انسانوں کے مزاج میں اچھائی اور برائی کے طبعی رجحان کے پیش نظر ہر زمانے میں اصلاح کی ضرورت رہی اور ہر امت اور ہر قوم میں مصلحین اور انبیاء و رسل آتے رہے حتی کہ آمد کا یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ کی نبوت و رسالت پر پایہ تکمیل کو پہنچا۔ آپؐ تشریف لائے تو اپنی بے مثال حکمت اصلاح سے پورے عالم کو ایک مکمل اور جامع طریق، اصلاح معاشرت کے لیے عطا فرمایا تاکہ دنیا اس پر عمل پیرا ہوکر فتنہ و فساد کی آگ میں جلتی انسانیت کو صلاح و فلاح سے ہم کنار کریں۔
اسلامی معاشرے کی بنیاد
رسول کریم ﷺ کی اس حکمت اصلاح میں اسلامی معاشرہ خدا پرستی کے ازلی اور ابدی اصولوں پر مبنی ہوتا ہے جس کے افراد ایک جسم کی طرح اجتماعی زندگی کے مستقل اور باقاعدہ رکن بن کر کام کرتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کی بنیاد ایک کنبے اور خاندان کی سی ہے جس کا ہر فرد ایک دوسرے سے اسلامی اخوت اور بھائی چارے کے رشتے میں اس طرح بندھا ہے کہ وہ پورے کنبے کی امن و سلامتی کا ضامن ہے۔ اور یہ رشتہ خون کے رشتے سے بھی زیادہ عزیز ہے۔
لوگوں کی خیرخواہی
اسلام حسن عمل اور احسان کی بنیادتعاون علی البر والتقویٰ پر رکھتا ہے اور ایک دوسرے کی خیر خواہی اور فلاح کو اصل دین قرار دیتا ہے تاکہ انسانوں پر دوسرے انسانوں کے ساتھ ہمدردی، غمخواری، اور خیر کی اہمیت کھل کر واضح ہوجائے۔ اس لیے رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اَلدِّیْنُ نَصِیْحَۃٌ، دین تو بس خیر خواہی کا نام ہے۔
نصیحت کا لفظ معاشرتی خیروفلاح کا ایک ایسا سرچشمہ ہے جس سے لاتعداد بھلائیاں اور خیر خواہیاں جنم لیتی ہیں اور شر و فساد اور برائیوں کے سوتے ہمیشہ کے لیے بند ہوکر رہ جاتے ہیں، اسی لیے آپؐ نے فرمایا:
رَاْسُ الْعَقْلِ بَعْدَ الْاِیْمَانِ بِاللّٰہِ مُدَارَاۃُ النَّاسِ۔
’’اللہ پر ایمان لانے کے بعد سب سے بڑا دانش مندانہ کام لوگوں کی دلداری کرنا ہے۔‘‘
اپنی حیات پاک میں حضور اکرمﷺ نے خیروفلاح اور دلداری کا جو عملی نمونہ پیش فرمایا، اس کی مثال نہیں ملتی، یہاں تک کہ ایک روز بیت اللہ کی دہلیز پکڑ کر فرمایا: ’’اے بیت اللہ! تو مجھے بڑا محبوب ہے، اس لیے کہ تو اللہ کا گھر ہے لیکن یاد رکھ تجھ سے کہیں زیادہ عزیز مجھے وہ دل ہے جس میں ایمان بستا ہے۔‘‘ شیخ سعدی فرماتے ہیں، جس کا ترجمہ ہے: ’’لوگوں کے دل جیت لے کہ یہ حج اکبر ہے۔ ایک دل ہزاروں کعبوں سے بہتر ہے۔
چار اہم باتوں کی تلقین
معاشرے میں دلداری کی یہی عظیم قوت پیدا کرنے اور اسے رواج دینے کے لیے سرور کائنات ﷺ نے چار باتوں کی تلقین فرمائی تاکہ معاشرہ محبت و اخوت کا گہوارہ بن جائے۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا:
اِفْشُوْا السَّلَامَ وَصِلُوْا الْاَرْحَامَ وَاَطْعِمُوْا الطَّعَامَ وَصَلُّوْا بِالَّیْلِ وَالنَّاسُ یَنَامُ تَدْخُلُوْا الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ۔
’’اپنے درمیان السلام علیکم کو عام کرو، خون کے رشتوں کو ملاؤ، دوسروں کو کھلاؤ، اور رات کو جب لوگ سورہے ہوں، اٹھ کر نماز پڑھو تو تم سلامتی اور خیر کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ ان چاروں باتوں پر عمل پیرا ہونے سے مومن کا دل شفقت و رحمت کا محور بن جاتا ہے، چنانچہ وہ ہر حال میں دوسروں سے نرمی اور نرم دلی سے پیش آتا ہے، جیسے کہ مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا: اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمَ۔ یعنی مسلمان ایک ایسا فرد ہے جس کی محبت و عداوت اور دوستی و دشمنی، اپنی ذات اور ذاتی حقوق و معاملات کے بجائے صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کی خاطر ہوتی ہے۔ اور ان کی لڑائی کا رخ، معاشرے کے امن پسند شہریوں اور اللہ کے فرمانبردار بندوں کی طرف نہیں بلکہ اس کے دشمنوں، شرپسندوں، تخریب کاروں اور نافرمانوں کی طرف ہوتا ہے۔ رہا اپنوں کا معاملہ تو وہ مومنوں کے ساتھ انتہائی شفیق اور مہربان ہوتے ہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
زندگی کے ۹ سنہری اصول
حسن معاشرت اور باہمی خیروفلاح کے اسی اعلیٰ مقصد کے حصول کی خاطر اللہ تعالیٰ نے نو باتوں پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی۔ ارشاد نبویؐ ہے:
’’میرے رب نے مجھے نو باتو ںکی تاکید فرمائی:
٭ یہ کہ میں چھپے اورکھلے ہر حال میں اللہ سے ڈروں۔
٭ غصے میں ہونے اور راضی ہونے کی، دونوں حالتوں میں عدل و انصاف سے کام لوں۔
٭ فقیری اور امیری دونوں میں میانہ روی اور اعتدال کو اپناؤں۔
٭ جو مجھ سے رشتہ توڑے میں اس سے جوڑوں۔
٭ جو مجھ سے چھینے میں اسے عطا کروں۔
٭ جو مجھ پر ظلم کرے میںاس کو معاف کروں۔
٭ اور یہ کہ میری خاموشی غوروفکر کے لیے ہو۔
٭ میرا بولنااللہ کے ذکر کے لیے ہو۔
٭ اور میرا دیکھنا عبرت کی خاطر ہو۔
حقیقتاً یہی نو باتیں حسنِ معاشرت کی جان ہیں۔ اور خاتم النّبیین حضرت رسول اکرم ﷺ کی حکمت اصلاح معاشرہ بھی ان ہی پر منحصر ہے کیوںکہ نیک نیتی اور اخلاص، عدل و انصاف، میانہ روی اور اعتدال، عفو و درگزر، جودوسخا، صلہ رحمی اور حسن تعلق، تفکر و تدبر، تسبیح و ذکر اور نصیحت و عبرت کے سنہری اصولوں ہی سے اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں وہ استحکام پیدا کیا جاسکتا ہے جس کی وضاحت رسالت مآب ؐ نے اس طرح فرمائی ہے۔
باہمی رحمدلی اور آپس کی محبت اور دوستی میں تم ایمان والوں کو ایک انسانی جسم کی طرح پاؤ گے کہ جب جسم کے کسی ایک عضو کو کوئی تکلیف لاحق ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے سارا جسم درد و کرب، بیداری اور بخار میں چلا اٹھتا ہے۔
حسن معاشرت کے اسی عملی نمونے کا اثر تھا کہ سرور کائنات ﷺ نے عربوں جیسی اکھڑ قوم کو جن کے بارے میں زبان زد عام یہ حقیقت تھی کہ ’’الاعراب اشد کفرا‘‘ (عرب اپنے کفر میں سب سے زیادہ سخت ہیں) اس طرح نرم و رحیم بنادیا کہ تقوی، راست بازی، خدا پرستی، انسان دوستی اور شفقت و محبت پر مبنی تمام تر فضائل اخلاق ان کے اندر پیدا ہوگئے۔
ان فضائل اخلاق کو عملی زندگی میں اختیار کرکے غیر مہذب اور بدوی قوم کے افراد نے ایک ایسا تہذیب یافتہ، پرامن اور متوازن نظام معاشرت قائم کرکے دکھایا جو دنیا میں امن و عافیت اور سکون اور اطمینان کاباعث بنا۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ زیورات سے لدی ایک نوجوان عورت تن تنہا مدینہ سے حضرموت تک سفر کرتی ہے اور کوئی برے ارادے سے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے والا بھی نہیں ہوتا۔
انسانیت کو توازن اور اعتدال اور عدل و انصاف پر مبنی اخلاق حسنہ کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے لوہا بھی نازل فرمایا تاکہ شرپسندوں کو اس کی قوت کے استعمال سے راہِ راست پر لایا اور ادب سکھایا جائے اور حدود و تعزیرات کے سخت ترین قوانین نافذ کرکے نافرمان اور قانون شکن افراد کی سرکوبی کی جاسکے، لہٰذا سورئہ حدید میں فرمایا:
’’ہم نے اپنے رسول نشانیاں دے کر بھیجے۔ اور ان کے ساتھ کتاب اور ترازو اتاریں تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور ساتھ ہی ہم نے لوہا بھی اتارا جس میں بڑا رعب ہے اورلوگوں کے لیے فائدے بھی بہت ہیں۔‘‘
گویا معاشرتی عدل کے قیام کے لیے حسن معاشرت کی تعلیم و تادیب کے ساتھ ساتھ اقتدار اور اختیار کی قوت اور حکومت کی طاقت بھی ضروری ہے تاکہ تخریب کاروں اور فسادیوں سے موثر طور پر نمٹا جاسکے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حکمت اصلاح کے تحت ایک طرف حسن اخلاق کی تربیت دی اور دوسری طرف معاشرے کے امن و عافیت اور سکون کو تہہ و بالا کرنے والے مجرموں کے خلاف سخت ترین شرعی ضابطے نافذ فرمائے۔
مومن معاشرہ کی مثال
یہ اسوہ رسول ﷺ کا ابدی کرشمہ ہے کہ آپؐ کی بعثت سے پہلے وہ لوگ جو آپس میں جانی دشمن تھے، آپؐ کی تشریف آوری کے بعد ایک دوسرے کے گہرے ہمدرد، غم خوار اور دلدار بن گئے اور تمام پرانی رنجشوں اور تلخیوں کو مٹاکر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ۔
’’یقینا اللہ ان لوگوں کو چاہتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح قطار باندھ کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔‘‘
غرض یہ کہ رسول ﷺ کی حکمت اصلاح معاشرہ اجتماعی زندگی میں انسانوں کو وہ استقلال اور استحکام عطا کرتی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے تو ایک مضبوط اور منظم اجتماعیت کا قیام عمل میں آتا ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایک ایسی دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو باندھتا ہے۔ پھر رسول ﷺ نے اپنی انگلیوں سے انہیں ایک دوسرے میں ڈال کر جالی بنائی۔اور بتایا کہ مسلمان جالی کے تاروں کی طرف آپس میں پیوست ہوتے ہیں۔
اس معاشرتی حکمت عملی کے نتیجے میں نہ صرف معاشرے سے طبقاتی منافرت کا خاتمہ ہوجاتا ہے بلکہ ہر فرد شریعت و قانون کی پابندی اپنے گھر کے بند کمروں میں اور رات کی تنہائیوں میں اس طرح کرنے لگتا ہے کہ اس کا ضمیر اس کے لیے محافظ اور پولیس مین کا کردار ادا کرتا ہے۔
خوف خدا سے اصلاحِ احوال
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ کے خدائی اعلامیہ کے مطابق خدا کے خوف اور مالک حقیقی کے ڈر کی بنا پر مجرم ارتکاب جرم کے بعد خود ہی اقبال جرم کے لیے ہمہ تن مستعد ہوجاتا ہے، اس خدشے سے کہ کہیں یہ جرم مرنے کے بعد بھی میرے ساتھ ہی چمٹا نہ رہے، بہتر ہے کہ قاضی اس کی پاداش میںمجھ پر سزا نافذ کرے اور مجھے میرے گناہ سے دنیا ہی میں پاک کردے۔
چنانچہ عہدِ نبویؐ میں حضرت ماعز بن مالک کا واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ کس طرح بے تابی سے حضور رسالت مآب ﷺ کے پاس پہنچے اور اپنے آپ کو انھوں نے کس طرح کھلے اقبال جرم کے بعد مردانہ وار سزا کے واسطے پیش فرمایا۔ کیسا دل ہلادینے والا منظر ہوگا کہ جوں جوں سنگ باری شدید ہوئی حضرت ماعز توں توں زیادہ مطمئن اور زیاد خوش نظر آتے گئے حتی کہ دنیا کے سارے گناہوں کا بوجھ دنیا ہی میں اتار کر ہلکے پھلکے اور پاک و صاف ہوکر اللہ کے حضور سرخرو ہوئے۔ یہ وہی مقام ہے جس پر زبان رسالت مآب ﷺ سے یہ سرٹیفیکٹ جاری ہوتا ہے کہ ماعز نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس توبہ کو مدینہ کے ستر گنہگاروں پر تقسیم کردیا جائے تو سب معاف کردیے جائیں۔ ریاست مدینہ کے علاوہ کسی اور مقام پر اصلاح احوال کا اس سے زیادہ خالص اور بے داغ منظر کیوں کر دیکھنے میں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دور نبوت میں عدل و احسان اور امن وامان کا مثالی نظام قائم ہوا۔
صلاح و فلاح کا اسلامی تصور
قرآن کے نزدیک صالح وہ ہے جو صرف ایک اللہ کی ربوبیت کے تصور پر جمے رہنے کا عملی ثبوت دے، خود اللہ کا ہوکر اسی کی حکم برداری کا اعلان کرے۔خود اسی کی پسندیدہ روش پر چلے اور دنیا والوں کو بھی اسی کی طرف آنے کی دعوت دے۔ اس کا قول و فعل لوگوں کو خدا کی طرف لانے میں موثر ہو اور وہ خدا کی بندگی اور فرمانبرداری کا اعلان کرنے سے کسی موقع پر اور کسی حال میں بھی نہ شرمائے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اس سے بہتر کس کی بات ہے جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک کام کیے اور کہا کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
ایک صالح مومن کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ مخلوق کے ساتھ اپنے تعلق کو درست رکھے اور حقوق العباد کی پاسداری میں بھی کسی طور کوتاہی نہ کرے۔ حسن اخلاق کو اپنائے اور کسی کو برائی کا جواب برائی سے نہ دے بلکہ جہاں تک ممکن ہو، برائی کے مقابلے میں بھلائی سے پیش آئے۔ غصے کے جواب میں بردباری، گالی گلوچ کے جواب میں تہذیب و شائستگی اور سختی کے جواب میں نرمی اور مہربانی سے پیش آئے۔ اس طرز عمل کانتیجہ یہ ہوگا کہ سخت سے سخت دشمن بھی ڈھیلا پڑ جائے گا اور بداخلاقی کرنے والا بھی خوش خلقی کے ضابطے اپنانے لگے گا۔
نرمی وحکمت کا بے مثال واقعہ
ایک بدو نے مسجد نبوی میں پیشاب کردیا۔ صحابہ کرام دوڑے کہ اسے روکیں۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ٹھہرو، اسے مت روکو اور پیشاب کرنے دو۔ وہ دیہاتی ہے۔ اسے آداب مسجد کا علم نہیں۔‘‘ بلکہ فرمایا: ’’قَرِّبُوْا وَلَا تَنَفِّرُوْا‘‘ (قریب آنے دو، اسے بھگاؤ نہیں)۔ پھر جب وہ پیشاب کرچکا تو آپؐ نے بڑے پیار سے اسے بلایا، عزت سے بٹھایا اور حکم دیا کہ بھوکا ہے اسے کھانا کھلاؤ۔ پیاسا ہے پانی پلاؤ اور نئے کپڑے پہناؤ۔ زادِ سفر کے لیے پیسے بھی دو اور سواری کے لیے اونٹنی بھی۔ اور جب عزت کے ساتھ اسے روانہ کرنے لگے تو فرمایا: ’’دیکھو یہ مسجدیں گندگی، پیشاب اور پاخانے کے لیے نہیں ہیں بلکہ نماز پڑھنے اور اللہ کا ذکر کرنے کے واسطے ہیں۔‘‘
یہ تھا دربارِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکمت بھرا طریقہ تعلیم جس نے اس بدو کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی۔ اس نے اپنے گاؤں پہنچ کر اعلان کیا کہ آؤ اس نبیؐ کے پاس جو جرم کے بدلے سزا نہیں دیتا، جزا دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سرشام اپنے گاؤں کے تین سو افراد کے ہمراہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوا۔
ہمیں یہ بات کسی بھی صورت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ معاشرتی اصلاح کا راستہ اپنی ذات کی اصلاح سے ہوکر گزرتا ہے اور یہی باتیں مختلف انداز میں ہمارے پیارے رسولؐ نے ہمیں بتاتی ہیں۔