انسانی زندگی میں عورت کا مقام مسلم ہے۔ کائنات کے رنگ اسی کے دم سے ہیں۔ اس کے کردا رکے بغیر نہ انسانی زندگی کی بقا ممکن ہے اور نہ ہی تعمیر معاشرہ۔ مکان کو گھر بنانے والی، رشتہ ناتوں کو نبھانے والی اور اپنی ذات پر سمجھوتہ کرنے والی عورت ہی ہوتی ہے۔ اقوام کے اصلاح احوال کی تاریخ میں بھی عورت کا کردا رنظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔
عورت کے معاشرتی زندگی میں اس قدر اہم مقام و حیثیت کے باوجود ہر دور اور زمانے میں اس کے مقام کے تعین پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ مختلف مذاہب، مکاتب فکر اور قومی نظریات میں عورت کی حیثیت کو کسی نہ کسی اعتبار سے متنازع بنایا گیا۔ ہمارا معاشرہ اس حوالے سے بے حد عدم توازن کا شکار ہے۔ اس پر غور کیا جائے تو اجمالاً دو وجوہات سامنے آتی ہیں:
٭ بحیثیت انسان عورت کے مقام، حیثیت، دائرہ کار اور حقوق و فرائض کے تعین کے بارے میں غلط تصورات کا شکار ہونا۔
٭ خالق انسان کے بنائے ہوئے فطری معاشرتی قوانین کو مسترد کرنا یا ان کو چھوڑ کر متبادل قوانین وضع کرنا جو غیر ضروری اور غیر متوازن ہوں۔
ان دونوں میں سے جو عمل بھی کسی قوم یا معاشرہ میں اختیار کیا گیا، تاریخ کا جائزہ بتاتا ہے کہ اس قوم کی معاشرت کی عمارت منہدم ہوگئی اور ترقی معکوس ہوتی۔
فی مانہ بھی عورت کے حقوق اور مساوات مرد و زن کے حوالے سے بحث ہوتی رہتی ہے، جس میں سب سے زیادہ نشانہ سماجی اقدار کو بنایا جاتا رہا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورت کا جو مقام و مرتبہ متعین کیا ہے، مردوعورت کے دائرہ عمل کی حدود جو وضع کی گئی ہیں، اس سے بہتر کسی دور، کسی زمانہ اور کسی قوم کے دستور معاشرت میں نہیں ہیں اور نہ بن سکتے ہیں۔ مرد اور عورت کے مقام اور ان کے دائرہ عمل کے تعین میں ایک کشمکش کی فضا بنا دی گئی ہے اس کے چند پہلو یہ ہیں:
۱- مرد اور عورت کی حیثیت اور مقام کا تعین
۲- مرد و زن کی ایک دوسرے کے دائرہ عمل میں مداخلت
۳- مرد کی قوامیت کیوں؟
۴- موجودہ حالات میں خواتین کے حقوق کا استحصال اور اس کا تدارک۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلام اس حوالہ سے کیا راہ نمائی دیتا ہے۔
مقام و حیثیت کے باب میں اسلام کے نظام معاشرت میں کہیں بھی مرد و زن کے مابین کشمکش کی صورت حال نہیں۔ کوئی معرکہ برپا نہیں ہوتا۔ مفادات کی بنیاد پر ایک دوجے کے مقابلہ میں کوئی دشمنی نہیں ہوتی۔ اس میں نہ مرد عورت کے مفادات پر حملہ آور ہوتا ہے اور نہ عورت مرد کے مفادات پہ حاوی ہوتی ہے۔ نہ ہی ایک دوسرے کی کمزوریوں کی ٹوہ میں رہ کر انھیں اجاگر کیا جاتا ہے۔ اسلام کا تصور یہ ہے کہ نفس انسانی کو اللہ تعالیٰ نے مکرم بنایا ہے۔ جس میں عورت اور مرد دونوں شامل ہیں۔ اللہ کے قانون میں جس طرح مرد ملکیت رکھ سکتا ہے اسی طرح عورت بھی حق ملکیت رکھتی ہے۔ جس طرح مرد حق وراثت رکھتا ہے اسی طرح عورت بھی یہ حق محفوظ رکھتی ہے۔ اسلام نے عورت کو حق ملکیت، حق وراثت، سیاسی حقوق، ازدواجی حقوق، حق تعلیم، حق معیشت اور خود مختاری کے حقوق عطا کیے ہیں۔ قبل اس کہ وہ بغاوت پر اترے، یا ان حقوق کے حصول کے لیے تنظیمیں قائم کرے، اور چار ٹر آف ڈیمانڈ پیش کرے۔ دوسری جانب مرد اگر ان حقوق کی ادائیگی نہ کرے تو اس کے لیے سزائیں بھی ہیں، جن پر عمل در آمد ریاست و حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
دائرہ عمل کے باب میں از روئے فطرت جو فرائض و واجبات اسلام نے مرد اور عورت پہ عائد کیے، ان میں عدل و انصاف کو کلیتاً ملحوظ رکھا گیا ہے۔ یعنی یہ کام مرد و زن کی فطرت کو دیکھتے ہوئے کیا گیا۔ عورت کے اندر جو فطری صلاحیتیں ہیں، ان میں نرمی، مہربانی جلدی متاثر ہو جانا، جلدی جواب دینا، زور رنجی و جذباتیت، قوت فیصلہ، ایک ہی وقت میں کئی امور نمٹانے کی صلاحیت، مستقل مزاجی، عزم و حوصلہ سمیت بہت سے خصائل اس کی نفسیات کا حصہ ہیں۔ عورت کی فطرت میں ان خصوصیات کا پایا جانا کوئی سطحی چیز نہیں ہے۔ تعمیر شخصیت کی جو ذمہ داری اس کے سپرد کی گئی وہ اسی نفسیات کے متقاضی ہے اور جو پورے معاشرہ کی بنیاد اکائی یعنی گھر اور خاندان پہ اثر انداز ہوتی ہے۔ انفرادی و اجتماعی حالات اور ضروریات کے مطابق عورت کا مرد کے دائرہ عمل کا حصہ دار بننا، اس طرح کہ اس کی اپنی فطری ذمہ داری اور نسوانی وقار و تحفظ متاثر نہ ہو یا وہ اپنے فرائض کو چھوڑ کر مرد کی ذمہ داریوں کو مستقل طور پر نہ اٹھانے لگے، عورت کے لیے کوئی کام بھی ناممکن اور معیوب نہیں۔ وہ گھر داری سے کاروبار تک کے امور سر انجام دے سکتی ہے۔ قومی، نظریاتی و دفاعی میدانوں میں فکری اور عملی تعاون دے سکتی ہے، لیکن جہاں فطری حقائق اور فرائض و واجبات کو نظر انداز کیا جائے، وہاں معاشرت میں بگاڑ کا راستہ آپ کھل جاتا ہے۔ دوسری طرف مرد کو جو خصوصیات دی گئیں ان میں سے اہم ترین ان کی سخت جانی اور مضبوطی ہے۔ مرد جلدی متاثر نہیں ہوتا، کسی صورتِ حال کو جلدی قبول نہیں کرتا، قوتِ فیصلہ کا حامل ہوتا ہے اور کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ان کے نتائج پر غور کرتا ہے۔ مرد میں ایسی خصوصیات موجود ہیں۔ ہ وہ فطری طور پہ نگرانی اور کفالت کی ذمہ داری کو اٹھا سکے۔ اس ضمن میں یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ نگرانی کا مطلب یہ نہیں کہ کسی خاندان یا معاشرے کے اندر عورت کی شخصیت کی نفی کی جائے۔ نہ اس کا مقصد یہ ہے کہ عورت کی شہری حیثیت ختم ہوجائے، بلکہ در اصل خاندانی نظام کے اندر اس کی ایک ذمہ داری ہے، جو اس اہم ادارے کو بہ حسن خوبی چلانے اور اس کی حفاظت کرنے کے لیے اس پر عائد کی گئی ہے۔ عقلی تقاضہ ہے کہ کسی ادارے کا نگراں مقرر کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خود اس ادارے کے وجود کو ختم کرے گا، یا اس کے ارکان کی شخصیت کی نفی کردے گا یا حقوق تلف کرے گا، بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ نہایت نرمی، شفقت اور رحمت کے ساتھ اس فرض کا ادا کرے۔
اسلام میں اس حوالے سے واضح احکام ہیں۔ عورتوں سے حسن سلوک کے بارے میں جو تعلیم دی وہ ہر مسلمان کے لیے مشعل راہ ہے۔ لیکن قابل فکر بات یہ ہے کہ اس طرزِ معاشرت کو عملاً رائج کرنے کی فکر اور اقدام مسلم معاشروں میں بھی مقدم نہیں، کجا کہ عصر حاضر میں دنیا کے سامنے ایسے مثالی معاشرہ کا نمونہ قائم ہو۔ ایک اور اہم پہلو خواتین کے حقوق کا استحصال اور اس کے اثرات ہیں۔ وہ ہیں خواتین کا عدم تحفظ، ظلم، جبر اور گھریلو تشدد، جس کو جہالت کے علاوہ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ خواتین پہ گھریلو تشدد کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ غیرت کے نام، قتل، غلط رسوم و رواج کی پاس داری، جہیز کی قاتل رسم ، گھریلو جھگڑے اور پر تشدد رویے اور بے شمار جاہلانہ طریقوں اور روایتوں نے اس جدید دور میں بھی سیکڑوں خواتین کی زندگیاں داؤ پر لگا دیں اور خاندانوں کو برباد کر دیا۔ عزت پہ حملہ معمولی واقعہ بنتا جا رہا ہے، اب تو معصوم بچے بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ خواتین کی حق تلفی خواہ وہ ازدواجی حقوق اور حق وراثت نہ دینے کی صورت میں ہو، طلاق کے معاملات لٹکانے کی صورت میں ہو، عائلی زندگی میں غیر مناسب رویوں اور ناروا سلوک ہو، مشترکہ خاندانی نظام میں اس کی حیثیت کی نفی ہو، اس تجزیہ کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ یہ سب ہمارے معاشرہ کا حصہ ہیں اور ان معاشرتی مسائل کا حل تلاش کرنا ہماری ناگزیر ضرورت ہے۔ تو کیا اس کا حل قانون سازی میں ہے؟ ہمارے ملک میں مغرب کے طرز کی قانون سازی کرتے ہوئے مختلف النوع قوانین بنائے گئے، ہندو کوڈ بل سے لے کر ڈومسٹک وائلنس پروٹیکشن ایکٹ 2005 تک کا جائزہ بتاتا ہے کہ ہندوستانی معاشرے میں عورت کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی گئی ہے، تشدد اور ان کے خلاف جرائم کا گراف اوپر کی طرف جا رہا ہے۔ بات صاف ہے کہ اگر محض قانون سازی سے حالات بہتر ہو سکتے ہیں تو پھر مغربی دنیا میں عورت کی یہ حالت زار نہ ہوتی۔
ہم درخت کی جڑوں کا مسئلہ حل کیے بغیر شاخوں کو کاٹتے چھاٹتے چلے جا رہے ہیں اور ہر شاخ کے کاٹنے کے نتیجہ میں پھر ایک نئی شاخ کو کاٹنا پڑ رہا ہے، سوچئے کہ اصل میں مسئلہ کہاں ہے؟ معاشرتی زندگی عدم توازن کا شکار کیوں ہے؟ غور طلب بات یہ ہے کہ جس طرزِ معاشرت کو پروان چڑھا رہے ہیں وہ ہمیں ایسے ہی پھل تو دے گا! ہم خواتین کے لیے عافیت گھر تو بنا سکتے ہیں لیکن گھروں کو عافیت کدہ بنانے کی کیا کوئی حکمت عملی ہمارے پاس موجود نہیں، گھریلو سکون عورت اور مرد کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ گوکہ بات خواتین کے حقوق کی ہے لیکن ان کا فرائض سے اجتناب بھی گھر کا توازن خراب کرتا ہے۔ بسا اوقات عورت ہی عورت کے لیے مسائل کھڑے کرنے کا محرک بھی بن جاتی ہے۔ گھریلو تشدد، لڑائی جھگڑوں، طلاق و خلع، ان سب مسائل کی بنیادی وجہ لاعلمی اور جہالت ہے۔ دین سے دوری ہے۔ اخلاقیات، حقوق و فرائض کی ادائیگی، احساس ذمہ داری و جواب دہی، معاشرتی زندگی کے نفسیاتی تقاصے، میرج کونسلنگ، خانگی مسائل کے حل جیسے پہلوؤں کو اگر معاشرتی زندگی میں اہمیت دی جائے تو معاشرہ ایسے مسائل سے نجات پاسکتا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ ہم تعمیر سیرت، ذہن سازی، شخصیت و کردار کی مضبوطی، گھر اور خاندان کے استحکام کا سامان کیے بغیر من بھاتے نتائج کے خواہاں ہیں۔ مقصد ہر گز یہ نہیں کہ ہم حقیقت سے نظریں چرالیں، عورتوں پہ ظلم و ستم برداشت کرتے رہیں، ان کی زندگیاں رسوم کے نام پہ تباہ ہوتی دیکھتے رہیں اور قانون کی ضرورت اور اثر انگیزی کے منکر ہوجائیں۔ سزاؤں کے نظام کا پہلو تو خود اسلام کے اندر بھی موجود ہے۔ اگر ہم فی الواقع اپنی معاشرت کے استحکام میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں بنیاد یعنی استحکام خاندان کی طرف توجہ دینی ہوگی اور تعمیر شخصیت، معاشرتی فرائض و واجبات کی ادائیگی کا احساس اور ایثار اور قربانی کا اہتمام کرنا ہوگا، بہ صورتِ دیگر جس طرح دوسرے معاشرے اپنے معاشرتی مسائل سے جس قدر پریشان حال ہیں اور ہر مسئلہ کے حل کے نتیجے میں نئے مسئلہ کا انھیں سامنا رہتا ہے ہمارے معاشرہ کا حال بھی اس سے مختلف نہ ہوگا۔lll