔ چڑیوں نے بھی نئے گھونسلے بنالیے اور فضا چہکاروں سے گونجنے لگی۔ ——