یہ تو سب جانتے ہیں کہ اسلام نام ہے کچھ عقائد و عبادات کا، لیکن معاملات میں کیا جائز ہے، کیاناجائز ہے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اس سلسلے میں کیا احکام و قوانین مقرر کیے ہیں، اس سے عوام اکثر بے خبر ہیں۔ مسجد میں فرائض اور نوافل ادا کرلیے، یہ تو سب کے لیے آسان ہے، لیکن بازار میں کیا کریں، کیا نہ کریں، اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ معاملات اگر شریعت کے خلاف ہوئے تو یہ بھی فرائض سے کوتاہی ہوگی۔اسی لیے امام اعظم کے شاگرد امام محمد سے کسی نے کہا کہ آپ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں لیکن تصوف پر کوئی نہیں لکھی۔ آپ نے فرمایا سارا تصوف اس میں ہے کہ آدمی حلال روزی کھائے، حرام لقمے سے اول تو عبادت کی توفیق ہی نہ ہوگی، اگر عبادت کر بھی لی تو اس سے فیض نہ پاسکے گا۔
اخلاق و اعمال سے غفلت
عموماً لوگوں نے نماز، روزہ اور حج ہی کو عبادت سمجھ رکھا ہے اور معاملات کی طرف توجہ بہت کم ہے۔ چوتھی چیز اخلاق اور اعمال باطنہ کی اصلاح ہے، اس سے عوام تو غافل ہیں ہی، اہلِ علم بھی اس میں کوتاہی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو علم کے اعتبار سے درجہ کمال حاصل ہے، مگر ان کی باطنی حالت خراب ہے ریا ہے، حسد اور بغض ہے، یہ دل کی ناپاکی ہے۔ جیسے نماز کے لیے کپڑا اور جسم پاک کرنا ضروری ہے۔ کبر، ریا جیسے امراض کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ جیسے چوری اور شراب سے بچنا فرض ہے، ان باطنی گناہوں سے بچنا بھی لازم ہے۔ افسوس ہے کہ اہلِ علم بھی اس میں غفلت کرتے ہیں مثلاً باطنی امراض میں ایک مرض ریا اور دکھاوا ہے۔ قرأت کر رہے ہیں، ارادہ یہ ہے کہ مجھے بہت اچھا قاری سمجھا جائے۔ وعظ کررہے ہیں کہ واہ واہ ہوگی۔ یہ زبردست روگ ہے، ریا کاری ہے۔ انسان کو ریا کا عیب لگ جائے تو پھر اس میں کبر اور بغض پیدا ہوجاتا ہے۔، مثلاً یہ خیال کیا کہ میں دوسروں سے اچھا ہوں، کبر ہے۔ یہ ریا اور کبر بھی کبائر میں سے ہیں۔ جنت میں نہیں جاسکتا وہ شخص جس کے دل میں کبر ہے۔ دوسرے کو کمتر سمجھنا کبر ہے۔ نماز پڑھ لی اور بے نمازی کی حقارت دل میں آگئی، یہ بھی کبر ہے۔ برے فعل سے نفرت ہونی چاہیے مگر فاعل سے نفرت نہ کی جائے۔ ایک شرابی شخص ہے، ہمیں حق نہیں کہ اس کو کمتر سمجھیں۔ معاملہ انجام پر ہے۔
ساری عمر نیکیاں کرتے رہیں، مگر ایک کلمہ کفر بول دینے پر سب نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں۔ یہ معاملہ بڑے بڑے متقیوں کو پیش آجاتا ہے۔ بدی اور غیبت بھی ان میں داخل ہے۔ آپ کو کوئی حق نہیں کہ کسی کو حقیر سمجھیں۔ تیسری بات حدیث میں ہے کہ جو آدمی کسی گنہگار کو مبتلائے گناہ دیکھ کر استہزاء کرے، وہ اس وقت تک مرتا نہیں جب تک خود اس گناہ میں مبتلا نہ ہوجائے، لہٰذا اس معاملے میں اور احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایک بزرگ اچھے عالم تھے، مگر ہر بات پر نکتہ چینی کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد دیکھا گیا کہ وہ خود اسی میں مبتلاتھے۔
بغض اور کینہ
جس کے دل میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض ہو وہ جنت میں نہ جائے گا۔ بغض اور کینہ کے یہ معنی نہیں کہ کسی نے برا کہا تو دل میں اس کی طرف سے رنج آگیا۔ بغض و کینہ کے معنی یہ ہیں کہ انسان اس فکر میں رہے کہ موقع ملے تو دوسرے کو تکلیف پہنچائے یا اس کو نقصان یا تکلیف پہنچے تو اس پر خوش ہو، اس لیے کہ انتقام اختیاری چیز ہے۔ اس جذبے کا نام کینہ ہے، یہ بھی چوری اور شراب کی طرح حرام ہے۔
آدابِ معاشرت
اسلامی معاشرت کے معنی یہ ہیں کہ رہن سہن کا ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے دوسروں کو ایذا نہ پہنچے۔ ایک مسلمان کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا اور بولنا چالنا ، بازار اور گھر دونوں جگہ ایسا ہو جس سے دوسروں کو ذرا بھی تکلیف اور ٹھیس نہ پہنچے۔
قرآن میں ایسے لوگوں کو عباد الرحمن کہا گیا ہے جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ چال چیونٹی کی ہوبلکہ ان کی چال سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کوئی بڑا آدمی جارہا ہے۔ ان میں اکڑفوں نہیں ہوتی۔ لوگ ان سے جاہلانہ گفتگو کریں تو وہ کہتے ہیں: ’’سلام ہے۔‘‘ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک تو یہ کہ جواب کچھ نہ دیا، سلام کہہ کر چل دئیے۔ دوسرا یہ کہ اس جاہل کا جواب سلامتی سے دیں، ظلم کا جواب عدل سے دیں، حضرت شاہ اسماعیل شہید کا واقعہ ہے ۔ وہ ردِ بدعت میں بہت وعظ کہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ جامع مسجد دہلی میں یہی بیان کررہے تھے۔ لوگوں نے ایک شخص کو سکھایا ، پڑھایا کہ مولانا آئیں تو کہنا مجھے کچھ پوچھنا ہے۔ شاہ صاحب تشریف لائے اور اس کے اجازت طلب کرنے پر فرمایا: کہو۔ اس نے کہا: حضرت! ہم نے سنا ہے آپ حرامی ہیں۔‘‘
شاہ صاحب نے کمال تحمل اور متانت سے کام لیتے ہوئے فرمایا: ’’تم کو غلط خبر پہنچی ہے، میری والدہ کے نکاح کے گواہ آج بھی موجود ہیں۔ مجھے کون حرامی کہتا ہے۔‘‘
یہ ہے سلامتی کی بات کہ ایک جاہل کی گالی کو دینی مسئلہ بناکر بیان فرمایا۔
اللہ پاک نے عبادالرحمن کی تعریف کی ہے کہ آہستہ چلتے ہیں تاکہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔ وہ عاجزی سے چلتے ہیں، سینہ تان کر نہیں چلتے، کسی کو دھکا دے کر نہیں چلتے۔ ان کی تیسری صفت یہ ہے کہ اپنے رب کے سامنے سجدے میں رات گزارتے ہیں۔ سورۃ الفرقان کی ان آیات میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ پہلے آہستہ چلنے کی بات ہے، پھر سلامتی کی بات کرنا اور تیسرے نمبر پر سجدے کی بات ہے ۔ معلوم ہوا کہ انسانی معاملات عبادت پر اولیت رکھتے ہیں، چنانچہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا:
’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ تکلیف دوسروں کو زبان اور ہاتھ سے ہی پہنچتی ہے۔ یہ حدیث آدابِ معاشرت کا سب سے بڑا عنوان ہے۔ اپنے رہن سہن، چال ڈھال اور بول چال کو ایسا بناؤ کہ اپنے پرائے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ حضورﷺ نے فرمایا: ’’ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے ہیں۔ ان میں ادنیٰ یہ ہے کہ راستے سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دو۔‘‘
نبی کریمﷺ نے اس عمل کو اتنی اہمیت دی ہے کہ اسے شعبہ ایمان قرار دیا ہے۔ افسوس کہ اس میں سب ہی غفلت برتتے ہیں۔ تم نے پتھر راستے میں نہیں پھینکا مگر تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو راستے سے ہٹا دو۔ جو شخص ایذا دینے والی چیز خود راستے میں ڈال دے، اس کی بدبختی کا کیا کہنا! حضورﷺ نے فرمایا: ’’لعنت کی دو چیزوں سے بچ! کسی سایہ دار درخت کے نیچے پیشاب کرنے سے اور گندگی پھیلانے سے بچ۔ اس لیے کہ دوسروں کو تکلیف ہوگی۔‘‘ اس کا اطلاق گھر، ریل، اسٹیشن، ہسپتال، دفتر ہر جگہ ہوتا ہے، جہاں تم بیٹھتے ہو۔ دیکھئے صفائی دین کا جزو ہے مگر ہم گندگی پھیلانے کو گناہ نہیں سمجھتے۔ یہ گناہ کبیرہ ہے کہ اس سے دوسرے مسلمان کو ایذا پہنچتی ہے۔ بیت الخلاء میں گئے اور گندگی چھوڑ کر چلے آئے اس کو لوگ گناہ نہیں سمجھتے حالانکہ یہ بھی گناہِ کبیرہ ہے۔
بے وقت فون کرنا اور کسی کے گھر جانا
اللہ پاک فرماتے ہیں کہ جب کسی کے گھر جاؤ، بغیر اجازت کے نہ جاؤ اور جاکر سلام کرو اور ایسے وقت جاؤ کہ اس کے کھانے یا آرام کا وقت نہ ہوا۔ یہ فرائض میں ہے۔ اس کے خلاف کرنا اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ مگر ہم اس کو گناہ نہیں سمجھتے۔ جس وقت جی چاہا کسی کے گھر جاکر دھڑ دھڑ کرنے لگے۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ دوسروں کی ایذا رسانی سے بچو، کسی کی ناگواری سے بھی بچو، کسی کے شیشہ دل میں بال نہ آنے پائے۔
ٹیلیفون رکھنے والوں کو رات کے بارہ بجے بلانا بھی ایذا رسانی ہے۔ بے رحموں کو کچھ فکر نہیں کہ دوسروں کو کس قدر تکلیف ہوتی ہے۔ اور لوگ گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کسی کے دل کو مجرح کرنا، اس سے بڑا دنیا میں کوئی گناہ نہیں اور کسی مومن کا کسی طریقے سے دل خوش کرنا سب سے بڑی نیکی ہے۔